انتخابات کے بعد سندھ کی کابینہ نے حلف اٹھالیا سندھ کابینہ میں اس بار کافی ردوبدل کیا گیا ہے اس وقت تک جو نام سامنے آئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی پی پی قیادت سندھ میں اس مرتبہ کام کرنے میں کافی سنجیدہ ہے پی پی پی نے اس مرتبہ بلدیات کا چارج کراچی سے منتخب ہونے والے ایم پی اے سعیدغنی کو دیا ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ پی پی پی کراچی پر اس مرتبہ توجہ دے گی سعیدغنی کا شمار پی پی پی کے متحرک رہنماؤں میں ہوتا ہے اہلیان کراچی کو ان سے کافی امیدیں ہیں دوسری جانب حلف اٹھانے کے بعد مزارقائد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ نے متنبہ کیا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیئے تاہم کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بناناچاہیئے سندھ میں کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تو بھرپور ردعمل دیں گے تحریک انصاف کی جانب سے کراچی کو اہمیت دینے پر خوشی ہوگی، سابق وزیراعظم نواز شریف اور شاہدخاقان عباسی نے بھی کراچی کو ترجیح دی تھی ہماری دعا ہے کہ موجودہ حکومت غلط روایات نہ ڈالے ہمارے ساتھ گزشتہ حکومت میں 25 ارب روپے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ہمیں 25 روپے بھی نہیں دیئے گئے جو صوبہ زیادہ وسائل دیتا ہے اسے ترقیاتی فنڈز بھی اسی حساب سے ملنے چاہئیں۔وزیراعلیٰ سندھ کو اس مرتبہ خاصے چیلنجز درپیش ہیں ان کی اور ان کی کابینہ کی کارکردگی کی نگرانی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کررہے ہیں انہیں ناصرف نامکمل ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے ہیں بلکہ نئے منصوبوں کی بھی شروعات کرنی ہے کرپشن کا خاتمہ، تعلیم اور صحت میں امیدافزاء پیش رفت، تھر میں بڑھتی اموات پرقابو، این ایف سی میں مناسب حصہ، وفاق کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی ، امن وامان سمیت سیاسی میدان میں حریفوں کی نکتہ چینیوںکا عملی اقدامات سے جواب جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا کہاجارہاہے کہ عام انتخابات کے بعد تبدیل شدہ سیاسی صورتحال میں وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس مرتبہ انہیں کافی حدتک انتظامی طور پر فیصلے کرنے کی آزادی ہوگی پیپلزپارٹی کے ذرائع کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظرپیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے وزیراعلیٰ سندھ کو یقین دہائی کرائی ہے کہ انہیں فیصلہ سازی میں فری ہینڈ حاصل ہوگا تاکہ گزشتہ دور کے مقابلے میں اس مرتبہ حکومت سندھ زیادہ بہترطریقے سے کارکردگی دکھاسکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پہلی مرتبہ عملی طور پر پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا ہے متوقع طور پر بلاول بھٹو زرداری کی زیادہ توجہ خاص طور پر سندھ پر مرکوز رہے گی اور اس وجہ سے اس مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ کو اپنے نوجوان اور سربراہ بلاول بھٹو زرداری کا زیادہ تعاون بھی حاصل رہے گا۔ ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی اس مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ سے زیادہ توقعات رہیں گی کیونکہ انہی توقعات کی بنیاد پر پیپلزپارٹی کی قیادت نے انہیں دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ منتخب کرایا ہے۔مراد علی شاہ انجینئرنگ کا تجربہ رکھتے ہیں وہ ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیں گے؟ واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے گزشتہ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی سیدمرادعلی شاہ کی آئندہ وزیراعلیٰ سندھ کے طور پر نامزدگی کردی تھی۔ دوسری جانب پی پی پی کی قیادت ایف آئی اے کی جانب سےمنی لانڈرنگ میں گرفتار سابق صدرآصف علی زرداری کے ساتھی انورمجید، حسین لوائی کی وجہ سے سخت دباؤ میں ہے اس دباؤ کا اظہار وہ کریں یا نہ کریں ان کے سیاسی اقدامات اس جانب واضح اشارہ کرتے ہیں کہ وہ کھل کر اپنا سیاسی کردار ادا نہیں کرپارہے گرچہ 2018 کے انتخابات میں انہیں ناصرف سندھ اسمبلی میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں بلکہ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنا اسکوربہتر کیا ہے تاہم اس کے باوجود پی پی پی کے احتجاج کا تعین کا یقین ایف آئی اے کی طرف سے کی جانے والی جعلی اکاؤنٹس میں تفتیش پر ہے جس کا عملی مظاہرہ اسپیکر اور وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر دیکھنے میں آیا ایف آئی اے کی طرف سے کی جانے والی جعلی اکاؤنٹس کی تفتیش میںآصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام آیا ہے۔ان کے بزنس پارٹنر انورمجید گرفتار ہے جبکہ عدالت نے اس ضمن میں پانامہ طرز پر جے آئی ٹی بنانے کا بھی عندیہ دیا ہے اور یہ بھی کہاہے کہ وہ اس جے آئی ٹی کی سپروژن بھی خود کرے گی اپوزیشن کا مستقبل اس کیس سے جڑا ہے اگر اس کیس میں آصف علی زرداری کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تو پی پی پی بھی کھل کر بھرپور اپوزیشن کرے گی جس سے مرکز میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی اسی لیے کہاجارہا ہے کہ شاید ایسا نہ کیا جاسکے۔ادھر پی ٹی آئی نے اپنے دیرینہ رہنما عمران اسماعیل کو سندھ کا 33 واں گورنرنامزد کردیا ہے جس نے اپنی نامزدگی کے فوراً بعد کئی سخت بیانات دیئے جس پر پی پی پی کی جانب سے بھرپورردعمل آیا کہاجارہا ہے کہ مستقبل میں گورنر اورسندھ حکومت کے درمیان بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کا قیام ممکن نظر نہیں آتا تاہم ابھی تو شروعات ہے دوسری جانب پی ٹی آئی کے صدارتی امیدوار عارف علوی نے صدارتی الیکشن کے لیے ایم کیو ایم سے ووٹ مانگ لیے ہیں ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادرآبادمیں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی عارف علوی نے تحریک لبیک کے امیدواروں اور رہنماؤںسے بھی ملاقات کی وہ اس ضمن میں خاصے سرگرم ہیں اور ان کی جیت کے امکانات بھی روشن ہیں تاہم متحدہ قومی موومنٹ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کہاجارہا ہے کہ ایک مزید وزارت اور کراچی سے خالی ہونے والی عمران خان یا پھر عارف علوی کی سیٹ کا بھی مطالبہ کیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ ان کے مطالبات پی ٹی آئی کی قیادت کس حدتک پورے کرتی ہے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو پہلے ہی ایم کیو ایم کو دووزارتیں دینے پر تحفظات ہیں کراچی نے پی ٹی آئی کو 14 نشستیں دیں پی ٹی آئی کے نجیب ہارون ، فیصل واڈا اور علی زیدی پارٹی میں بڑے نام ہیں کارکن چاہتے ہیں کہ وفاقی کابینہ میں پی ٹی آئی کی بھی نمائندگی ہوتاکہ ان کے مسائل حل ہوں پارٹی کو مزید منظم کیا جاسکے اس ضمن میں کارکنوں کی اکثریت پارٹی کے بانی رہنما نجیب ہارون کے حق میں ہے دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی کابینہ میں پی ٹی آئی کی جانب سے پی ٹی آئی کے منتخب نمائندوں کو کب نمائندگی ملتی ہے۔