جنوبی ایشیا کو تقسیم سے پہلے برصغیر یعنی چھوٹا continent کہا جاتا تھا۔ تقسیم کے بعد بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا اور شماریات کے مطابق تقریباً پانچ سال بعد چین کی آبادی کو عبور کرتے ہوئے بھارت دنیا کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ اگرچہ بھارت میں کبھی بھی جمہوریت پٹڑی سے نہیں اتری مگر پھر بھی یہ ملک دنیا کے پسماندہ ممالک، یعنی ترقی پذیر ممالک، میں ہی شمار ہوتا ہے۔ بات صرف پسماندگی تک محدود نہیں بھارت کو دنیا کی سب سے زیادہ علیحدگی پسند تحریکوں کا بھی سامنا ہے۔ ان تحریکوں میں سے ایک بڑی بھرپور تحریک سکھوں یعنی خالصتان کی ہے۔ یہ تحریک اندرون بھارت سے زیادہ بیرون ممالک قیام پذیر، بالخصوص مغربی ممالک، سکھوں کی وجہ سے زیادہ زور پکڑ رہی ہے۔ اس میں زیادہ شدت 2020 کے اعلان کردہ ریفرنڈم کی وجہ سے آئی ہے، جس کا بڑا ثبوت سکھوں کا لندن میں حالیہ پرزور اور بہت بڑا مظاہرہ ہے اگرچہ یہ محض اتفاق ہے 2020 کا سال سکھوں نے کئی سال پہلے سے چن رکھا ہے۔ مگر سوشل میڈیا کے دوست اندر جیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ہماری تحریک اب ٹی20 کرکٹ کی طرح تیز ہو چکی ہے ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر ہم خالصتان2020میں نہ بھی حاصل کر سکے تو کوئی بات نہیں چند سال مزید سہی کیونکہ ٹی20 کرکٹ میچ میں بھی تو ایکسٹرا گیندوں یعنی نو بال، وایئڈ بال وغیرہ، کی وجہ سے اوسطاً دو تین اوور زیادہ لگ ہی جاتے ہیں اسی طرح موسم خراب ہو تو میچ ملتوی بھی ہو جاتا ہے تو خالصتان 2020 میں نہ سہی تو 2024 یا 2025میں سہی مگر ہم حاصل ضرور کریں گے اور ہمیں اندازہ ہے کہ اس میچ کو جیتنے کے لئے ہمیں یارکر گیندوں پر چھکے مارنے پڑیں گے۔ اندرجیت امریکہ میں 30سال سے مقیم ہیں اور اپنے آپ کو بے شمار ساتھیوں سمیت تقریباً جلا وطن سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے الیکشن جیتنے پر کافی گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے اور مجھے امریکہ سے نشر ہونے والے اپنے چینل،84،کے ایک پروگرام کا ایک لنک بھیجا جس میں میزبان نے انتہائی مہارت سے بتایا کہ عمران خان کی والدہ کا تعلق بھارتی پنجاب کے ضلع جالندھر سے لہٰذا عمران خان بھارتی سکھوں کے لئے خاص سیاسی نرم گوشہ رکھیں گے۔ انہوں نے بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ کی پاکستان آمد کو بھارت سے زیادہ سکھوں کی ڈپلومیٹک کامیابی قرار دیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب عمران خان نے کپل دیو اور سنیل گواسکر کو بھی شرکت کی دعوت دی تو اندرجیت سنگھ نے دعویٰ نما پشین گوئی کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کا آنا بہت مشکل ہے مگر ہمارا سردار، نوجوت سنگھ سدھو، ضرور آئے گا۔
اس سے پہلے انہوں نے مجھے ایک بہت بڑی خبر کا لنک اور بھیجا جس کو دیکھ کر میں ششدر رہ گیا کہ اتنی بڑی خبر کا بین الاقوامی، بھارتی اور پاکستانی میڈیا میں اس طرح کا پرچار نہیں ہوا جو ہونا چاہئے تھا اور وہ خبر یہ تھی کہ بھارت میں مقیم چین کے سفیر نے سکھوں کی سب سے مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل کا دورہ کیا۔ چین کے سفیر کا یہ دورہ سفارتی اعتبار سے بھارتی حکومت کو ایک بہت بڑا اور سخت پیغام دے گیا کہ چین سکھوں اور ان کی تحریک کے لئے concerns رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ دورہ لندن میں 2020ریفرنڈم کے مظاہرے کے عین موقع پر کیا گیا، مزید واضح رہے کہ چین والے کسی مذہب کے ماننے والے نہ ہوتے ہوئے بھی ان کے سفیر نے ایک مذہبی عبادت گاہ کا دورہ کیا اور اس دورہ میں انہوں نے گردوارہ کی تعظیم کو ملحوظ خاطر بھی رکھا جیسے ست سری اکال کہنا اور اپنا سر ڈھانپ کر رکھنا۔ اندر جیت اور ان کے ٹی وی 84،پر تبصرہ کرنے والے سکھوں کا ماننا ہے کہ آج کے دور میں آزادی کی تحریکوں کی کامیابی کا ایک بڑا عنصر کسی بڑی طاقت کی حمایت ہوتی ہے اور یہ حمائت انہیں چین کی شکل میں میسر آچکی ہے کیونکہ چین دنیا کی دوسری بڑی عسکری اور معاشی قوت بن چکا ہے اور تقریباً پانچ سال میں دنیا کی پہلی یعنی سب سے بڑی طاقت بن جائے گا اور یوں دنیا میں اب صرف امریکی آرڈر یا ورلڈ آرڈر کی بجائے چین کا آرڈر بھی چلے گا۔ اس دلیل کو مزید مدلل بناتے ہوئے سردار جی کہتے ہیں کہ جس طرح مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان مغربی طاقتوں کے ایماء پر آزاد ملک بنے اسی طرح چین کی حمایت سے ہم خالصتان حاصل کریں گے جب کہ مقامی حقائق اور ہماری جدوجہد مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان سے کہیں زیادہ مضبوط اور پرانی ہے۔ اسی طرح سردار جی نے ایک مزید حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا اور چین کے درمیان روز اول سے سرحدی تنازعات چل رہے ہیں جن میں 1962کی جنگ میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ واضح رہے کہ مودی کے دورہ چین کے موقع پر چینی میڈیا نے آسام اور کشمیر کو بھارت کا حصہ نہ دکھا کر اپنی پالیسی کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح چین کے خود ساختہ جلاوطن لیڈر دلائی لامہ نے بھارتی ریاست ہماچل پر دیش کے شہر دھرم شالہ میں نہ صرف پناہ لے رکھی ہے بلکہ جلا وطن حکومت بھی بنا رکھی ہے۔ اس لئے سردار جی کا ماننا ہے کہ ہم بھی ممکنہ طور پر اپنی کوئی جلا وطن حکومت بنا سکتے ہیں میرے پوچھنے پر انہوں نے واضح کیا کہ ہم اپنے نعروں میں کشمیر کی آزادی کا ذکر اس لئے کرتے ہیں کیونکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سکھ بھی آباد ہیں کشمیر آزاد ہونے سے ہمارہ زمینی رابطہ چین سے ہوسکے گا اور مزید یہ کہ کشمیر کے تنازعہ میں چین بھی فریق ہے کیونکہ کشمیر کا بڑا علاقہ چین کے کنٹرول میں ہے۔ واپس آتے ہیں سدھو کے دورہ پاکستان کی طرف جس پر انڈیا میں صرف ہندو تنظیموں نے بے حد اور بے جا تنقید کی۔ جس کے جواب میں نجوت سنگھ نے کہا کہ بھارت ”دیس اتنا بڑا اور دل اتنے چھوٹے“ اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سابق کرکٹر نجوت سندھو ٹی20کی رفتار سے، 2020 ریفرنڈم، کے لئے کتنی بڑی سفارت کاری کرگئے۔