• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو زندگی گزارنے کے لئے اپنی قدرت سے تراشا جو حسین ترین ماحول عطا فرمایا ہے، اس کا بڑا حصہ اور بےحد پرکشش، درخت، پودے اور گھاس، پھول وپھل ہیں۔ فطرتاً انسان کو اپنی راحت مطلوب ہے تو خالق انسان کی دین بھی بیش بہا ہے۔ آکسیجن، تازگی، سکون، سایہ، پناہ، حفاظت، تفریح، پھل، پھول، خوشبو، ہوا، بہار، بارش، خوراک، دوا، علاج، لکڑی، کھاد کیا ہے؟ جو قدرت نے اپنی اس تخلیق ، شجر کے ذریعے سے اپنی اشرف مخلوق کو نہیں نوازا۔ درخت فقط حیات نہیں، حیات جاوداں کا اہتمام مسلسل ہے اور وہ بھی منجانب خالق کائنات ۔ اس کی کشش کا اندازہ اس سے لگالیں کہ اللہ تعالیٰ نے بھی شیطان کے مقابل انسان کی آزمائش شجر مخصوص کو انسان کے لئے شجر ممنوعہ قرار دے کرلی تو اس کی بےپناہ کشش کے باعث وہ اپنے ہی خالق کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اور بطور سزا یافتہ کرہ ارض پر اتارا گیا، جسے خالق انسان نے اپنی اس شاہکار مخلوق کی ایک اور بڑی آزمائش گاہ قرار دے دیا، ساتھ شیطان کو وہ اختیار کہ وہ گمراہ انسانوں کو بہکا سکتا ہے، لیکن اس کے مقابل انسان کو انبیاء کرام کے ذریعے وہ رشد و ہدایت پہنچائی جسے اختیار کرکے وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرکے بعداز موت واپس ہمیشہ کے لئے جنت میں آجائیں، نیز واضح کردیا کہ وہ انسان جو اپنے خالق پر ایمان رکھیں گے اور اس کی ہدایت پر عمل پیرا ہوں گے، شیطان کے بہکاوے میں آکر گناہوں کے مرتکب نہ ہوں گے۔

ملاحظہ ہو کہ انسان کو ایک اور بڑی آزمائش سے گزارنے کے لئے کرہ ارض پر ا تارا تو سزا یافتہ مخلوق کے لئے بھی اپنے کتنے رحیم و رحمٰن ہونے کے ثبوتوں اور نشانیوں اور علامتوں کے ساتھ وہ جنت سے باہر جس آزمائش گاہ میں ایک عارضی اور آزمائشی زندگی کے لئے صراط مستقیم اور گمراہیوں کے پرکشش سامان کے ساتھ اتارا گیا اس میں بھی چھٹی جنت بینظیر کے کتنے ہی نظارے اور سامان انسان کی دسترس میں دے دئیے گئے اور انہیں قائم دائم رکھنے اور وسعت کی صلاحیت (بطور نائب اللہ) بھی عطا کی، (بےشک سب تعریفیں اسی کے لئے ہیں)۔

سو،صراط مستقیم اختیار کرنے والے اسلامیان نے تو اپنے جنگی ضابطے میں بھی دوران جنگ اور بعداز جنگ فصلوں کی تباہی اور درختوں کو نقصان پہنچانا ممنوع قرار دے دیا جوبڑے بڑے جنگجوئوں کی روایت تھی کہ قتل و غارت اور لوٹ مار کے بعد اجاڑ شکست و مایوسی کا احساس مظلومین میں قائم رہے۔

غور فرمائیں !اللہ سبحان تعالیٰ نے آزمائش گاہ دنیا میں انسان و اقوام کو آزمانے کا کوئی ایک پیمانہ نہیں رکھا۔ ہماری نیت و سوچ اور فکر و عمل کو آزمانے کے کتنے ہی ٹیسٹ ہیں۔ کرہ ارض پر ظاہر بیش بہا قدرتی ساماں ہائے راحت و سکوں کی حفاظت اور ان میں وسعت بھی ان میں ایک ہے۔ اس آزمائش میں انسان گروہ در گروہ اور تہذیب در تہذیب، زمانہ در زمانہ تقسیم ہے اور رویے مختلف حددرجہ ظالم اور غافل بھی اور اس نے اس فیض و برکات میں اپنی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں سے دنیا کو حسین رکھنے اور بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

تاہم سنگ و خشت سے انسانی تخلیق کے انگنت شاہکار ڈھالنے اور لوہے لکڑی سے اپنی راحت و آسودگی کا جہاں تراشنے کے بعد اسی حضرت انسان نے گزشتہ صدی میں ہرے بھرے فطری ماحول کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور آج کی ترقی پذیر دنیا نے اس میں جو اپنا بھونڈا پن شامل کیا ہے، وہ بالآخر دنیا کے لئے کتنے ہی جدید علوم کی دریافت کے بعد تشویشناک بن گیا۔ آج اقوام کی مشترکہ فکر و نظر سے’’فطری ماحول کی حفاظت اور اس کی وسعت ایک سنجیدہ اور مکمل باہمی عالمی ایجنڈہ ہے‘‘۔

پاکستان میں قدرتی اور انسانی کاوشوں سے بنائے گئے جنگلات کی تباہی اور مادہ پرستی کے جنون اور دوڑ میں بحیثیت قوم، اس سے مجرمانہ غفلت ہماری تاریخ اور سماجی رویے کے ریکارڈ کا تاریک باب ہے۔ آج بھی ہم دریائوں کا بیش بہا سالانہ ارباہا روپے کا پانی فطری ماحول کی حفاظت و وسعت پر صرف کرنے کے بجائے اسے گدلا اور زہر آلود کرکے سمندر میں بڑی بےدردی سے بہا رہے ہیں۔ جہاں یہ ہماری سمندری حدود کی آبی حیات کے لئے جاں لیوا بنتا جارہا ہے۔

شکر الحمدللہ! فطری ماحول کے اس دردناک پس منظر میں جب درختوں اور کھیتوں باغوں اور ہرے بھرے پارکس کے دشمن مافیاز ہماری قومی، صوبائی اور مقامی سیاست سے ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ یہ اسٹیٹس کو کی سیاست و حکومت کا لازمہ بن چکے،اب اللہ کے کرم اور اسے اس سے عطا عوام کے شعور سے ملک میں ایک ایسی قیادت اقتدار میں آ گئی جس نے ’’شجر کاری‘‘ کو پہلی مرتبہ قومی ایجنڈا بنا کر پوری قوم کے سامنے رکھا ہی نہیں، بلکہ خیبر پختونخوامیں حکومت کے حصول پر اسے ترجیحی ایجنڈے کے طور پر بنیادی حکومتی اقدامات میں عملاً شامل کیا۔

100دن تو ابھی دور ہیں اپنے اقتدار کے پہلے پندرھواڑے میں گھمبیر قومی مسائل کے حل کی تلاش میں سرگرداں وزیر اعظم عمران خان نے ’’شجر برائے پاکستان‘‘ کی شدت سے مطلوب جو قومی مہم شروع کی ہے، وہ ایک بھرپور و مطلوب پیغام سے مزین ہے۔ یہ ہماری نئی قیادت کی شخصیت کا حسین ترین اور قابل قدر پہلو ہی نہیں، ایسا صراط مستقیم ہے کہ مستقبل قریب اقتدار کی ٹرم ختم ہونے سے پہلے اس کے ثمرات سے قوم فیضیاب ہو گی،لیکن اس میں وسعت اور بے پناہ برکت تب ہو گی جب قوم ایک واضح اور عظیم کار خیر کی حقیقت اور انسان دوستی اور شرف انسانی کو سمجھتے ہوئے اسے کوئی حکومتی ایجنڈا ہی نہ جانے اور اس کو وزیر اعظم کی ہی اجارہ داری نہ بنا دے، بلکہ اس راہ میں ہم سب شریک ہو جائیں، فطرت کے ثمرات و برکات فطرت کے ہیں کسی پارٹی یا حکومت کے نہیں،تاہم عوام کی بیداری ، اس کے بیش بہا قومی فوائد و ثمرات کے لئے سوشل موبلائزیشن اور سوشل مارکیٹنگ کا کام تو حکومت نے ہی کرنا ہے، جس کا آغاز وزیر اعظم عمران خان نے یوں شروع کر دیا، وہ جس ادارے اور تقریبات میں جا رہے ہیں، وہاں پودا لگا کر پوری قوم کو پیغام دے رہے ہیں کہ یہ ان کی ترجیحات میں سے ایک ہے، لیکن یہ ملک کے ایک ایک شہری کی راحت کے سامان کا اہتمام ہے۔اس پر تنقید و اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں،بس روایتی سیاست کی سخت جانی میںاتنا ضرور ہے کہ تنقید ہو بھی تو ایسی کہ صراط مستقیم پر سفر تیز تر اور نتیجہ خیز ہو جائے۔ وما علینا الاالبلاغ

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین