معاشی اور دفاعی استحکام حاصل کرنا اور مقامی پیداوار اور برآمدات میں تیزرفتاری سے اضافہ کرنا ہے، تعلیم، صحت، پانی، ماحولیات اور دیگر کئی شعبوں میں حالات ٹھیک کرنا ہیں تو پاکستان کی حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کرکے حکومت بنا لینا عوامی تائید کے حصول کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ لیڈر شپ کی اہلیت اور صلاحیتوں کا اصل امتحان حکومت بن جانے کے بعد عوامی تائید کو برقرار رکھنا ہے۔ حاکم اور لیڈر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایک حکمراں ضروری نہیں کہ قوم کا رہنما بھی ہو۔ شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی میں عوامی نمائندوں کی اکثریتی تائید کے ساتھ وزیر اعظم بنے تھے لیکن وہ بس ایک حکمراںہی تھے۔ ان کی جماعت اور قوم نے انہیں اپنا لیڈر کبھی نہیں سمجھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح، قائد ملت لیاقت علی خان حکمران تو بنے لیکن قوم کے دلوں میں ان کا مقام ان کی حکمرانی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی سیادت اور قیادت کی وجہ سے ہے۔ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت بھی ملکی مسائل عوام کے تعاون کے بغیر حل نہیں کرسکتی۔ قوم ساتھ دے تو پارلیمنٹ میں کم ممبرز کی حمایت رکھنے والی حکومتیں بھی عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے بہت کام کرسکتی ہیں۔ ترکی میں پندرہ سال پہلے طیب اردوان کی جماعت کے پاس کچھ زیادہ اکثریت نہیں تھی۔ اُن کی حکومت کے سامنے کئی آئینی رکاوٹیں بھی تھیں لیکن انہوں نے نہ صرف ترکی بلکہ ساری دنیا کو بتادیا کہ سچی اور اہل قیادت کیا ہوتی ہے، عوام کی حمایت حاصل کرتے ہوئے اپنے ملک کو کیسے آگے بڑھاتی ہے۔
عوام کی حمایت کا مطلب کیا ہے... ؟ حکومتی اراکین کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی، معاملات چلانے کے لئے فیصلوں اور حکام کے انداز کار سے عوام مطمئن ہوں۔ معیشت کی بحالی، امن و امان، عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے لئے حکومتوں کے چند بظاہر سخت فیصلے بھی عوام کی تائید پالیں۔ پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کی ایک بڑی وجہ قومی اور اقتصادی امور میں عوام کی شمولیت بہت کم ہونا ہے۔ ہمارے ملک میں صرف چودہ لاکھ افراد انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں ضروری نہیں کہ یہ رجسٹرڈ افراد یا ادارے انکم ٹیکس ادا بھی کرتے ہوں۔ انکم ٹیکس سے ملنے والی رقم میں 80 فی صد سے زیادہ شیئر کارپوریٹ سیکٹر کی صرف اکتیس ہزار کمپنیوں کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 80 فی صد رقم صرف 2 فی صد ٹیکس دہندگان ادا کر رہے ہیںباقی 98 فی صد افراد اور ادارے صرف 20 فی صد ادا کر رہے ہیں۔ ان میں بھی تنخواہ وار افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کی ادائیگی سے گریز کی ایک بڑی وجہ نظام سے لوگوں کو کئی شکایات اور حکمرانوں اور عوام میں پائی جانے والی دوریاں ہیں۔ عمران خان اور ان کے سیاسی اور حکومتی رفقاء حکومت اور عوام میں دوریوں کو کم کرواسکے اور یہ بھروسہ یا تاثر ہی قائم کرواسکے کہ عمران حکومت عوام کی اپنی حکومت ہے تو پاکستان کو درپیش کئی مشکلات تیزرفتاری سے حل ہوسکیں گی۔
پاکستان کو قدرت نے کئی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے۔ پاکستان کے لوگوں میں بہت زیادہ صلاحیتیں اور کئی اعلیٰ صفات پائی جاتی ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ محدود وسائل اور رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے بھی بڑی بڑی منزلیں سر کرلیتے ہیں۔ ایسی خوبیوں کے مظاہرے دنیا میں کم ہی قوموں کی طرف سے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم اور پاکستان کی مسلح افواج کی کامیابیاں عالمی فوجی تاریخ کے ایک منفرد اور روشن باب کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔ شدید معاشی دباؤ، امریکہ یورپ اور بعض دیگر طاقت ور ممالک کی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان کا پہلے ایٹمی اور پھر میزائل طاقت بننا بھی عزم و ہمت کے ساتھ اعلیٰ صلاحیتوں کے اظہار کی بہترین مثالیں ہیں۔
دہشت گردی کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں امن و امان کی بہت خراب صورت حال میں بھی 2008 اور 2013 میں (آپریشن ضرب عضب سے پہلے )پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ یہ انتخابات پاکستانی قوم کی طرف سے واضح اعلان تھے کہ انتہائی خراب حالات بھی ہمارے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتے۔ کئی دشواریوں کے باوجود 2018ء کے انتخابات آئین کی پاس داری اور قانون کی پابندی کےلئے پاکستانی قوم کی خواہشات کا اظہار ہیں۔ ہمت و بہادری کے ایسے لاتعداد مظاہروں کے علاوہ دیگر کئی شعبوں مثلاً سائنس، معاشیات، فنون، اسپورٹس وغیرہ میں بہت کم وسائل اور ناکافی سہولتوں کے باوجود پاکستانی دنیا بھر میں کامیاب اور کامران رہے ہیں۔ پاکستانیوں نے ہاکی کھیلی تو 4 مرتبہ عالمی کپ کا فاتح بننے کا ریکارڈ قائم کیا ۔ پاکستان ہاکی ٹیم اولمپک میں تین مرتبہ گولڈ میڈل ، تین مرتبہ چمپئنز شپ ٹرافی اور ایشین گیمز میں سب سے زیادہ (15 میں سے 8)میچز جیتنے والی واحد ہاکی ٹیم ہے۔ کرکٹ کھیلی تو 1992 کا ورلڈ کپ جیتا، 2009 کی T20اور 2017 ء کی چمپئنز ٹرافی حاصل کی ۔ اسکواش میں تو پاکستان کے جہانگیر خان نے فتوحات کی شان دار مثالیں قائم کردیں، انہوں نے پانچ سال آٹھ مہینے میں 555انٹرنیشنل میچزمیں مسلسل کامیابیاں حاصل کیں۔ اسنوکر میں پاکستان کے محمد یوسف ورلڈ چمپئن اور شوکت علی ایشین چمپئن بنے۔ وسائل سے مالا مال کئی عرب ممالک میں فٹ بال کا جنون عام ہے۔ ان ممالک میں حکومت کی بھرپور سرپرستی اور وسائل کی فراوانی کے باوجود کسی عرب ملک کی کوئی ٹیم بین الاقوامی مقابلوں میں گولڈ یا سلور میڈل حاصل نہیں کرسکی۔ سماجی خدمات کے شعبوں میں آئیں تو ایک پسماندہ ملک میں انتہائی محدود وسائل لیکن دردِ دل رکھنے والے کئی پاکستانیوں نے حیرت انگیز کارنامے سر انجام دئیے ہیں۔ عبدالستار ایدھی (ایدھی ٹرسٹ) ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی (SIUT) ڈاکٹر امجد ثاقب(اخوت فاؤنڈیشن) ڈاکٹر عبدالباری(انڈس اسپتال) اور دیگر کئی ہستیوں کی اعلیٰ خدمات کی دنیا معترف ہے۔ دنیا کا کوئی اور ملک انفرادی سطح پر سماجی خدمات کی ایسی شان دار مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے۔ فن و ثقافت کے شعبوں میں دیکھیں تو پاکستان کے مہدی حسن، ملکہ ترنم نور جہاں، روشن آراء بیگم، ریشماں، غلام علی، نصرت فتح علی خان، راحت فتح علی خان، علی ظفر، عاطف اسلم کی صلاحیتوں کے اعتراف صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ برصغیر اور ان سے بھی بڑھ کر عالمی سطح پر کئے گئے ہیں۔ پاکستان کی ارفع کریم، آیان علی اور بابر اقبال نے دنیا کے کم عمر ترین مائیکرو سافٹ پروفیشنل کے سرٹیفکیٹس حاصل کئے۔ 60کے عشرے میں پاکستان کی ترقی کے منصوبہ ساز ڈاکٹر محبوب الحق (1934-1998 )کی بصیرت اور اعلیٰ صلاحیتوں کا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا۔ انہوں نے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس ( HDI) کے نام سے دنیا بھر کے لئے ترقی کے معیار مقرر کئے۔
پاکستانی قوم میں آج بھی ایک سے بڑھ کر ایک قابل افراد موجود ہیں۔ بیورو کریسی میں قابل اور دیانت دار افسران کی کمی نہیں ہے۔ تمام شعبوں میں معاملات کو ٹھیک کرنے اور درست سمت میں رہنمائی کی صلاحیت رکھنے والے افراد قوم کی خدمت کے لئے حاضر ہیں۔
اس وقت ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں پاکستان بہت نچلے نمبروں پر ہے۔ عمران خان HDIمیں پاکستان کی پوزیشن بہتر بنانا چاہتے ہیں، انہیں ساری قوم کا تعاون مل سکتا ہے۔ بس عوام کو یہ اطمینان ہو جائے کہ عوام کی محرومیوں کا ازالہ قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی بالا دستی کے ذریعے ہوگا۔ میری تجویز یہ ہے کہ انڈیکس بہتر بنانے کی کوششوں میں اولین ترجیح بلوچستان کو دی جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)