• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیاض لغاری صاحب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پولیس امن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور کراچی میں فوج کو طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بھی یہی کہنا ہے کہ کراچی میں فوج کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پولیس اور رینجرز بہتر انداز میں کام کررہی ہیں۔
پولیس کی کارکردگی پر تنقید کرنے کی بجائے اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان عوامل پر کھل کر بات کریں جن کی وجہ سے پولیس اپنا کام نہیں کرسکتی ہے۔ کراچی صورت حال میں ایسے عوامل زیادہ ہیں‘ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے سیاسی اور غیر سیاسی بھی۔ یہاں انہیں زیر بحث لانا مناسب نہیں ہوگا تاہم پولیس کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا کسی طور پر بھی درست نہیں ہوگا۔ کراچی پولیس دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارتی ہے۔ان دہشت گردوں کو گرفتار کرتی ہے اور ان کے خلاف مکمل کیس بناکر عدالتوں میں پیش کرتی ہے۔ پولیس اگلے محاذوں پر جاکر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف لڑتی ہے اور ان کے خلاف آپریشن کرتی ہے۔ یہ سارے کام کس قدر مشکل ہیں‘ اس کا اندازہ کراچی والے بخوبی لگاسکتے ہیں۔ دہشت گرد اور تخریب کار ان پولیس افسروں اور اہلکاروں کو اپنا دشمن تصور کرلیتے ہیں اور موقع ملنے پر ان افسروں اورجوانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ دہشت گردی کے حملوں میں ہزاروں پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں‘ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس شہر میں امن کے لئے برسر پیکار ہے۔ ہزاروں ساتھیوں کی جدائی کے باوجود پولیس کے حوصلے بلند ہیں اور اس نے کسی بھی مرحلے پر پیچھے ہٹنے کا عندیہ نہیں دیا۔ یہ اور بات ہے کہ جانوں پر کھیل کر غیر معمولی کارنامے انجام دینے والے پولیس افسروں کو اعتراف کے طو رپر آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دی گئیں لیکن ان سے یہ ترقیاں واپس لے کر انہیں تنزلی کے تحفے دیئے گئے۔ اس کے باوجود پولیس والے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کراچی میں امن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہاں فوج کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین کی حیثیت سے پولیس والے یہ بات کھل کر نہیں کہہ سکتے کہ بعض سیاسی اور غیر سیاسی عوامل انہیں اپنا کام نہیں کرنے دیتے۔ یہ بات اب سول سوسائٹی اور رائے عامہ کو متاثر کرنے والے اداروں کو کھل کر کرنی چاہیے کہ داخلی امن اور لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
کراچی میں جاری دہشت گردی اور خونریزی کے باعث بعض سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ یہاں فوج کو بلاکر آپریشن کیا جائے۔ یہ مطالبہ بالواسطہ طور پر پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار ہے، جو کہ پولیس کے ساتھ زیادتی ہے۔ ایسے تو پورے ملک کی پولیس جس طرح دہشت گردی کے خلاف لڑرہی ہے‘ اس پر وہ خراج تحسین کی مستحق ہے کیونکہ پاکستان جس طرح دہشت گردوں کی لپیٹ میں ہے، اس طرح شاید دنیا کا کوئی دوسرا ملک نہیں ہوگا لیکن کراچی کی پولیس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں دی ہیں‘ اتنی قربانیاں کسی دوسری سویلین فورس نے شاید نہیں دی ہیں۔
فوج ایک ایسا ادارہ ہے‘ جو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا محافظ ہے۔ پوری قوم اس ادارے کا احترام کرتی ہے اور تمام حکومتیں عام طور پر یہ کوشش کرتی ہیں کہ فوج کو داخلی امن سے متعلق امو رمیں ملوث نہ کیا جائے کیونکہ اس سے فوج کے متنازعہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اگر فوج کو متنازعہ بنانے کی کوششیں شروع ہوجائیں تو یہ بات قومی مفاد میں نہیں ہوتی ہے۔ ماضی میں فوج کو جتنے بھی داخلی آپریشنز میں استعمال کیا گیا۔ اس کے نتائج اچھے نہیں نکلے اور فوج کے بارے میں بعض حلقوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ اگرچہ سوات‘ مالاکنڈ اور دیگر قبائلی علاقہ جات میں فوجی آپریشنز کے حوالے سے وسیع تر قومی اتفاق پایا جاتاہے لیکن یہاں بھی یہی کوشش کی جارہی ہے کہ سویلین فورسز صورت حال کو کنٹرول کریں اور فوج کو بتدریج یہاں سے واپس بلالیا جائے۔ لہٰذا یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ فوج کو داخلی امور سے دور رکھا جائے۔ کراچی میں فوج کو بلانے کا مطالبہ کرنے والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کو کراچی میں بلانے کے نتائج کیا نکلیں گے۔
جہاں تک کراچی پولیس کی کارکردگی کا سوال ہے‘ کوئی شخص اس بات سے انکارنہیں کرسکتا ہے کہ کراچی پولیس کے ہزاروں افسروں اور جوانوں نے اس شہرکے امن کے لئے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ اس بات کا بھی سیاسی اور مقتدر حلقے اعتراف کرتے ہیں کہ کراچی پولیس کو جب بھی دہشت گردوں کے تدارک کے لئے ٹاسک دیا گیا‘ اس نے اپناٹاسک جان فروشی کے جذبے کے ساتھ پورا کیا۔ پولیس سے عوام کو بہت سی شکایات ہوسکتی ہیں لیکن عوام بھی کراچی پولیس کی قربانیوں کا احترام کرتی ہے۔
پاکستان کی حکومت‘ ہیئت مقتدرہ اور سیاستدانوں کو بہت دیر کے بعد یہ احساس ہورہا ہے کہ اب جنگیں سرحدوں پر نہیں لڑی جاتی ہیں۔ یہ جنگیں اب سرحدوں کے اندر لڑی جاتی ہیں۔ پاکستان کی آمرانہ حکومتوں کے زمانے میں اس معاملے پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں لیکن سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ فوجی حکمرانوں نے ملک کہ اندر سیاسی اور جمہوری قوتوں کو کچلنے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا۔ انہوں نے ملک کے اندر سیاسی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی طاقتوں کاسہارا لیا بلکہ ان طاقتوں کے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے پاکستان کو میدان جنگ بنادیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے خفیہ اداروں کو پاکستان میں اپنا نیٹ ورک بنانے کے لئے ساز گار ماحول ملا۔ ان کی آڑ میں بھارت کے خفیہ اداروں نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔ فوجی حکمرانوں نے حقیقی جمہوری قوتوں کے مقابلے میں انتہا پسند گروہوں کا بھی سہارا لیا اور اس با ت کی پروا نہیں کی کہ یہ انتہا پسند گروہ اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لئے بیرونی قوتوں کی پشت پناہی حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک پیچیدہ اور خطرناک نیٹ ورک پاکستان کے اندر قائم ہوگیا‘ جس نے پاکستان کے داخلی استحکام کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ بعض طاقتیں یہ نہیں چاہتی تھیں کہ کراچی ایک پرامن اور ترقی یافتہ شہر رہے کیونکہ انہیں مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں کئی شہروں اور ریاستوں کو اپنی منڈی کے طور پر ابھارنا تھا۔ کراچی کو عالمی طاقتوں نے تباہ کرنے کے ایجنڈے میں شامل رکھا جبکہ پاکستان کی آمرانہ حکومتوں نے کراچی کی بدامنی کو جمہوری قوتوں کیلئے ایک مستقل خطرے کے طور پر برقرار رکھا۔ کراچی کے باسیوں پر کسی نے رحم نہیں کیا اور آج کراچی میں اتنی خونریزی ہوتی ہے‘ جتنی خونریزی پاکستان کے دشمن ممالک روایتی جنگوں میں بھی نہیں کرسکتے تھے۔
ایسے حالات میں کراچی کی پولیس کو جتنا مضبوط بنانا چاہیے تھا‘ اتنا نہیں بنایا گیا۔ اگر کراچی میں امن ہوتا‘ تب بھی کراچی پولیس کی نفری اس شہر کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ دہشت گردی کے اس ماحول میں تو یہ نفری نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کی سرحدوں کے اندر پاکستا ن کے دشمنوں کی مسلط کردہ اس خوفناک جنگ میں صرف کراچی پولیس کے لئے ہی بلکہ پاکستان کی تمام سویلین فورسز زیادہ وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ملک کے داخلی استحکام کو درپیش چیلنجز سے نمٹ سکیں ۔اب پاکستان کے حکمرانوں اس داخلی بدامنی سے نبرد آزما ہونے کے لئے داخلی امن کے ذمہ دار اداروں کو جدید تقاضو ں کے مطابق منظم کرنا ہوگا۔ نہ صرف پولیس کی نفری میں اضافہ کیا جانا چاہئے بلکہ انہیں جدید اسلحہ‘ آلات اور کمیونی کیشن سسٹم فراہم کرنا ہوگا اور انہیں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے فوجی معیار کی تربیت دینا ہوگی۔ دہشت گردوں کے پاس پولیس سے زیادہ ملٹری گریڈ کے جدید ہتھیار ہیں۔ انہیں پاکستان کے طاقتور دشمنوں کی پورے وسائل کیساتھ پشت پناہی حاصل ہے۔ کراچی پولیس ناکام نہیں ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور وسائل کا رخ داخلی امن کے ذمہ دار اداروں کی طرف موڑا جائے۔
تازہ ترین