• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساغر نظامی نے کسی مشاعرے میں ایک خاتون کو دیکھا اور حسبِ عادت ہزار جان سے اس پر مائل ہوگئے۔ مشاعرے کے بعد موصوف اس خاتون کے پاس پہنچے اور کہنے لگے۔

’’اے دشمنِ ایمان و آگہی! کیا تم یہ گوارہ کرو گی کہ میرے دل کے مرتعش جذبات تمہارے پاکیزہ بیز تنفس کی آمد و شُد سے ہم آہنگ ہوسکیں۔‘‘

بے چاری حسینہ اس اندازِ بیاں کو بالکل نہ سمجھ سکی اور حیرت سے بولی۔

’’آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘

اب باکمال شاعر نے حقیقت پسندانہ اندازِ بیاں میں کہا۔

’’میں چاہتا ہوں، تم مجھ سے شادی کر لو اور میرے بچوں کی ماں بننا گوارہ کرو۔‘‘

حسینہ نے چند لمحے سوچا اور حیرت کے ساتھ دریافت کیا۔ ’کتنے بچے ہیں تمہارے؟‘‘

٭…٭…٭

ساغر نظامی کی بہن شاعری میں مینا تخلص کرتی تھیں۔ ماجد حیدر آبادی سے، چونکہ ساغر صاحب کی چشمکیں رہتی تھیں، اس لیے ساغر صاحب مشاعرے میں اس شرط پر جاتے تھے کہ ماجد صاحب کو نہیں بلایا جائے گا۔ ایک مشاعرے میں صدارت، ساغر نظامی کی تھی، چونکہ ماجد صاحب مدعو نہیں تھے، اس لیے وہ مشاعرہ سننے کے لیے سامعین میں آکر بیٹھ گئے۔ لوگوں کو جب پتہ چلا تو سب نے شور مچادیا کہ ماجد صاحب کو ضرور سنیں گے، مجبوراً منتظمین کو ماجد صاحب کو دعوتِ سخن دینی پڑی۔ ماجد صاحب مائک پر آئے تو کہنے لگے کہ چونکہ مجھے مدعو نہیں کیا گیا تھا، اس لیے کوئی غزل نہیں لایا، البتہ دو شعر فی البدیہہ کہے ہیں، جنابِ صدر اجازت دیں تو پیش کروں۔ اجازت ملنے پر یہ دو شعر سنائے:

پھر آگیا ہے لوگو! برسات کا مہینہ

لازم ہوا ہے اب تو سب کو شراب پینا

پہنچا جو میکدے میں، حیران رہ گیا میں

الٹا پڑا تھا ساغر، اوندھی پڑی تھی مینا

٭…٭…٭

جوش صاحب، بمبئی کے ایک نہایت اعلیٰ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، آفتابِ غروب ہونے میں پانچ دس منٹ باقی تھے، مجاز اُن کے پہلو میں پینے کے لیے بے چین بیٹھے تھا کہ ساغر آگئے۔ اتنے میں آسمان پر شفق پھیل گئی، سامنے کا سمندر گلابی ہوگیا، ملائم ہوا سنکنے لگی اور دور شروع ہوگیا۔ جب نشہ گھنگھور ہونے کے قریب آیا، مجاز اٹھے، ساغر کے گلے میں بانہیں ڈال دیں، ساغر بھی اُس سے چمٹ گئے۔

اُس عالم میں مجاز نے کہا:

’’سغروا (ساغر) مجھے تجھ سے بے حد محبت ہے، تُو میرا بڑا پیارا دوست ہے۔‘‘

ساغر نے کہا:

’’مجزوا (مجاز) مجھے بھی تجھ سے بے حد محبت ہے، تیرا سا دوست ملے گا کہاں؟‘‘ یہ سن کر، مجاز اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے:

’’پیارے ساغر! اس میں کوئی شک نہیں کہ میں تم کو بے حد چاہتا ہوں، لیکن پیارے یہ اور بات ہے کہ میں تمہیں شاعر تسلیم نہیں کرتا۔‘‘

یہ سنتے ہی ساغر نے رونا شروع کردیا۔ ساغر کو روتا دیکھ کر، وہ اپنی جگہ سے اٹھے، ساغر کی گردن میں پھر بانہیں ڈال دیں اور کہا:

’’ساغر! تمہارا کوئی جواب نہیں۔‘‘

ساغر خوش ہوگئے۔ رونا بند ہوگیا اور مجاز پھر اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر میں انہوں نے جوش سے کہا:

’’جوش صاحب! میں ساغر پر اپنی جان، نچھاور کرسکتا ہوں۔‘‘

ساغر، اُن سے، دوڑ کر لپٹ گئے، ابھی وہ لپٹے ہوئے ہی تھے کہ مجاز نے کہا:

’’مگر یہ اور بات ہے ساغر کہ میں تمہیں شاعر نہیں سمجھتا۔‘‘

ساغر نے پھر رونا شروع کردیا۔ ہنستے ہنستے جوش اور مجاز کا بُرا حال ہوگیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین