اےئرمارشل اصغر خان کی آئینی پٹیشن پر سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکی ، عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ”1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی جس نے معاشرے کو آلودہ کردیا“۔
1990ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا راستہ روکنے میں کس کس نے کیا کردار ادا کیا اُنکے چہروں سے پردہ تو پہلے ہی اُتر چکا تھاہونا ،تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد وہ عناصر جو معاشرے کو آلودہ کرنے میں مجرمانہ کردار ادا کرتے رہے، اپنے جرائم کا اقرار کر لیتے مگروہ حلقہ ایک بار پھر الٹی سمت چل پڑا ہے اُن کا اصرار ہے کہ صدر وفاق کی علامت ہے اس لئے صدر کو غیر سیاسی ہونا چاہیے، یہ بحث فضول ہے کہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے سربراہ مملکت بننے کے بعد مسلم لیگ کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا ”میں اس تاویل کو نہیں مانتا“ہم دور نہیں جاتے 1973ء کے آئین کی تخلیق کے بعد کتنے سیاستدان صدور آئے اور کتنے غیر سیاستدان صدور؟جنرل ضیاء اور جنرل مشرف تو تھے ہی غاصب ، غلام اسحق خان اور فاروق لغاری جمہوریت اور پارلیمنٹ پر نازل ہوئے ، دیکھا جائے تو سیاست میں آنے سے قبل دونوں صاحبان بیورکریٹ تھے ، کہنے کو وہ سیاست سے لاتعلق ہوگئے تھے، رہی بات مرحوم فضل الٰہی چوہدری اور رفیق تارڑ کی وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کا کتنا دفاع کرسکے؟ صدر جناب آصف علی زرداری کی شخصیت سے فضل الٰہی چوہدری ، غلام اسحق خان ، فاروق لغاری اور رفیق تارڑ کا موازنہ کرنا ہی ناانصافی ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے زندگی کا طویل عرصہ اپنی عظیم قائد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی زیر قیادت 1973ء کے آئین کی بحالی کیلئے جدوجہد کی۔ 13/سال کی عمر میں جیل یاترا کی۔ 1973ء کے آئین میں تو کہیں نہیں لکھا گیا کہ سربراہ مملکت ”صدر پاکستان“کو غیر سیاسی ہونا چاہئے تو پھر غیر سیاسی غیر سیاسی کا فتنہ آئین سے انحراف نہیں تو اور کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ رجعت پسندانہ خیالات رکھنے والا ایک گروہ سیاسی میدان میں قوم کی طرف سے مسترد کئے جانے کے بعد میڈیا کے اندر گھس بیٹھا جس نے دانشورانہ بدیانتی کا مظاہرہ کرکے قوم کو گمراہ کرنے کی مجرمانہ کوشش ، معرو ف کالم نویس اور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے درست فرمایا ہے کہ ”ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہمیں تاریخ ہی غلط پڑھائی گئی ہے“یہ اُس غلط تاریخ کا خمیازہ ہے کہ 1947ء سے لیکر آج تک قوم ایک گول دائرے کا چکر کاٹ رہی ہے ، کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کیا دھرا اس ذہنیت کا ہے جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے فکر اور فلسفے سے تعصب رکھتے ہیں“اگر میں غلط ہوں تو منو بھائی اور جناب مسعود اشعر کو حق ہے کہ میری اصلاح کریں۔
اگر بغض ، تعصب اور نفرت کی ذہنیت کو پس پشت ڈال کر سچائی ، صاف دل اور دیانتداری کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ حقیقت ذہن نشین ہوجائے گی کہ 2008ء کے انتخابات محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کے سینکڑوں جانثاروں کی قربانی کے مرہون منت ہیں۔ اگر جنرل مشرف نے فوجی عہدہ چھوڑا اور نواز شریف کئے ہوئے معاہدے سے قبل از وقت وطن واپس آئے تو یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے طفیل اور اگر جنرل مشرف ایوان صدر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو یہ صدر جناب آصف علی زرداری کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظہر ہے۔
میں کسی ایسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیاست سے بیدخل کرنے کی خواہش رکھنے والے عناصر جو عدالتی نظا م کا شرمناک استعمال کرتے رہے۔صدر جناب آصف علی زرداری کیلئے کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ جن عناصر کو صدر جناب آصف علی زرداری سے پر خاش ہے باوجود جمہوریت کے ثمرات حاصل کرنے کے باوجود تہہ دل سے اعتراف کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ 12اکتوبر 1999ء سے لیکر 8فروری 2008ء تک ہر چیز تبدیل ہوگئی مگر کوئی چیز تبدیل نہ ہوسکی وہ پاکستان پیپلزپارٹی سے پرخاش۔
اگر بغض ، تعصب اور نفرت کی عینک اتار کردیکھا جائے تو سیاستدان صدر جناب آصف علی زرداری نے اپنے تمام اختیارات جو جنرل ضیاء اور جنرل مشرف جیسے غاصبوں نے ہتھیا لئے تھے۔پارلیمنٹ کو واپس کردیے ہیں آج صوبے خود مختار ہیں کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے یہ کارنامہ بھی سیاستدان صدر جناب آصف علی زرداری کا ہے، گلگت بلتستان اور پختون عوام کو اپنی شناخت ملی ہے تو یہ اعزاز بھی سیاستدان صدر جناب آصف علی زرداری کو حاصل ہے، آج پارلیمنٹ باختیار ہے تو اُس کا سہرا بھی سیاستدان صدر جناب آصف علی زرداری کے سر ہے۔ آزاد ، غیر جانبدار اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام ہے تو اس میں بھی سیاستدان صدر جناب آصف علی زرداری کا کردار نظر آئے گا اوراگر 1973ء کا آئین اصل صورت میں بحال ہوچکا ہے تو اس عمل میں بھی سیاستدان صدر جناب آصف علی زرداری کی شخصیت نظر آتی ہے۔ پھر بھی اصرار اس بات پر ہے کہ صدر مملکت کو غیر سیاسی ہونا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ غیر سیاسی صدر کیا غلام اسحق خان اور فاروق لغاری یا رفیق تارڑ جیسا؟۔
معاف کیجئے گا صاحب ملک اور قوم کے ساتھ بہت مذاق ہوچکا بہت ہوچکا۔ ایک سیاستدان صدر نے آزاد ، غیر جانبدار اور بااختیار الیکشن کمیشن کو ورثے میں ایسی انتخابی فہرستیں فراہم کی ہیں کہ ہر ووٹر کا ووٹ اُن کے موبائل فون پر محفوظ ہے، مستقبل میں ہونے والے انتخابات یقینا شفاف ہوں گے ہر ووٹر کے انگوٹھے کا نشان اس کی شفافیت کی گواہی دے گا۔
ریاست کے شہری کا صرف ایک ہی ووٹ ہوگا، کوئی بھی کسی اور کا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے گا تاکہ عوام کے ووٹ کا تقدس بحال ہو اور عوام کو یہ بھروسہ ہوکہ اسے بھی اپنے ووٹ کے ذریعے کسی کو مسترد اور کسی کو منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ سیاستدان صدر مملکت پر کوئی اعتراض ہے تو اُن کے علاج کا نسخہ حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت ابھی ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے ، جمہوریت میں عوام کی عدالت کے فیصلے کے سامنے کے سر تسلیم خم کرنے کے حوصلے کی ضرورت ہوگی۔سیاستدان صدر جناب آصف علی زرداری کو اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت کے بعد سب سے بڑی عدالت عوام کی ہے، میں اس سوال کا جواب پڑھنے والوں پر چھوڑدیتا ہوں کہ سیاستدان صدر ریاست کیلئے بہتر ہے جس نے 1973ء کے آئین کو اصل صورت میں بحال کیا، اپنے تمام اختیارات پارلیمنٹ کے حوالے کئے، آزاد ، غیر جانبدار اور خود مختار الیکشن کمیشن کی بنیاد رکھی۔ یا ایسے غیر سیاسی صدور جو 1973ء کے آئین سے انحراف کرکے جمہوریت پر شب خوں مار کر اقتدار پر قبضہ کرتے ، جمہوریت کو رسوا کرنے کی مشق کرتے رہے اور قصر صدارت کے پروٹوکول میں کھو کر جمہوریت کادفاع کرنے سے قاصر رہے ؟ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگرحقیقت یہ ہے کہ سیاستدان صدر مملکت نے صبر ، برداشت اورمفاہمت کے کلچر کی بنیاد رکھی ہے ۔ آج ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے حکومت مخالف کوئی شخصیت ریاست کے زیر عتاب نہیں ہے ، عدلیہ آزاد اور با اختیار ہے ، میڈیا اپنی آزادی کے معیار کا تعین خود کر رہا ہے ، یہ سب کچھ سیاستدان صدر مملکت کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظہرہے ۔