صدارتی انتخاب کا عمل مکمل ہوچکا جبکہ ضمنی انتخاب کے لیے تیاریاں عروج پر ہیں کراچی سے عمران خان کی خالی کردہ نشست این اے 243 اہمیت اختیار کرگئی ہے اس نشست پر ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم نے عام انتخابات میں اس نشست سے حصے لینے والے علی رضاعابدی کے بجائے فیصل سبزواری کو ٹکٹ جاری کردیا ہے جس پر علی رضا عابدی نے پارٹی کو بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ عام انتخابات کے موقع پر فیصل سبزواری نے انتخاب لڑنے سے انکارکردیا تھا۔علی رضاعابدی کا کہنا ہے کہ انہوں نےذاتی وجوہات کی بنا پر ایم کیو ایم پاکستان کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیا ہے تاہم ذرائع کے مطابق علی رضاعابدی ایم کیو ایم کی جانب سے مسلسل نظرانداز کئے جانے پر دلبرداشتہ تھے 5فروری کو ایم کیو ایم بہادرآباد اور پی آئی بی کی تقسیم کے دوران بھی ان کا قومی اسمبلی اور پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ سامنے آیا تھا تاہم اس کے بعد وہ ایم کیو ایم پی آئی بی گروپ سے وابستہ ہوگئے تھے بعدازاں فاروق ستار اور بہادرآباد گروپ کے ایک ہوجانے کے بعد علی رضاعابدی بھی ایم کیو ایم بہادرآباد سے دوبارہ منسلک ہوگئے تھے تاہم انہیں پہلے جیسی عزت نہیں دی گئی۔ علی رضاعابدی نے حالیہ الیکشن میں این اے 243 سے الیکشن بھی لڑا تھا تاہم وہ کامیاب نہیں ہوسکے تھے اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے این اے 243 کی سیٹ چھوڑنے کے بعد ایم کیو ایم نے ضمنی الیکشن میں علی رضاعابدی کے بجائے فیصل سبزواری کو امیدوار نامزدکیا ہے جس کے باعث علی رضاعابدی مزید دلبرداشتہ ہوئے اور انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا واضح رہے کہ پی آئی بی اور بہادرآباد گروپ ایک ہونے کے بعد بھی پی آئی بی سے وابستہ رہنے والے رہنماؤں کو پہلی جیسی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے سینئررہنمافاروق ستار کو بھی مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے اور ایم کیو ایم کی اہم بیٹھکوں میں فاروق ستار کو شامل نہیں کیا جارہا ۔جس کے باعث ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ فاروق ستار بھی جلد ہی اہم اعلان کرسکتے ہیں۔علی رضاعابدی کے مستعفی ہونے سے یہ تاثر عام ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی ایم کیو ایم پر ماضی جیسی گرفت نہیں رہی ہے اور ایم کیوایم میں دھڑے بندی موجود ہے جو جلد واضح ہوجائے گی دوسری جانب قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 243 میں ضمنی انتخاب کے لیے پی ٹی آئی کے 4 امیدوار میدان میں آگئے ہیں اور ان میں سخت مقابلہ ہے ۔ضمنی انتخاب کے لیے رشید گوڈیل ، عالمگیرمحسود، آفتاب صدیقی اور اشرف قریشی پارٹی ٹکٹ کے لیے کوشاں ہیں پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ ان چاروں امیدواروں کاسروے کرایاجائے گا تاکہ ان میں سے موزوں ترین اور مضبوط امیدوار کو پارٹی ٹکٹ دیا جائے عام انتخابات میں علی رضاعابدی ایم کیو ایم کے امیدوار تھے عمران خان نے انہیں 67 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی کراچی کا حلقہ این اے 243 گلشن اقبال، گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ، جمشیدکوارٹرز، بہادرآباد اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے یاد رہے کہ عام انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کے 2 اور صوبائی اسمبلیوں کے7 حلقوں میں الیکشن ملتوی ہوگیا تھا اس کے علاوہ عام انتخابات میں ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہونے والوں نے 28 نشستیں چھوڑی ہیں جن پر ضمنی انتخابات 14 اکتوبر کو ہوں گے۔ان نشستوں پر پی ٹی آئی اور پی پی پی کے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات ہے۔کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے تحریک انصاف ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، مسلم لیگ(ن)، متحدہ مجلس عمل ،تحریک لبیک پاکستان، پیپلزپارٹی ، پارک سرزمین پارٹی اور دیگر جماعتوں سےتعلق رکھنے والے امیدواروں اور چند آزاد امیدواروں سمیت مجموعی طور پر67 امیدوار میدان میںآچکے ہیں۔ این اے 243 کے لیے 33 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جن میں تحریک انصاف کے عالمگیرخان، آفتاب صدیقی،لیلی پروین، اشرف جبار قریشی اور الیاس ملک، ایم کیو ایم پاکستان کے فیصل سبزواری ، عامرعلی الدین چشتی، محفوظ یار خان اور ارسلان خان، پیپلزپارٹی کے محمدحاکم داد، گل رعنا، متحدہ مجلس عمل کے نعیم اختر، پاک سرزمین پارٹی کے آصف حسنین، مزمل قریشی، سلمان اور حسان صابر، تحریک لبیک پاکستان کے عارف قادری اور ڈاکٹر نوازالہدیٰ، مسلم لیگ(ن) کے جمیل اور شرافت حسین کے علاوہ چند آزاد امیدوار شامل ہیں۔ پی ایس 87 کے لیے 22 کاغذات نامزدگی منظور ہوچکے ہیں جبکہ مزید 12 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ایم کیو ایم پاکستان کے فیصل سبزواری نے کہاکہ ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم بھرپور مہم چلائے گی۔ سرسری بات ہوئی ہے تاہم تحریک انصاف سے کوئی حتمی بات نہیں ہوئی۔دوسری جانب عامرلیاقت حسین کے بعد قومی اسمبلی کے رکن آفتاب جہانگیر بھی تحریک انصاف کی قیادت سے ناراض ہوگئے ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہو یا کراچی، ہمیں مسلسل نظرانداز کیاجارہا ہے سیاسی جماعتوں سے رابطوں کے سلسلے میں ہمیں نہیں پوچھاجارہا، انہوں نے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی سے مطالبہ کیا کہ کراچی کا بڑا ہونے کے ناتے وہ معاملات دیکھیں۔ آفتاب جہانگیر نے کہاکہ بہرحال ہم پارٹی سے ناراض نہیں ہیں اور کوئی فاروڈبلاک بھی نہیں بنارہے۔ بس یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے بات کرنے جائیں تو ہمیں اعتماد میں لیا جائے آفتاب جہانگیراین اے 252سے منتخب ہوئے ہیں سندھ کے گورنر عمران اسماعیل کی حلف برداری کے بعد عشائیے میں مدعو نہ کئے جانے پر عامرلیاقت حسین نے بھی شدید ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ گورنرہاؤس کراچی میں ملاقات کی دعوت کی اطلاع انہیں فون اور واٹس ایپ پر دی گئی پی ٹی آئی کراچی کے صدر فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ اگرگروپ پر عامرلیاقت نے پیغامات نہیں دیکھے تو اس میں پارٹی کا کیا قصور۔جب عشائیہ ہوا ہی نہیں تو کسی کو بلانایا نہ بلانا کیسا؟ دونوں اراکین اسمبلی کو ڈسپلینری کمیٹی کے روبروپیش ہوکر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ادھر پی پی پی کی قیادت سخت مشکلات کا شکار ہے منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اےآصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو چار مرتبہ طلب کرچکی ہے اس معاملے کی وجہ سے کہاجارہا ہے کہ پی پی پی قیادت کھل کر سیاسی فیصلے نہیں کرپارہی ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن بھی تقسیم ہوتی نظرآرہی ہے کہاجارہا ہے کہ آصف زرداری کو نئے این آراو کی پیشکش کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں سابق صدر کا اپنی بہن فریال تالپور سمیت 5 سال کے لیے بیرون ملک جانے کا امکان ہے۔ مقتدرہ حلقوں نے پی پی پی قیادت کے سامنے 2 واضح شرائط رکھ دی ہیں پہلی شرط یہ ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کی طرح آصف زرداری اور فریال تالپور جیل جانے کے لیے تیار ہوجائیں دوسری شرط یہ ہے کہ موجودہ اسمبلی کی پانچ سالہ مدت تک دونوں بہن بھائی بیرون ممالک قیام کریں۔کہاجارہا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے سب سے پہلے چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاویداقبال سے ملاقات کی تھی اور ان سے درخواست کی کہ جس طرح نوازشریف کا احتساب ہوا ہے اسی طرح آصف زرداری اور دیگر کا بھی احتساب کیا جائے جس پر چیئرمین نے مکمل یقین دہانی کراتے ہوئے انہیں اشارتاً کہاکہ دیگر کے سخت احتساب سے پہلے دوسرے اسٹیک ہولڈرزبھی ایک پیج پر ہونے چاہیں ، تاہم امکان ہے کہ بہن بھائی پانچ سال کے لیے بیرون ملک چلے جائیں گے اور پارٹی بلاول بھٹو زرداری، یوسف رضا گیلانی ، اعتزازاحسن ، خورشید شاہ اور دیگر سینئر رہنما چلائیں گے۔ان خبروں میں کتنی صداقت ہے یہ آنے والے چنددونوں میں واضح ہوجائے گا دوسری جانب پی پی پی کے رہنما شرجیل میمن کے کمرے سے مبینہ طور پر شراب کی بوتلیں برآمد ہونے سے پی پی پی کوناتلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے پی پی پی کے رہنما شراب برآمدگی کی بے جار تاویلیں پیش کرکے جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔