• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی حکومت نے مذاکرات کے لئے آئی ایم ایف کی ٹیم کو طلب کر لیا

اسلام آباد (رپورٹ۔ مہتاب حیدر) تحریک انصاف کی حکومت نے مذاکرات کے لئے آئی ایم ایف کی ٹیم کو27ستمبرکو اسلام آباد میں مدعو کیا ہے تاکہ ادائیگیوں میں توازن کے بحران کو حل کیا جا سکے۔ فنانس ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کے تحت حکومت ٹیکسوں کا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالنے کے لئے غورکر رہی ہے۔ ٹیکسوں کی چھوٹ12لاکھ روپے سالانہ سے گھٹا کر6 لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے۔ ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح15سے بڑھا کر20سے25فیصد کر دی جائے گی۔ منی بجٹ کے ذریعے سگریٹوں، غیرضروری پرتعیش اشیاء اور گاڑیوں پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ حکومت200سے300غیرمنظور شدہ اسکیموں کو ختم کر کے نظرثانی شدہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لئے مختص بجٹ کو1030ارب روپے سے کم کر کے600ارب سے650ارب روپے تک لانا چاہتی ہے۔ وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف میں اعلیٰ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے انسدادی اقدامات کے بعد آئی ایم ایف سے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔ توقع ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر8 تا14اکتوبر بالی (انڈونیشیا) میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے، اسی لئے حکومت ملکی اقتصادیات کی درستی کے لئے متعدد اقدامات کرنا چاہتی ہے تاکہ بجٹ اور کرنٹ اکائونٹ خساروں دونوں پر قابو پایا جا سکے۔ مجوزہ بجٹ ترامیم کے ذریعے حکومت زیادہ آمدنی والے طبقات کو مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں دی گئی جزوی ٹیکس مراعات واپس لی جائیں گی۔ حکومت غیرمنقولہ اثاثوں پر دولت ٹیکس لگانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ جی ڈی پی ہدف پر نظرثانی کر کے اسے 6.2فیصد سے گھٹا کر 5.5فیصد کیا جائے گا جبکہ افراط زر میں ہدف کو6 سے بڑھا کر 7 تا8 فیصد کیا جائے گا۔ حکومتی تخمینے کے مطابق ایف بی آر کو 3935ارب روپے ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنا تھا لیکن30 جون2018ء تک3842ارب روپے وصول کئے جا سکے۔ اب ایف بی آر کا ٹیکس وصولیوں کا ہدف4435ارب روپے ہے جو ناقابل حصول نظر آتا ہے، حکومت اس پر بھی نظرثانی کے لئے غور کر رہی ہے۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا6.6فیصد ہو جانے سے بھاری فرق سے بجٹ خسارہ کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اب نظرثانی شدہ ہدف جی ڈی پی کا 5.5فیصد ہو گا۔ اخراجات کی کیفیت بھی بڑی تنگ ہے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات بندھے ہوئے ہیں اور ان میں بڑے پیمانے پر کٹوتی ممکن نہیں ہے۔ آسان طریقہ یہی ہے کہ پی ایس ڈی پی کے تحت اخراجات میں کمی کر دی جائے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ گزشتہ مالی سال میں18 ارب ڈالرز تک جا پہنچا تھا جس کے نتیجے میں زرمبادلہ ذخائر میں کمی واقع ہوئی۔ ایک فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی اور6000ٹیرف لائنز پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا کر درآمدی بل کم کیا جا سکتا ہے لیکن ایف بی آر میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے لئے حکومت کو اسمگلنگ کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے خصوصاً چین کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) پر نظرثانی کی جائے، محض مالی اقدامات بروئے کار لانے سے کام نہیں چلے گا۔

تازہ ترین