ہمارا خُوب صُورت ملک، حسین قدرتی مناظر کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں کے شمالی علاقہ جات کو ان کی دل کشی کی وجہ سے جنّت کے ٹکڑے سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے کہ سخت گرمیوں کے موسم میں بھی ان علاقوں کی پُر فضا آب و ہوا فرحت و انبساط سے دو چار کردیتی ہے۔ حسین جھیلوں، دل کش آب شاروں، جھرنوں،سرسبز و شاداب وادیوں اور سر بہ فلک برف پوش پہاڑوں سے مزیّن یہ مسحور کُن مناظر بلاشبہ، قدرت کی طرف سے وطنِ عزیز کو ودیعت کردہ وہ تحائف ہیں، جن سے دنیا کے بیش تر ممالک محروم ہیں۔ پاکستان کے ان شان دار مقامات کو دیکھنے اور یہاں کچھ روز یا گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لیے لوگ ملک بھر سے بڑی تعداد میں جاتے ہیں۔ ہم بھی موسمِ گرما کی تعطیلات کے لیے ہر سال ان ہی پرفضا وادیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ تاہم، اس بار ہم نے متحدہ عرب امارات کی ریاست ’’دبئی‘‘ کی سیّاحت کا فیصلہ کیا اورجولائی کے وسط میں نو افراد پر مشتمل ہمارا قافلہ کراچی سے دبئی کے لیے روانہ ہوا۔ روانگی کے وقت کراچی کا موسم انتہائی سہانا تھا، لیکن جب دوپہر ایک بجے دبئی ائرپورٹ پر امیگریشن کے مراحل سے فارغ ہوکر باہر آئے، تو گرم ہوائوں کے تھپیڑوں نے استقبال کیا۔ پتا چلا کہ درجۂ حرارت تقریباً بیالیس ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ ائرپورٹ سے ہوٹل تک لے جانے والے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ ’’کچھ روز قبل تک یہی درجۂ حرارت پچاس سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔‘‘ویسے، موسم کی یہ شدّت پورے متحدہ عرب امارات پر محیط ہے اور اس کا ہمارے ملک کی طرح ’’گلوبل وارمنگ‘‘ یا ’’عالمی حدّت‘‘سے کوئی تعلق نہیں۔
ہوٹل پہنچ کر سہ پہر تک آرام کیا۔ شام کو شارجہ میں مقیم، اہلیہ کی چھوٹی بہن، اپنے شوہر اور بچّوں کے ساتھ وافر مقدار میں کھانے پینے کی اشیاء لیے ہوٹل پہنچ ٓگئیں۔ گھر کا پکا کھانا کھا کر اور چائے پی کر طبیعت ہشّاش بشّاش ہوئی، تو سب سے پہلے دبئی کی پہچان، ’’برج الخلیفہ‘‘ دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ دنیا کی اس سب سے بلند عمارت کو متحدہ عرب امارات کے سابق صدر، شیخ خلیفہ بن زید النہیان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ برج خلیفہ کی کل بلندی 828 میٹر ہے، جب کہ اس کی کل منزلیں 162 ہیں۔ اس طرح یہ دنیا میں سب سے زیادہ منزلوں کی حامل عمارت بھی ہے۔ برج خلیفہ میں دنیا کی تیز ترین لفٹ بھی نصب کی گئی ہے، جو 18 میٹر فی سیکنڈ (65 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ پورے عمارتی منصوبےمیں 30ہزار رہایشی مکانات، 9 ہوٹلز، 6 ایکڑ باغات،19 رہایشی ٹاورز اور جھیل شامل ہیں۔ اس کی تعمیر پرتقریباً 8 ارب ڈالرز کی لاگت آئی۔ علاوہ ازیں، برج خلیفه ٹاور میں دنیا کی سب سے بلند ترین مسجد بھی واقع ہے، جو 158 ویں منزل پر ہے۔ اس عجوبہء روزگار عمارت کو دیکھنے کے لیے ہمہ وقت سیّاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ شام سے رات گئے تک بُرج خلیفہ میں وقفے وقفے سے فائرورک اور واٹر ورک کا شان دار مظاہرہ کیا جاتا ہے۔نیز، بلند و بالا عمارت پر برقی قمقموں کی مدد سے مختلف شکلیں بھی بنتی نظر آتی ہیں۔ پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے قومی پرچم بنتا نظر آیا تو دیکھ کردل خوشی کے جذبات سے لبریز ہوگیا ۔ یہاںدن رات ہزاروں افراد کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لوگ مبہوت ہوکر انسانی کمالات کا مظاہرہ دیکھتے ہیں اور سیلفیز لینے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
برج خلیفہ کے سحر سے نکل کر ہم اپنی اگلی منزل ’’وائلڈ وادی‘‘ جا پہنچے۔ یہ ’’آبی تفریح گاہ‘‘ بھی ایک الگ ہی دنیا ہے۔ جس کا شمار دنیا کے حسین ترین ٹاپ 20 واٹر پارکس میں ہوتا ہے۔ اگرچہ رقبے کے لحاظ سے تواسے دنیا کا سب سے بڑا واٹر پارک قرار نہیں دیا جاسکتا، لیکن اتنے وسیع رقبے پر اس قدر سلائیڈز اور رائیڈز دنیا کے کسی اور واٹر پارک میں نہیں ہیں۔ وائلڈ وادی واٹر پارک میں کچھ رائڈز پر رائیڈنگ کرنا انتہائی دل گردے کا کام ہے۔ سب سے اونچی سلائیڈ 390 فٹ بلند ہے اور اس کی اسپیڈ قریباً 50 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ دنیا کا پہلا واٹر پارک ہے، جو ISO سرٹیفائیڈ ہے۔ یہاں تفریح کی غرض سے آنے والوں کو یہ پارک دنیا کے جھمیلوں سے دُور، کچھ دیر کے لیے’’اپنی دنیا آپ پیدا کر‘‘ کا مشورہ دیتا ہے۔ ’’وائلڈ وادی‘‘ کے اندر بہت سارے ’’واٹر اسپاٹس‘‘ (آبی مقامات) اس تیکنیک سے بنائے گئے ہیں کہ ربر کی بوٹ پر سواری کے دوران کہیں کھلا آسمان، تو کہیں سائبان دکھائی دیتے ہیں اور ان سے ہمہ وقت کبھی برق رفتاری سے تو کبھی دھیمی رفتار سے پانی سرکے اوپر گرتا رہتاہے۔ یہاں کئی انتہائی سخت مقامات بھی آتے ہیں۔ جہاں پیراک تیزرفتار پانی کی لہروں سے لڑنے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان ہی مقامات میں ایک جگہ ایک طویل نہر کی شکل میں پانی کو ایک لمبی پیچ دارسُرنگ سے گزارار جاتا ہے۔ تاریک سُرنگ کے اندرایک ڈیڑھ منٹ تک تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مصنوعی لہروں سے بنایا گیا ایک وسیع و عریض آبی مقام بھی اچھے پیراکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان تمام مقامات پر لائف گارڈز ہمہ وقت حفاظت کے لیے چوکس رہتے ہیں۔ ’’وائلڈ وادی‘‘ میں ہم سب نے اور خاص طور پر بچّوں نے بہت اچھا وقت گزارا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں کئی گھنٹے گزارنے اور مسلسل پانی میں کھیلنے سے تھکن سے چُور ہوگئے۔ لہٰذاوہاں سے سیدھا ہوٹل کا رُخ کیا۔
اگلے روز علی الصباح بے دار ہوئے۔ پُرتکلف ناشتے کے بعد ہمارا پروگرام ’’ڈیزرٹ سفاری‘‘ جانے کا تھا۔ دبئی شہر سے کافی دور واقع صحرا میں ریت کا چٹیل میدان اونچے نیچے گڑھوں سے پُر ہے۔ جس پر ماہر ڈرائیور انتہائی چابک دستی سے مخصوص طرز پر بنائی گئی گاڑیوں میں بٹھا کرلوگوں کو پورے صحراکا چکّر لگواتے ہیں۔ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی نشیب و فراز میں سفر کرتی کبھی کھائی اور کبھی اچانک بلندی پرجا نکلتی ہے۔ حفاظتی بیلٹ باندھنے کے باوجود خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں لڑھکتے ہوئے ایک طرف سے دوسری طرف نہ چلے جائیں۔ ’’ڈیزرٹ سفاری‘‘ مٹّی میں کھیلا جانے والا،ایک بہت ہی مقبول کھیل ہے، جس کے لیےہزاروں لوگ رائیڈز بُک کرواتے ہیں۔ یوں دبئی نے اپنی مٹّی کو بھی سونا بنالیا ہے۔ یہاں مقامی افراد عقاب لے کر پھرتے ہیں۔ آپ عقاب کو اپنے ہاتھ پر لے کر تصاویر اترواسکتے ہیں۔ یہ بھی بہت اچھا تجربہ ہے۔ شام ڈھلتے ہی صحرا میں رنگ و نور کی بہار آجاتی ہے۔ مقامی کھانوں پر مشتمل ’’بوفے ‘‘ سج جاتے ہیں اور پھر پس منظر میں عربی گانوں کی دُھن اور سازوں کے درمیان عربی رقص تو جیسے زمانہ قدیم میں پہنچا دیتا ہے۔
’’چلڈرن سٹی پارک‘‘ کہنے کو تو بچّوں کے لیے بنایا گیا ہے، تاہم اس میں چھوٹے، بڑوں سب ہی کی دل چسپی کا سامان موجود ہے۔ پارک کے اندر ’’علم الاجسام‘‘ کے عنوان سے ایک وسیع و عریض ہال ہے، جس میں انسانی جسم کے اعضاء ربر کی شکل میں موجود ہیں۔ نیز، ان کے بارے میں انگریزی اور عربی میں تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ اسی ہال کے سامنے کی جانب فلکیات سے متعلق حیرت انگیز اشیاء بھی موجود ہیں۔ جن میں ہوائی جہاز سے لے کر چاند پر سفر کرنے والی گاڑی تک، بڑے بڑے ماڈلزکی صورت، ایک چھت کے نیچے رکھی گئی ہیں۔ یہاں اگر سنجیدگی سے وقت گزارا جائے، تو فلکیات کی مبادیات اور اس میدان میں ہونے والی ترقی کی رفتار سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں، جب آپ فلکیات کی اشیاء سے واقف ہوجائیں، تو ہال سے متصّل سنیما میں ’’کائنات اور سیّارے‘‘ کے عنوان سے بنائی گئی ایک گھنٹے کی انتہائی معلوماتی فلم بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یقیناً یہ سارے تفریحی لمحات ’’علم دوستی‘‘ کی جانب لے جاتے ہیں۔ ’’چلڈرن سٹی پارک‘‘ کی وسیع و عریض دنیا سے نکل کر ہم ’’اٹلانٹس ہوٹل‘‘ جاپہنچے۔ سمندر کے کنارے آباد شان دار طرزِ تعمیر اور خوب صورتی کے باعث یہ ہوٹل لوگوں کی خاص توجّہ کا مرکز ہے۔ محض ہوٹل کے نظارے کے لیے لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہمہ وقت یہاں موجود رہتی ہے، جب کہ رات میں اس کی دل فریب روشنیاں ماحول کو خواب ناک بنادیتی ہیں۔
’’پام جمیرا‘‘ بھی دبئی کی اُن جگہوں میں شمار کی جاتی ہے کہ جہاں آکر ایک خوش گوارا حساس ہوتا ہے۔ نظارے عمدہ، انتظامات غیر معمولی ،غرض تفریح کا ہر سامان موجود ہے۔ دبئی کا ایک پرتعیش ہوٹل ’’برج العرب‘‘ 280میٹر کے فاصلے پر ایک مصنوعی جزیرے پر قائم ہے۔جسے دنیا کا پہلا 7 ستارہ ہوٹل ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے۔ برج العرب دور سے دیکھنے پر ساحل کے کنارے کھڑی ایک عظیم بادبانی کشتی کی مانند لگتا ہے۔ اس کا شماردنیا کے مہنگے ترین ہوٹلزمیں ہوتا ہے۔ ہوٹل میں قائم ریسٹورنٹ المہارا زیرِ سمندر واقع ہے، جہاں کھانے کے ساتھ ساتھ سمندری حیات کا دل کش نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ رات کے اوقات میں عمارت کے باہر روشنی کا بہترین انتظام ہوتاہے، جب وہ سفید رنگ کےعلاوہ، دیگر کئی رنگوں کے نظارے بھی پیش کرتی ہے۔
دبئی کی سڑکیں انتہائی صاف ستھری اور کشادہ ہیں۔ دبئی کی ایک سڑک تو آٹھ لین پر مشتمل ہے۔ یعنی ایک وقت میں ایک طرف آٹھ گاڑیاں چل سکتی ہیں۔ یہ وہ سڑک ہے، جس پر دو سمندری ٹکڑوں کو ملانے والا ’’فلوٹنگ بِرج‘‘ تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پُل کی تعمیر کا مقصد وہاں کی دو مصروف شاہراہوں ’’الغرود برج‘‘ اور ’’المکتوم برج‘‘ پر ٹریفک کے بے پناہ دباؤ کو کم کرنا ہے۔ ’’فلوٹنگ برج‘‘ ایک معیّنہ وقت پر سمندر کی ایک جانب کو دوسری جانب سے ملاتا بھی ہے اور جدا بھی کرتاہے۔ لوگ اس منظر کو بھی دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ کچھ سڑکیں چھے لینز پر بھی مشتمل ہیں، جہاں ٹریفک انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے۔ صرف دبئی ہی میں نہیں، پورے متحدہ امارات میں جگہ جگہ حدّ رفتار بتانے والے سائن بورڈز نصب ہیں اور ان سائن بورڈز کے ساتھ ہی کیمرے بھی نصب ہیں۔ اگر کوئی گاڑی معیّنہ حد سے تجاوز کرتی ہے، تو کیمرے کی آنکھ اُسے محفوظ کرلیتی ہے اور یوں وہ شخص قانون کی نظروں میں آجاتا ہے۔ نہ ٹریفک پولیس سے تُو تُو، مَیں مَیں، نہ کوئی جھگڑا۔ سیٹ بیلٹ کے بغیر گاڑی میں سفر کرنا قانوناً جرم ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ٹیکسی کے علاوہ انتہائی بڑی بڑی آرام دہ ائرکنڈیشنڈ بسز بھی شامل ہیں۔ یہ بسز اپنے معیّنہ اسٹاپس پر رُکتی ہیں۔ڈبل ڈیکر بس پر سفر بھی ایک خوش گوار تجربے سے کم نہیں۔ میٹرو ٹرین دبئی کاایک شان دار پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہے۔ تیس سے چالیس فٹ بلند پُل پر چلنے والی میٹرو ٹرین میں سفر کرتے ہوئے شہر کی سر بہ فلک عمارات کی جگمگاتی روشنیاں آنکھیں کو خیرہ کرتی ہیں، اگر آپ دبئی گئے اور میٹرو ٹرین کی سواری سے محروم رہے، تو ایک عُمدہ تجربے سے بھی محروم رہیں گے۔ پارکنگ کے حوالے سے بات کی جائے، تو دبئی کی پارکنگ کا نظام بھی انتہائی اعلیٰ اور منظّم ہے۔ ہزاروں لوگ پارکنگ پلازا کے اندر اپنی گاڑیاں انتہائی ترتیب اور نظم و ضبط سے پارک کرتے ہیں۔ کوئی اپنی مرضی سے کسی دوسری جگہ گاڑی پارک نہیں کرسکتا۔ یہاں قدم قدم پر قاعدے اور قانون کی پابندی اور پاس داری لازمی ہے۔ ہم دبئی کے جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے، وہ ائرپورٹ سے کافی نزدیک واقع تھا۔ ہوٹل سے بالکل نزدیک ’’کارفور‘‘ نامی مال تھا، کہ جہاں دنیا بھر کی اشیاء مع مشروبات و فواکہات مناسب دام پر دستیاب تھیں۔ ہمیں جب مال میں جانا ہوتا، زیبرا کراسنگ کے پاس آکر اُس میں موجود ’’walker‘‘ (پیدل چلنے والے)کا بٹن دبا دیتےاور اس بٹن کے دباتے ہی چالیس، پچاس سیکنڈ کے اندر گاڑیوں کے لیے سگنل سُرخ اور ’’walker ‘‘یعنی پیدل چلنے والوں کے لیے سبز ہو جاتا۔ پیدل چلنے والوں کے لیے اس حد تک سہولت کا انتظام ایک خوش گوار تجربہ تھا۔دبئی میں یوں تو ہوٹلز کا ایک طویل سلسلہ ہے، تاہم کچھ مقامی ڈشز بہت لذیذ ہیں۔ اُن ہی میں ’’مراحب‘‘ نامی ہوٹل میں ’’مذبی‘‘ اور ’’مندی‘‘ نامی ڈشز، جو مٹن اور چکن کو چاولوں کے ساتھ ملا کر پیش کی جاتی ہیں،بہت مزہ دیتی ہیں۔ ہم جب قبل ازیں دبئی آئے تھے، تب بھی اُن ڈشز سے خوب لُطف اندوز ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ ’’سوئیٹ ڈش‘‘ کے طور پر ’’کُنافہ‘‘ بھی بے حد لذیذ چیز ہے۔ سائز میں چھوٹے پیزے کے برابر اس سوئٹ ڈش کا اپنا مزہ کچھ کچھ شاہی ٹکڑے سے ملتا جُلتا ہے۔ ’’کُنافہ‘‘ نامی سوئٹ ڈش کے ساتھ ’’شِیرہ‘‘ الگ سے دیا جاتا ہے، جسے آپ اپنے ذوق کے مطابق گھٹا یا بڑھا سکتے ہیں۔
’’بولی وڈ پارک‘‘ بھی ایک تفریحی مقام ہے۔ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے۔ اس پارک میں جگہ جگہ بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکاروں اور اداکاراؤں کی قدِ آدم تصاویر ہیں۔ اسی کے ساتھ بھارتی فلمیں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ بھارتی فلمی ستاروں کی وہاں اس حد تک مقبولیت ہے کہ شاہ راہوں پر جگہ جگہ اُن کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ اسی کے ساتھ وہاں کے مقامی چینلز میں ایک چینل انڈین فلموں کے لیے مخصوص ہے، جس پر مستقل طور پر بھارتی فلمیں اور ڈرامے چلتے رہتے ہیں۔ بھارتی فلموں اور ڈراموں کی بے تحاشا مقبولیت اور پسندیدگی کی وجہ سے اُنہیں عربی زبان میں ڈب کر کے بھی چلایا جاتا ہے۔
اگر شاپنگ مالز کی بات کریں، تو دبئی آ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر سے لوگ وہاں صرف شاپنگ مالز ہی کے لیے آتے ہیں۔ اگر دبئی کی سڑکوں پر سخت ترین گرمی ہے، تو شاپنگ مالز کے اندر کا ماحول گویا یخ بستہ ہے۔ فرش سے لے کر دکان تک اور دکان میں موجود اشیاء تک، اپنی نفاست اور دیدہ زیبی کے باعث اپنی مثال آپ معلوم ہوتی ہیں۔ چاہے آپ کسی بھی شاپنگ مال میں چلے جائیں، اندر سے آپ کو سب ایک جیسے لگیں گے۔ ’’دی دبئی مال‘‘ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وہ شاپنگ مال ہے کہ جہاں دنیا بھر کےسب سے زیاد ہ لوگ آتے ہیں۔ یہ اتنا وسیع و عریض ہے کہ آپ کو اسے مکمل طور پر دیکھنے کے لیے ضرورت سے زیادہ وقت درکار ہوگا۔ چلتے چلتے آپ تھکن محسوس کرنے لگیں گے۔ اس شاپنگ مال میں قائم ’’ایکوریم‘‘ رنگ برنگی مچھلیوں کے باعث ہزاروں لوگوں کی توجہات کا مرکز ہے۔ بعض مچھلیاں انتہائی دیوقامت ہیں۔ آپ ان تمام مچھلیوں کو بالکل قریب سے گزرتا دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔
دبئی شہر کی ایک امتیازی شان، بلند و بالا اور شیشے کی طرح چمکتی دمکتی عمارات بھی ہیں۔ جب آپ رات کے وقت دبئی کی مرکزی شاہ راہ پر سفر کر رہے ہوں، تو یہ روشنیوں سے جگمگاتی بلند و بالا عمارات یوں نظر آئیں گی کہ جیسے انہوں نے کچھ آگے چل کر آپ کا راستہ روک رکھا ہو، تاہم جیسے جیسے گاڑی میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے، یہ دو رویہ عمارات خود بہ خود د ائیں بائیں نظر آنے لگیں گی۔ مختلف شان دار عمارات کے درمیان کچھ وقت پہلے تعمیر ہونے والی عمارت ’’فریم‘‘ بھی ہے۔ فریم سے مراد تصویر کا فریم ہے۔ اس انتہائی بلند عمارت کو (ویسے اسے عمارت کہنا شاید دُرست نہ ہو کہ یہ کسی ڈھانچے کے بغیرہے) فریم کی شکل دی گئی ہے اور اس میں ہر وقت بہت سی لفٹس(elevator)چلتی رہتی ہیں، جن سے پورے دبئی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیّاح دبئی اس غرض سے آتے ہیں کہ یہاں کے تفریحی مقامات، عمارات،جدید ترین شاپنگ مالز اور جگ مگ جگ کرتی روشنیوں سے جی بھر کر لُطف اندوز ہوں۔ صبح ہو یا شام، دن ہو یا رات،دبئی متاثّر بھی کرتا ہے اورمرعوب بھی۔ چھٹیاں گزارنی ہوں، اہلِ خانہ کے ساتھ بہترین اور محفوظ ترین تفریحی لمحات بسر کرنے ہوں، دنیا بھر کی اقوام کے افراد کو ایک جگہ دیکھنا ہو اور ہمیشہ یاد رہ جانے والے مناظر کی خواہش ہو، تو دبئی سے بہتر مقام کوئی نہیں۔ ہماری حکومت اور اربابِ اقتدار و اختیار بھی دبئی کی حیرت انگیز ترقی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
جب ہم دبئی سے واپس کراچی ائرپورٹ اترے، تو آدھی رات بیت چکی تھی اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواچل رہی تھی۔ موسم انتہائی خوش گوار تھا۔ایسا موسم کہ جس کا دبئی میں شاید تصوّر بھی نہیں۔ ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ پروردگار نے ہمارے پیارے وطن کو ہر ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ضرورت صرف اچھی حکمتِ عملی مرتّب کرنے کی ہے۔ جس دن ہم نظم و ضبط، جواب دہی، قانون کی پاس داری اور وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوجائیںگے، شاید اُسی دن سے ہماری ترقی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع ہوجائےگا۔