• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پس آئینہ…حناپرویز بٹ(ممبر پنجاب اسمبلی)
ماما بہتان کیا ہوتا ہے؟ بیٹے کے سوال پوچھنے پر میں نے پوچھا کیوں کیا ہوا ہے؟ بیٹا بولا پہلے بتائیں نا۔میں نے کہا کسی پر جھوٹا الزام لگانا بہتان کے زمرے میں آتا ہے جس کی ہمارے مذہب نے سخت ممانعت کی ہے۔ اب بتائو تم کیوں پوچھ رہے تھے؟ ماما جب کلثوم نواز بیمار ہوئی تھیں تو مخالفین میاں نواز اور انکے خاندان پر الزام لگارہے تھے کہ کلثوم بیمار نہیں بلکہ یہ بہانے بنا رہے تھے اب تو کلثوم اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں اب تو انھیں یقین ہوگیا ہوگا کہ وہ جھوٹ نہیں تھا لیکن سوال یہ ہے کہ جھوٹ بولنےوالوں نے جتنا دکھ دیا ہے اس کی تلافی کون کرے گا؟ اس بڑے بہتان پر انھیں سزا کون دے گا؟ میں نے کہا بیٹا دیگر اخلاقی گناہوں کی طرح اس گناہ یعنی بہتان کی سزا دینا بھی اللہ میاں کی صوابدید ہے وہ جب چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ لیکن مامایہ مثالیں تو امریکہ اور برطانیہ کی دیتے تھے۔ حکومت میں آنے سے پہلے کہتے تھے کہ ہم قوم سے سچ بولیں گے۔ لیکن ہر روز ایک نیا جھوٹ بول رہے ہیں۔ ماما میرے سر ولیم کہتے ہیں جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے جو عظیم مشکلات کو جنم دیتا ہے ؟مجھ سے یہ مکالمہ کرنے والا میرا بیٹا یہ ماننے کیلئے ہرگز تیار نہ تھا کہ جھوٹ بولنے والا ایماندار ہوسکتا ہے۔ ماما اعتزاز احسن نے تو جھوٹا الزام لگانے پر معافی مانگ لی تھی لیکن خود کو سچا اور ایماندار کہنے والوں نے کیوں معافی نہیں مانگی؟ کیا انھیں اللہ میاں سے ڈر نہیں لگتا؟ بیٹا چھوڑو ان کو کوئی اور بات کرو۔اچھا تو ماما یہ بتائیں عدالت نے میاں نواز شریف، مریم اورکیپٹن صفدر کو کیوں چھوڑا؟ بھئی عدالت نے کہا ہے کہ انھیں مفروضے کی بنیاد پر سزا دی گئی ۔ ماما جی اس کا مطلب تو یہ ہے کہ پھر تو ان کے خلاف قائم کیا گیا کیس بھی غلط تھا نا؟ ان کے خلاف کئے گئے دھرنے بھی غلط تھے؟ ان کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈہ بھی غلط تھا؟ ہاں بھئی ہاں یہ سب غلط تھا میںنے کہا۔ تو پھر ماما جی جن لوگوں نے جھوٹ بول کر قوم کا وقت ضائع کیا ان کو سزا کون دے گا؟ اس نے نیا سوال داغ دیا۔ بیٹا ماضی قریب ہو یا ماضی بعید ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے کہ پروپیگنڈہ ماسٹرز جھوٹ کو اتنا پھیلاتے ہیں کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ میرے بیٹے یاد رکھنا ایسے ماہر کا ذبین مسلسل جھوٹ پھیلا کر مخصوص مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس عمل میں وہ وقتی کامیابی ضرور حاصل کرلیتے ہیں لیکن آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باطل کو شکست فاش ہوتی ہے اور سچ دائمی فتح حاصل کرلیتا ہے۔ ہر اندھیری رات کے بعد صبح کا سویرا ضرور ہوتا ہے۔ایک لمحہ کیلئے سوچیں کہ یہ اس بچے کی سوچ ہے جو پروپیگنڈہ پر مبنی گیت سن کر بڑا ہوا ہے اور محض چند واقعات سن کر خود کے ذہن سے نئےبیانیہ کی نہ صرف تعمیر کررہا ہے بلکہ اس کا برملا اظہار کررہا ہے۔ میرے ملک کے باشعور نوجوان اور پوری قوم اس سارے عمل پرکیا نہیں سوچ رہی ہوگی۔ وہ یقیناً یہی سوچ رہے ہوں گے کہ جب نوازشریف کے خلاف کیسزمیں کرپشن کے ثبوت تو دور کی بات کرپشن کاکوئی ایک الزام تک بھی نہیں تو پھر ضرور یہ سب اپنے مفاد کیلئے کیا گیا ہوگا۔ جب میاں نوازشریف اور مریم نواز شریف بستر مرگ پر کلثوم نواز کو چھوڑ کر جیل جانے کیلئے وطن آرہے تھے تو ان کے دل میں کیا کیا خدشات نہیں پنپ رہے ہوں گے؟ لیکن انھوں نے ذرا بھر پروا نہیں کی اور اسیری کو چن لیا۔ ظالم پھر بھی باز نہیں آئے ہر لمحہ ہر قدم کلثوم نواز کی بیماری کو ڈھونگ قرار دیتے رہے۔ قبل ازیں اسپتال میں جاسوس بھیج کر ویڈیو بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔ کئی ایک لے پالکوں نے تو اسپتال کو بھی شریف خاندان کی ملکیت قرار دیا گیا۔ بہانہ اور جعل سازی قرار دیتے ہوئے قوم کےسامنے شریف خاندان کا ٹھٹھہ اڑایا گیا لندن میں انکے گھر کے باہر دشنام طرازیوں کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ پروپیگنڈہ ماسٹرز لغو بیانات دیکر نہ صرف عوام کا برین واش کرتے بلکہ جعلی دعوے بھی کرتے رہے کہ ہمارے پاس اسکے ثبوت ہیں جو انھوں نے کبھی پیش نہیں کئے۔ شریف خاندان کے بچوں کا لندن میں رہائش گاہ سے باہر نکلنا تکلیف دہ حد تک مشکل بنا دیا گیا۔ جھوٹ دروغ گوئی بہتان بازی کی مد میں کیا کیا نہیں کیا گیا۔ میرا ان سے کہنا ہے کہ بس کردو بہت ہوگیا۔ ذرا سوچیں وہ لمحہ کتنا تکلیف دہ اورمشکل ترین ہوگا جب میاں نواز شریف اپنی اہلیہ کو لحد میں اتار رہے تھے تو دوسری طرف ایمانداری کے ڈھونڈ رچی لذت مرگ کے جنون میں مبتلا تھے۔ کلثوم کے بائوجی کا مذاق بنانے والے کیا جانیں کہ قربانی کیا ہوتی ہے؟ عدالت نے پہلے بھی اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف کرپشن کے کوئی ثبوت نہیں ملے حتمی فیصلے میں یہی نتیجہ نکلے گا۔
تازہ ترین