• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صُبح فیروز کی آنکھ معمول سے کچھ دیر سے کُھلی، تو شہر کے قدیم علاقے کی خاندانی حویلی کی بالائی منزل پر واقع کمرے میں دَھرے، ساگوانی لکڑی کے منقّش پلنگ سے انگڑائی لے کر آرام دہ بستر پر اُٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر نرم تکیے سے ٹیک لگا کر اپنے اوپر سے سفید چادر ہٹائی اور فرش پر کھڑا ہوگیا۔بہار کے دِن تھے۔ ہوا میں ایک خوش گوار مہک اور معمولی خنکی تھی۔ اُس نے گلی میں کُھلنے والی کھڑکی سے جالی دار جھالر والے پھول دار پردے ہٹا دئیے۔ کمرے میں ہوا بھر آئی اور اپنے ساتھ کھڑکی کی سِل پر دھرے گملوں اور دیوار گیر بیل پر لگے پھولوں کی مہک بھی لے آئی۔ باہر سے چڑیوں کے چہچہانے اور سامنے مکان کی کھڑکی پرپڑے مٹّی کے کٹوروں میں رکھے باجرے پر چونچیں مارتے کبوتروں کی غٹرغوں بڑھ گئی۔ بالائی منزل پر ہونے کی وجہ سے کمرے میں دھوپ آتی تھی، سو ایک چمک دار، آنکھیں چندھیاتی شعاع سامنے آویزاں بھاری مونچھوں اور کُلاہ دارپگ والے بزرگ کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر پر بھی مرکوز ہوگئی۔ نیچے گلی میں عموماً کم کم ہی دھوپ پہنچ پاتی، تو وہاں معمولی ٹھنڈک رہتی تھی۔ البتہ چلچلاتی دھوپ والی گرمیوں میں لُو کے تھپیڑے اس سے شرلاتے ہوئے گزرجاتے اور برسات میں حبس دَم گھونٹتا تھا۔فیروز پردے ہٹا کر واپس مُڑا۔ بیت الخلاء میں داخل ہو کر دیوار میں پیوست، پورسلین کے سفید بیسن کی بھاری لوہے کی رواں مٹھی کو گھمایا، تو پانی کی ایک موٹی دھار شڑاشڑ چھینٹوں میں ٹوٹنے لگی۔ ہاتھ کا پیالا بنا کر منہ پر پانی کے دوچار چھپاکے مارنے کے بعد اُس نے آنکھیں بند کرکے خوب مَل مَل کر چہرے پر صابن سے جھاگ بنائی اور مُنہ دھو لیا۔مسواک کرتے ہوئے اُسے خیال آیا کہ ہر روز صُبح سویرے گلی میں آنے والے جس فقیر کی صدا سے اُس کی آنکھ کُھل جایا کرتی تھی،آج اُس کی آواز سُنائی نہیں دی۔اُس فقیرنے بھگت کبیر کے دوہے یاد کررکھے تھے، جو وہ باآواز ِبُلند پڑھتا جاتا تھا۔وہ بالوں کو پانی سے نم کرکے کنگھا کرتا، حویلی سے باہر جانے کا ارادہ کرنے لگا۔فیروز اُن دنوں پچھلی ملازمت چھوڑ کر فارغ تھا اور بے فکری کے یہ دِن مزے میں گزارنے کا ارادہ رکھتاتھا۔اُس نےلکڑی کی پُرانی، خُوب پالش شدہ الماری سے دھوبی کا تازہ استری شدہ سفید کُرتا شلوار نکال کر پہنا، بستر پر بیٹھ کر پشاوری چپل کی چرمی پیٹی کَسی ،ہاتھ میں نقرئی گھڑی باندھی، جیب میں بٹوا رکھا اور جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ جانے سے پہلے اُس نے کمرے پر ایک سرسری نظر ڈالی کہ وہ کچھ بھول تو نہیں رہا۔ سامنے میز پر چاندی کی کٹوری میں پانی پرموتیے کے پھول تیر رہے تھے، کونے میں جالی دار کرسی کے ساتھ انگوری گُل دان میں گلاب، مگنولیا، یاسمین اور بہار کے دیگرسیاہ ، سفید،گلابی پھول سجے تھے۔ قدِّآدم بھاری گھڑیال کی سوئیاں رُکی ہوئی تھیں، واش بیسن کے اوپر شیونگ کا سامان، کنگھا، مسواک،پھٹکری، منجن، آفٹر شیو لوشن، پرفیوم دھرے تھے اور اُس سے ذرا اوپر آئینے کی جگہ اس کا خالی چوکھٹا لگا تھا۔

فیروز نے سرسری نظر کے بعد کمرے کا دروازہ بھیڑا، حویلی کی اندرونی بالکونی پرآیا، حویلی کے بیچ صحن کے چاروں طرف گرداگرد بالکونی گھوم جاتی تھی، جس میں مختلف کمروں کے دروازے کھلتے تھے۔ نیچے صحن کے وسط میں فوّارہ، چھوٹا سا گھاس کا قطعہ اور متروک ہینڈپمپ لگے تھے۔چند موڑھے، ایک تپائی، جس پر چشمہ دھرا تھا،چائے کی پیالیاں،چینک اورٹی کوزی پڑے تھے۔ساتھ میں بچوں کے کھلونے، موم بتی سے چلنے والی کشتی، بھونپو، لڈُو اور گیند رکھے تھے۔ خلافِ معمول صحن میں چہل پہل نہ تھی۔ یوں دِکھتا تھا، جیسے سب ابھی کہیں اُٹھ کر گئے ہیں، تایا جی عینک ، بِلّو کھلونے، بیوہ پھوپھی کڑھائی کا سامان اور زینب بوا چائے کی پیالی رکھ کرجلدی میں چلے گئے ہوں۔اس حویلی میں مشترکہ خاندان آباد تھا۔ سو، خُوب رونق اور ریل پیل رہتی تھی، البتہ اُس وقت گویا سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔

فیروز عاجلانہ نظر ڈال کر اپنے کمرے کے ساتھ تنگ پھسلواں زینہ، احتیاط سے نیم اندھیرے میں اُترتا حویلی کے پائیں دروازے تک آگیا۔ باہر گلی میں نکل کر اُس نے مسرت سے آسمان کی طرف دیکھا۔وہ یقیناً ایک خوش گوار دِن تھا۔نیلے آسمان پر بادلوں کی سفید گالے دور کہیں بھٹک رہے تھے، چیلیں گویا نیم خوابیدگی میں آہستہ آہستہ ہوا میں تیر رہی تھیں اور خُوب چمک دار دھوپ ابھی دوپہر کی تمازت سے محروم تھی۔ سامنے والے گھر کے سامنے سبزی کا ٹھیلا کھڑا تھا۔ اُس پر تازہ گول گول گلابی چھلکوں والے پیاز، سیاہ لمبوترے بینگن، سبز کریلے، نوک دار بھنڈیاں، موٹے موٹے کھیرے اور پالک کی گٹھیاں دھرے تھے۔ اُن پر تازہ پانی کا چھڑکاؤ ہوا تھا۔ سو، پانی کے قطرے ان پرچمک رہے تھے۔’’ہرسبزی کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے، جب کہ گوشت کا ایک ہی ذائقہ، پھر بھی نہ جانے کیوں لوگ گوشت کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔‘‘ اُس نے سوچا۔ ٹھیلے والا وہاں کھڑا نہ تھا، البتہ گھر کے چوبی دروازے کا کنڈا کھلا تھا اور وہ نیم وا تھا۔ اندر سے اندھیرا جھانک رہا تھا۔وہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہ گلی نسبتاً تنگ تھی، حال ہی میں اس کی نالیوں کو ڈھک دیا گیا تھا،لٹکتی بجلی کے تاروں کو سلیقے سے پائپوں میں ڈال کر دیواروں کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا ،لہٰذا گلی کشادہ اور ستھری محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ وہاں سے چلتا مرکزی سڑک تک آگیا۔فیروز کو اُس صُبح پہلی مرتبہ اچنبھے کا احساس ہوا۔ اب تک وہ عادتاً سرسری نگاہ ڈال کر بڑھتا آیا تھا، البتہ سڑک پر سناٹا تھا۔ آدم نہ کوئی آدم زاد نظر آتا تھا۔’’نہ جانے یہ سب لوگ کدھر چلے گئے‘‘اُس نے سوچا اور رُک کر دیکھنے لگا’’شاید کوئی واقعہ یا سانحہ ہوا ہے اور لوگ باگ اُدھر کوگئے ہیں۔‘‘

سامنے ایک گھوڑا سرنیہوڑائے ناند سے پرال کھا رہا تھا۔ اس کے نیچے تھیلا بندھا تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد ناند سے سَر اُٹھاتا اور ہنہناتا تو ایک لرزش سی اُس کے خُوب صُورت گہرے خاکستری بدن پر دوڑجاتی، دُم تھر تھرا کے رہ جاتی۔فیروز تھوڑی دیر وہاں کھڑا اِردگرد دیکھتا رہا۔ اس کے بائیں ہاتھ پر قساب کی دکان کے چبوترے کے نیچے ایک کُتّا مزے سے سو رہا تھا ۔فیروز کو اپنی جانب دیکھتا محسوس کرکے اُس نے ایک آنکھ کھولی ،بے اعتنائی سے اُسے دیکھا، سَرہلا کر بھنبھناتی مکھیوں کو ہٹایا اور آنکھ موند لی۔ قساب کی دکان سے دستی اور ران آہنی کنڈوں سے لٹک رہے تھے، ایک جانب کلیجیا ں، بوٹیاں بنی رکھی تھیں اوردوسری جانب چھیچھڑوں کا ڈھیر بھی منڈلاتی بھنبھناتی مکھیوں کو شوقِ اشتہا دے رہا تھا۔ ہلکی ہلکی بساند اٹھ رہی تھی۔بائیں جانب دُور ایک کھلا چوک نظر آرہاتھا، بُلند عمارتیں تھیں، جن پر بڑے بڑے رنگین فلمی بورڈ آویزاں تھے۔

فیروز مرکزی سڑک پر دائیں جانب مُڑکر چل پڑا۔ اب اُس کے ایک ہاتھ پر نیم کا درخت تھا، جس کے نیچے موچی کا ڈبّا کھلا پڑا تھا۔ وہاں ایک بوڑھا موچی لوگوں کے جوتے چپلیں گانٹھا کرتا تھا۔ وہ وہاں ایک ہی حلیے میں ازل سے موجود ہوتا تھا۔ چوکور ڈبیوں والی تہ بندکے اوپر بنیان،سردیوں میں اُکھڑی اون والا سویٹر پہنے، مفلر باندھے، برسوں سے کھچڑی بالوں، مخصوص حد تک بڑھی شیو،میلی انگلیوں کے نفاست سے تراشیدہ ناخنوں اور پیروں کے بڑھے خستہ ناخنوں کے ساتھ وہ سَرجُھکائے کام میں منہمک ہوتا۔ یوں لگتا تھا کہ عُمر اس پر آکر ٹھیر گئی ہے۔ وہ بھی اس روز وہاں موجود نہ تھا، البتہ اُس کی لمبی موٹی سوئیاں، قینچی، ڈوریں، تلوے،چمڑے، ربڑ کے ٹکڑے، سیاہ، براؤن، سُرخ پالش، روغن اور بد رنگے برش ایک جانب قرینے سے رکھے تھے۔ ساتھ میں چند جوتے اُس کی معمول کی چوکی اور گدّی کے ساتھ پڑے تھے۔فیروز نے سامنے نظر دوڑائی اور غور سے دیکھا، لوگوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اُس سڑک میں پڑے گڑھے، تارکول کی تہیں اور کناروں پر کوڑا کرکٹ، جو ٹریفک کے بہاؤ، لوگوں کی آمدورفت، دکان داروں، خریداروں اور طلبہ کے رش کی وجہ سے چُھپ جایا کرتے تھے، نمایاں ہوکر بہت بدنما لگ رہے تھے۔اب تو فیروز تذبذب سے نکل کر حیرت میں مبتلا ہوچکا تھا۔اُس کے دائیں ہاتھ، برطانوی راج کی خُوب صُورت گنبدوں، ستونوں اور دیدہ زیب کام والی لائبریری متانت سے کھڑی تھی۔ اس کے برابر ایک گلی تھی اور گلی سے آگے چند مکان چھوڑ کر چھوٹی سی حویلی۔ اس حویلی سے بہت سی داستانیں وابستہ تھیں۔ حویلی کے مکین کوچوہدری صاحب کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔وہ باہر صُبح سویر سے کرسی ڈالے اخبار، رسالے پڑھتے یا راہ گیروں اور ٹریفک کو تکتے رہتے۔ یہ حویلی چوہدری صاحب کے والد کو کلیم میں ملی تھی۔ تقسیم سے پہلے یہاں ایک ہندو بنیے کی رہایش تھی ۔ کہا جاتا تھا کہ ہندو بنیا اس میں وراثت کی بہت سی سونے کی اشرفیاں اور جواہرات چُھپا کر جَلد لوٹنے کے ارادے سے ہندوستان گیا تھا، مگر رستے میں مارا گیا۔شنید تھا کہ اس خزانے کی تلاش میں بڑے چوہدری نے حویلی کا پورا صحن کھود ڈالا، پر ہاتھ کچھ نہ آیا۔یہ بھی کہا جاتا تھا کہ حویلی میں پوجا پاٹ کا کمرا ماورائی مخلوقات کا ٹھکانا بن چکا تھا۔وہاں راتوں میں قریب کے مکانوں کی چھتوں پرسوتے لوگوں نے روشنی اُترتے اور دھواں بُلند ہوتے دیکھا تھا۔ وہ آگ کا دھواں نہ تھا، آٹے کے تھیلے کو جھاڑنے پر اُٹھتے سفوف کا سا غبار تھا۔چوہدری صاحب کو پرندے پالنے کا شوق تھا۔انھوں نے حویلی کی چھت پر کبوتر خانے کی چھتری بنارکھی تھی، جس کی کابکوں میں بے شمار کبوتر بسرام کرتے۔ سُنا گیا تھا کہ حویلی کے صحن میں ہرنسل کے رنگا رنگ پرندے پنجروں میں موجود تھے، جن کی بولیاں دیواروں سے باہر سُنائی دے جایا کرتیں۔اُن میں ایک سُریلی بولی سب سے منفرد تھی۔ اس بولی کی آواز میں قابلِ شناخت الفاظ ہوا کرتے، البتہ وہ بولی صرف فجر تڑکے سُنائی دیا کرتی۔حویلی کو اندر سے کسی نے نہ دیکھا تھا۔چوہدری صاحب اس کے باہر گویاپہرا دیا کرتے تھے۔ ان کا ایک آبائی خدمت گار گونگا تھا، جو سارا سودا سلف لاتا، کھانا پکاتا اور صفائی ستھرائی بھی کیا کرتا۔حویلی کی بُلند دیوار کی وجہ سے کوئی اندر جھانک نہ پاتا تھا، یوں اس کے اسَرار میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مگر آج حویلی کا طلائی رنگ کی آہنی پٹیوں میں جکڑا، لکڑی کا قدیم بھاری دروازہ بند تھا، سامنے رکھی کرسی بھی خالی تھی۔ چوہدری صاحب خلافِ معمول وہاں نہ تھے۔پہلی مرتبہ فیروز کو اَن جانی آزادی اور مسّرت کا احساس ہوا۔علاقہ لوگوں سے خالی تھا، وہ وہاں آزادی سے مٹر گشت کر سکتا تھا،بیچ سڑک بے پروا ہوکر ناچ سکتا تھا اور کسی بھی گھر میں بلا اجازت داخل ہوسکتا تھا۔وہ اس علاقے کا حاکم تھا، سڑک اور اس کے اطراف اس کی ملکیت تھے۔

وہ سڑک پار کرکے چوہدری صاحب کی حویلی کے صدر دروازے پر جاپہنچا۔ صدر دروازے کا کنڈا کھڑکایا اور انتظار کرنے لگا۔قریب بیٹھی فربہ بلّی اُسے غور سے دیکھ رہی تھی۔ بلّی کی آنکھوں میں چمک تھی۔ چند لمحے انتظار کرنے کے بعد اُس نے صدر دروازے میں بنے چھوٹے دروازے کو کھولا اور حویلی کے صحن میں جھانکا۔چھوٹے بڑے، سبز، سُنہرے، نیلے، سُرخ، سیاہ، جامنی، سفید اور دیگر رنگوں کے بھانت بھانت کے پرندے مختلف حجم کے پنجروں میں غُل مچارہے تھے۔سامنے برآمدے میں ایک چبوترے پر مور سے ذراچھوٹا عجیب الخلقت پرندہ بیٹھا تھا۔ وہ فیروز کو گھور رہا تھا۔ دُور سے پرندے کے چار پیر نظر آرہے تھے۔ اُس کی ایک ٹانگ سے موٹی چمکتی زنجیر بندھی تھی۔وہ کسی پنجرے میں قید نہ تھا اور ایک تمکنت سے کھڑا تھا۔ پرندے کے ہر پرَ کا رنگ دوسرے سے مختلف تھا اور اُس کے سَر پر مورپنکھ تھا۔ ماتھے پرگول چھلا بنا ہوا تھا، جس میں نقرئی رنگ دمک رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں انسانی تھیں، ٹانگوں اور پیروں پر سفید بال تھے۔اُس نے ایک لمبی سسکاری بَھری اور بانسری کی موسیقی سے ملتی جلتی لمبی آواز میں گایا’’کیوں آئے ہو، کیوں آئے ہووو…۔‘‘ فیروز اسے دیکھتا رہ گیا۔اُس نے زندگی میں چار ٹانگوں والا اور اس نوع کا یہ پہلا مسحورکُن پرندہ دیکھا تھا، جس کے پیروں پر نرم نرم بال تھے اور جو انسانی آواز سے مشابہہ آواز میں بول سکتا تھا۔’’پتا نہیں یہ صرف بولی کی نقل کرسکتا ہے یا اپنے طور پر سمجھ کر بھی بول سکتا ہے‘‘فیروز نے سوچا تو پرندے نے کُوک بَھری’’چلے جاؤ،چلے جاؤوو…۔‘‘وہ ہکّا بکّا اُسے دیکھتا گیا۔اتنے میں پرندوں میں ہل چل ہوئی اور وہ سراسیمہ ہوکر پھڑپھڑانے لگے، پنجروں میں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔فیروز کو اپنی ٹانگ کے قریب کسی چھلاوے کے گزرنے کا سا احساس ہوا۔پرندوں میں خُوب شور ہوا اور وہ اُدھم مچانے لگے۔ ایک چھلاوہ سامنے توتوں کے پنجرے سے جاٹکرایا’’اُف یہ تو باہر والی بلی ہے۔‘‘اُس نے گھبرا کر سوچا۔اتنے میں بلّی پنجے مار کر پنجرے کی جالی میں سے ایک توتے کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگی۔ فیروز نے لپک کر بلّی کو ششکارا، بلی نے مُڑ کر فیروز کو غضب سے دیکھا اور دانت نکو سے۔ فیروز نے اپنی ایک پشاوری چپل کھولے بغیر کھینچ کر پیر سے اُتاری، تو بلّی بِدک کر دوسری جانب بھاگی۔ اُس نے تاک کر نشانہ لیا۔ نشانہ خطا گیا، بلّی چھوٹی سی زخمی بچّی کی طرح چیخی اور باہر کی جانب دوڑی۔فیروز لپک کر صدر دروازے میں بنے چھوٹے دروازے سے نکلا۔باہر نکلتے ہوئے اُسے وہی بانسری نُماکوک سُنائی دی،’’شکریہ،شکریہ ہ ہ…۔‘‘ وہ دروازہ بندکرنے کے لیے مُڑا تو یہ دیکھ کر ٹھٹھک گیا کہ دروازہ یوں بند تھا، جیسے کھولاہی نہ گیا ہو۔وہ تھوڑی دیر کھڑا ہانپتا، سانس درست کرتا رہا۔ بلّی کسی قریبی گلی میں غائب ہوچُکی تھی۔سڑک کے پارسامنے ایک اور بوڑھے کا مکان تھا۔ نیچے دیسی دواؤں کی دکان تھی اور اوپر رہایشی منزل۔بوڑھے کا نام میاں عبدالحکیم تھا، البتہ وہ ’’میاں میاؤں‘‘ کے نام سے معروف تھا۔ دراصل اُس نے اپنے سے عُمر میں بہت چھوٹی ایک لڑکی خرید کر اُس سے تیسرا بیاہ کیا تھا۔دلہن پرگھر سے باہر نکلنے پر پابندی تھی اور شکی مزاج میاں عبدالحکیم یاتو سارا دِن نیچے دکان پر دیسی دوائیں بیچتا رہتا یا گھر کے اندر چلا جاتا۔ وہ اپنی بیوی کی یوں حفاظت اور چوکی داری کرتا، جیسے بلّی دودھ کی کرتی ہے۔اسی مناسبت سے اُسے اس کی عدم موجودگی میں ’’میاں میاؤں‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔فیروز نے سڑک پار کی اورمیاں عبدالحکیم کے دواخانے والی جانب آگیا۔ وہ چاہتا، تو سڑک کے بیچ بھی چل سکتا تھا۔’’خوف بھی کیا عجیب کیفیت ہے،وجہ ختم ہوجانے کے بعد بھی دیر تک ساتھ چلتاہے۔‘‘اُس نے سڑک پار کرتے عادتاً اور احتیاطاً دونوں جانب کی ندارد ٹریفک دیکھی اور سوچا۔دوسری جانب آکر وہ دوبارہ دائیں جانب چلنے لگا۔ مربّوں، دواؤں والے شیشے کے مرتبان،رنگ رنگ کے شربتوں، خشک جڑی بوٹیوں اور بھاری مہک والا دواخانہ پیچھے رہ گیا۔مسالا جات کی دکان پر ایک جانب تکڑی اوردوسری جانب ہلدی، ثابت کالی مرچ، پِسی سُرخ مرچ، سونف، دارچینی، الائچی وغیرہ پلاسٹک کے ڈبّوں میں بند پڑے تھے’’نہ جانے مسالا جات زیادہ تر صیغۂ مونث میں کیوں ہوتے ہیں، شاید اپنی تیزی کی وجہ سے‘‘وہ اپنی دریافت پرمُسکرا دیا۔ پلاسٹک کے برتنوں والی دکان گزر گئی اور چائے خانہ بھی گزر گیا۔چائے خانے کے سامنے لگی ٹونٹی سے حسبِ معمول قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا،ٹونٹی کے سَر پر کس کر بندھا کپڑے کا ٹکڑا پانی سے نُچڑرہا تھا،اس کے نیچے بالٹی میں پانی میں چائے کے برتن ڈوبے ہوئے تھے۔تیرتی آلایشوں اور مٹیالے پانی کی وجہ سے برتن نظر نہ آتے تھے۔ملازم لڑکا،کاکا ایک آواز پر ان میں سے کوئی برتن نکالتا اور نووارد گاہک کے لیے چائے کی کیتلی کے سامنے رکھ دیتا۔پرکاکا وہاں نہ تھا۔اس ہوٹل میں مالک کی بُلند نشست کےپیچھے، جہاں سے وہ گاہکوں کی ضرورتوں اور اپنے ملازموں پر نظر رکھتاتھا، دو اعلان چسپاں تھے ’’یہاں سیاست اور مذہب پر گفت گو منع ہے‘‘ اور ’’قرض محبّت کی قینچی ہے، کشمیر کی آزادی تک اُدھار بند ہے۔‘‘

فیروز کو یاد تھا کہ اُس کے بچپن میں دودھ دہی ، حجام،نان بائی اور سردیوں میں ہریسے کی دکانیں اور حمّام صُبح سویرے سب سے پہلے کُھل جایا کرتے تھے۔ باقی دکانیں اور حمّام رات تک کُھلے رہتے، البتہ ہریسے کی دکان اسکول مدرسے جانے سے پہلے بند ہوجایا کرتی تھی۔ گاہک صُبح صُبح اس سے تازہ ہریسہ، جو رات بَھر تیار ہوتا رہتا،خریدتے اور گھروں کی راہ لیتے۔ ہریسہ جاڑوں کا ناشتا تھا، جس پر دیسی گھی کے تڑکے کی اشتہا آمیز مہک دُور دُور تک پھیل جاتی تھی۔ سودا ختم ہونے پر دکان دار دکان بڑھا کر اس کا شٹر گرا جاتا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں وہاں دوسری دکان کُھلی، بعد میں فریج، فریزر آجانے کے بعد ہریسے کی پوٹلیاں تیار کرکے رکھی جانے لگیں، جنھیں حسبِ ضرورت فرائی پین میں ڈال کر گرم کیا جاتا۔’’شُکر ہے بڑے ابّا نے یہ دَور نہیں دیکھا، وہ پچھلے دِن کی ہر خوراک کو باسی کہہ کر کھانے سے انکار کردیتے تھے اورتازہ کھانے کا تقاضا کرتے تھے۔گزرے وقتوں میں فریج کے کھانے کو نکال کر پیش کرنے کو بے تہذیبی سمجھا جاتا تھا۔ وقت کیسے بدل جاتا ہے۔‘‘فیروز کا دماغ اس کے قدموں کی نسبت کچھ زیادہ ہی تیز چل رہا تھا۔ دماغ پر سوچوں کی ایک یلغار سی ہورہی تھی۔ آس پاس چہل پہل ہو تو انسان کا جی اُس جانب ہوجاتا ہے، کوئی مصروفیت مل جاتی ہے۔ اِدھر مکمل سنّاٹا تو نہ تھا، پرندوں کے چہچہانے، کُتّوں، بلّیوں کے پھرنے، ہلکی ہوا سے کواڑوں،ڈھیلے قبضوں پر جالی دار دروازوں کے بجنے، اس کے اپنے قدموں کی چاپ کی آواز اور روشن دِن کی اپنی رونق ماحول میں زندگی کا سُنہرارنگ بَھر رہے تھے۔ وہ گلیاں عبور کرتا، منیاری، کُنجڑے، رنگ سازکی ہٹیوں، اخباری اشتہارات کے دفتر، اسکول، مکانوں اور جلد ساز کی دکان سے ہوتا ہوا چوراہے پر آن پہنچا۔اُس کے دائیں جانب سڑک ریلوے روڈ کو نکل رہی تھی، بائیں جانب والی راہ میو اسپتال ،پٹیالا گراؤنڈ روڈ اور ہال روڈ کو نکل جاتی تھی اور سامنے گوال منڈی چوک تھا۔ وہ نسبت روڈ اور چیمبرلین روڈ کے سنگم پر کھڑا تھا۔ اُس نے سامنے جانے کا فیصلہ کیا، حسبِ سابق چاروں جانب دیکھا اور گوال منڈی چوک کی طرف چل دیا۔لوگ باگ سے خالی اطراف اس کا مُنہ چڑا رہی تھیں۔وہ نسبتاً ناپ تول کر قدم اُٹھانے لگا۔ پُرانے رسالوں، کتابوں اورڈائریوں کی دکان کا چھجّا آگے کو بڑھا ہوا تھا۔ اُس سے قدرے ایک جانب ہوکر گزرتے اُس نے عادتاً اندر جھانکا۔ اندر ایک باریش نورانی چہرے والے بزرگ نشست سنبھالے ہوتے تھے، جو ہر راہ گیر کے سلام کا جواب دیتے اور بعض شناساؤں کو دُعائیں بھی۔ فیروزاکثر اُن کے پاس رُک جایا کرتا۔ وہ میٹھے پُرسکون لہجے میں اُس کی تعلیم، ملازمت وغیرہ کا احوال پوچھا کرتے تھے۔ عموماً اُن کے ایک ہاتھ میں تسبیح ہوا کرتی، جو گفت گو کے دوران رُک جایا کرتی تھی، وگرنہ اُس نے کئی لوگ دیکھے تھے، جو گفت گو اور مصروفیت کے دوران عادتاً تسبیح کے دانےگراتے رہتے تھے۔ بزرگ کی عبادت میں خضوع و خشوع بہم اوراطوار میں متانت تھی۔وہ رخصت کے وقت فقط اپنا تکیہ کلام دھرایا کرتے، جسے وہ ’’نیکی کی کنجی‘‘ کہتے تھے،’’کربھلا،ہوبھلا۔‘‘دکان میں بزرگ کو نہ پاکر فیروز کو ہلکا سا جذباتی دھچکا لگا۔ اُسے ایک کمی کا احساس ہوا۔’’میٹھے شربتی لوگ دِل میں رہتے ہیں، کسی ایک کے جانے سے دِل کا ایک گوشہ مکین سے محروم ہوکر خالی ہوجاتا ہے‘‘اُسے بزرگ کی کہی بات یاد آگئی۔اُس نے سَرجُھکا لیا اور اپنے قدموں، پشاوری چپل کو دیکھتا آگے بڑھنے لگا۔وہ جلد ہی گوال منڈی چوک پہنچ گیا۔ ایک طرف میو اسپتال کی دیوار، احاطہ اور ملحقہ سڑک تھی۔ دوسری جانب ریلوے روڈ اُس کی حویلی کی جانب متوازی واپسی کا سفر کررہی تھی اور تیسرے رُخ پر بانسوں والا بازار تھا۔ وہ بانسوں والے بازار میں داخل ہوگیا۔اونچے لمبے،چھوٹے پستہ، روغن شدہ، نیم مکمل، ترشے ہوئے، غیر ترشی حالت میں بانس دکانوں سے ٹیک لگائے کھڑے تھے، لمبے لیٹے ہوئے تھے، نائلون کی رسّیوں کے گچّھے، لوہے کے کَڑے، لمبی چھوٹی سلاخیں، بان کی بنی چوکیاں، کھڑے کھاٹ گاہکوں کے منتظرتھے۔پان سگریٹ کے کھوکھے اور سیپاروں، اگربتیوں، گلاب کی پتیوں کے ڈھیر والی دکان سے سامنے سے تیز تیز چلتا وہ سرکلرروڈ پرآگیا۔چوک کے بیچوں بیچ چند دکانیں تھیں، حجام، گنج پن دُورکرنے، موبل آئل اور ٹین کے کنستروں کی دکانیں۔اُس کے سامنے دو رَستے تھے۔ایک لوہاری، بھاٹی دروازے اور گنپت روڈ کی جانب جاتا تھا، دوسرا موچی،اکبری، دہلی اور یکّی دروازے اور تنگ بازار کی طرف نکل جاتا تھا۔ اگر وہ سیدھا چلتا رہتا تو پاپڑ منڈی جا پہنچا۔ ہوا کا جھونکاچلا، ٹین کے چھوٹے خالی ڈبّے کھڑکھڑاتے لڑھکنے لگے،خالی شاپر،جوس کے خالی پیکٹ، ردّی اخباراورکپڑے کی دھجیاں، سبھی اِدھراُدھر بکھر گئے۔ اُس نے دائیں جانب، دہلی دروازے کی جانب کا رُخ کرلیا۔ اُسے یہ رستہ بچپن سے بہت پسند تھا۔ یہاں اندرونِ شہر کی قدیم تاریخی فصیل کے باہر باغ چلتا تھا، کسی زمانے میں نہر بھی چلتی تھی۔ باغ میں جھولے، روشیں، پھولوں کی کیاریاں اور خوانچہ فروش اس کے لیے کشش رکھتے رہے تھے۔ سو، وہ اُس جانب کھنچا چلا جاتا تھا۔

اس وقت دھوپ سامنے مکانوں پر پڑتی ہوئی، ان کے دالانوں میں اُترآئی تھی۔ آسمان کے منظر میں وسعت تھی اور پرندوں کی بُلند پروازی میں روانی اور سکون تھا، البتہ ماحول میں ایک اُجڑے شہر کی بوُ باس بھی تھی۔اس مقام سے ذرا ہی پرے اُس کی لڑکپن کی سہانی، قیمتی یادیں بسی تھیں۔ دہلی دروازے سے داخل ہوکر شاہی حمّام کے پہلو میں گُڑمنڈی کے آغاز میں وہ پہلی مرتبہ اُسے نظر آئی تھی۔ پس، تب سے اُس کے قدم خود بہ خود ایک دل بستگی کی یاد میں، اس جانب اُٹھ جاتے تھے۔دہلی دروازہ تزئین و مرمّت کے بعد اپنے حقیقی رُوپ میں موجود تھا۔ عام دِنوں میں اسے ٹریفک اورلوگوں میں سے گزر کر، گردوغبار سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے، ادھر پہنچنے میں خاصا وقت لگ جاتا تھا۔اُس روز اسے وہ فاصلہ بالشت بَھر کا محسوس ہوا۔وہ دہلی دروازے سے، جسے دہلی کی جانب رُخ ہونے کی رعایت سے یہ نام دیا گیا تھا اور جس کی وسعت اور حجم ہاتھیوں کی آمدورفت کی مناسبت سے موزوں رکھے گئے تھے،شاہی گزر گاہ میں داخل ہوگیا۔ سامنے ایک سڑک تھی، جس کی ایک بغل میں شاہی حمّام تھا اور اس کے پہلو میں گُڑمنڈی۔ وہ اس مقام پر آکر رُک گیا۔وقت کئی برس پیچھے چلا گیا۔وہ لڑکپن سے نوجوانی کی حدود میں قدم رکھ رہا تھا۔ مَسیں کب کی بھیگ چکی تھیں، مونچھو ں کے روؤں کی جگہ موٹے سخت بال آرہے تھے۔ فیروز نسبت روڈ کی پُرانی کتابوں والی دکان کے بزرگ سے جاسوسی ناول کرائے پر لے کر پڑھا کرتا تھا۔ اُسے ہر دوسرے گھر میں کوئی منصوبہ بندی، کوئی ریشہ دوانی ہوتی نظر آتی تھی۔ وہ شہر کے اس گنجان حصّے کے مکانوں کو دیکھتا اور سوچا کرتا کہ وہ انگوروں کے گچّھے ہیں۔ ہرمکان ایک خوشہ ہے، جس کے رَس سے انوکھی کہانی کشید کی جاسکتی ہے۔ لڑکپن میں تخّیل یوں بھی زرخیز ہوتا ہے۔ سو، اُس کا دماغ ریشم کے کیڑے کی مانند سفید نقرئی تاریں اُگلا کرتا، جن سے وہ کہانی کا تانا بانا تیار کرلیا کرتا۔وہ خیال سوچتا، گم صُم شہر نوردی کرتا، گلی کوچوں میں مارا مارا پھرتا، مکانوں، چوباروں کے پہلو میں کھڑا منصوبہ بندی کرتا اور تھک ہار کر دہلی دروازے کے باغ میں جا بیٹھتا۔ایک روز یونہی پِھرتے پھراتے وہ گُڑمنڈی کی جانب جانکلا۔ سامنے سفید لباس اورنیلے دوپٹوں میں ملبوس کالج کی ابتدائی جماعتوں کی لڑکیوں کا چھوٹا سا گروہ حمّام میں داخل ہورہا تھا۔ اُن میں ایک سہمی ہوئی معصوم لڑکی سب سے پیچھے گھبرائی گھبرائی اندر داخل ہورہی تھی۔ اس کے مَن موہنے سراپے اور نوخیز چہرے کے گرد فیروز کو دلا ٓویزی کا ایک مقناطیسی ہالا سا نظر آیا۔لڑکی کی چال میں بانکپن تھا۔ اس میں جوان خوبرو دوشیزہ والا حُسن نہ تھا،نقوش نے واضح شکل اختیار نہ کی تھی۔بس، ایک ناقابلِ بیان کشش، ملاحت اور بے چارگی تھی کہ فیروز کا جی اُسے تحفّظ دینے کو مچل اُٹھا۔ وہ اپنے اضطراب و جذبے سے خود آگاہ نہ تھا۔ ایک جبر تھا، جو اسے انگلی تھامے اس ٹولی کے پیچھے پیچھے اندر لے گیا۔ لڑکی اس کے وجود اور جذبے سے قطعی نا آشنا تھی۔عمارت کے اندر داخل ہونے کے بعد ایک آدھ مرتبہ اُس کی نظر اتفاقاً فیروز کی جانب اُٹھی، تو فیروز نے جلدی سے اپنی توجّہ ہٹالی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ لڑکی اُسے کوئی لچّا لفنگا لڑکا سمجھے، لہٰذا وہ قدم بہ قدم ان لڑکیوں کے پیچھے نہ گیا۔ وہ دانستہ طور پر کسی مختلف کمرے کا رُخ کرلیتا، مگر جو بالآخر ان کی اگلی منزل سے جاملتا۔چلتے چلتے لڑکیوں کے گروہ سے دو لڑکیاں بے ساختہ علیٰحدہ ہوئیں اور مرکزی کمرے میں داخل ہوگئیں۔ان میں وہ لڑکی بھی تھی۔ فیروز یوں بہ ظاہر بے فکری سے وہاں داخل ہوگیا، گویا اتفاقاً آپہنچا ہو۔ لڑکی نے اُسے دیکھا تو وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔ فیروز کے چہرے پر سُرخی آگئی۔ لڑکی بے اختیار مُسکرادی۔ فیروز نے نگاہیں جُھکالیں۔ حمّام کی تعمیر میں مختلف درزیں یوں رکھی گئی تھیں کہ ان سے روشنی اندر آتی تھی اور ہوا کے اخراج کا بندوبست بھی ہوتا تھا۔ آبی رنگوں کی نقّاشی اسے دیدہ زیبی عطا کرتی تھی۔ اسی دیدہ زیبی کے پس منظر میں ایک درزسے آتی روشنی کی دھار اُس لڑکی کے چہرے پر پڑی اور اُس کی آنکھوں کی پُتلیوں کی بھوری رنگت کو زرقونی جھلملاہٹ دے گئی۔اُس وقت وہ لڑکی ایک مصوّر کی تصویر پر نقشِ چغتائی نظر آتی تھی۔وہ ایک لمحہ فیروز کی پوری زندگی پر حاوی ہوگیا۔ وہ تصویر اُس کی آنکھ سے دِل پر اُترآئی اور دِل سے روح پرثبت ہوگئی۔لڑکی اُسے یوں دیکھتا پاکر جھینپ گئی۔ وہ کمرے کے ایک گوشے میں دیوار کی جانب مُنہ کرکے کھڑی ہوگئی۔ اُس کی سہیلی دوسرے گوشے میں دیوار کی جانب مُنہ کرگئی۔ اس تعمیر میں یہ خُوبی تھی کہ اگر دو لوگ دیوار کے قریب مُنہ کرکے سرگوشی کرتے، تو کمرے کے بیچ ان کی آواز سُنائی نہ دیتی، البتہ کمرے کی تعمیر کی مخصوص ساخت کے باعث وہ سرگوشی دیوار کے ساتھ ساتھ سفر کرتی دوسری جانب، اُس پار مخاطب تک پہنچ جاتی۔ یوں ایک مخصوص پیغام متعین شخص کو، عام ہوئے بغیر، موصول ہوجاتا۔یہ عشاقِ فن کی کاری گری کا اَن مول نمونہ تھا۔ بہرحال، قبل اس کے کہ دونوں لڑکیاں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کرتیں، سہیلی کو داخلی دروازے سے ایک اور لڑکی نے جلدی آنے کا اشارہ کیا۔ سہیلی چند لحظے کے لیے وہاں سے ہٹی، فیروز نے اُس کی جگہ لی اور دیوار کی جانب مُنہ کرکے سرگوشی کی ’’تم میری زندگی ہو، خدا کی قسم!‘‘وہ لڑکی اپنی جگہ پر پتھر ہوگئی۔ فیروز نے کن انکھیوں سے اُسے دیکھا۔ وہ ساکت تھی۔ وہ ساکت رہی۔ چند لمحوں میں پتھر موم ہوا، اس کے کانوں کی لوئیں پہلے گلابی اور پھر سُرخ ہوگئیں۔ اُس کا چہرہ دیوار کی جانب ہی رہا۔ وہ سُرخ لوئیں اس کے دِل پر گلاب کی پتیوں کی طرح تیرتی لہراتی ہوئی آئیں، اُتریں، جذب ہوئیں اور نقش ہوگئیں۔ اتنے میں سہیلی واپس آگئی۔ فیروز وہاں سے ہٹا اور پیچھے دیکھے بغیر باہر نکل آیا۔ آسمان سے روشنی اُتررہی تھی۔باہر نکل کر اُس کا دِل پہلے مسّرت سے لب ریز رہا، بعد ازاں بَھر آیا اور آنکھیں چھلک اٹھیں۔ وہ اپنی قمیص کی آستین سے آنکھیں پونچھتا چلا آیا۔اس کے بعد وہ کئی مرتبہ اس مقام پر آیا، پر وہ لڑکی اسے دوبارہ نظر نہ آئی۔ وہ کئی مرتبہ اس مرکزی کمرے میں جاتا، جب تنہا ہوتا تو دیوار کی جانب مُنہ کرکے آہستہ سے سرگوشی کرتا’’تم میری زندگی ہو، خدا کی قسم!‘‘کن انکھیوں سے دیکھتا، دوسری جانب آبی رنگوں کی نقّاشی میں رنگی خالی دیوار ہوتی اور وہ واپس چلا آتا۔بعد کی زندگی میں اُس کا چند لڑکیوں سے واسطہ پڑا، ان میں سے کوئی بھی اس کے دِل میں وہ جذبہ بیدار نہ کرسکی۔ وہ لمحہ لوٹ کر نہ آیا۔فیروز خیال کی دنیا سے یوں بہ وقّت باہر نکل آیا، جیسے کوئی تہ خانے کے کھلے ڈھکن سے باہر ہاتھ رکھ کر بازو کے زور پر اوپر نکل آئے۔

دِل میں کسک لیے وہ مسجد وزیر خان کی جانب چل دیا۔ قدیم شہر کے اندرون کی ویرانی اس کے دِل کو بوجھل کر رہی تھی۔ ’’نہ جانے سب کدھر چلے گئے؟‘‘ایک سوال اس کے دِل و دماغ کو ریتی کی طرح رگڑرہا تھا۔ شہر کے دِل میں واقع، مسجد وزیرخان اپنے تمام ترتعمیراتی کرّوفر کے باوجود عام دِنوں میں قریباً ویران ہی رہا کرتی تھی۔ اِکّادُکّا سیاحوں، مخصوص اوقات کے نمازیوں اور رکھوالوں کے سوا وہاں لوگ کم کم نظر آتے تھے۔ فیروز اس کے قریب سے گزر گیا۔ گزرتے ہوئے اُس نے عبادت گاہ کے میناروں پر ایک خاموش پرُتکریم نگاہ ڈالی اور بھاری تھکے قدموں سے غیر متوازن چال چلتا گیا۔وہ واپس ہوتا تو بے فائدہ اور آگے جاتا تو لاحاصل۔ وہ اُجڑے میلے میں پیچھے رہ جانے والے تنہا، بے سہارا بچّے کی طرح تھا ۔مزید بڑھنے کے سوا چارہ بھی نہ تھا۔ وہ چوک کو توالی پر کھڑا ہوگیا اور خُوب غور سے انسانی زندگی کے آثار دیکھنے لگا، لکڑمنڈی بازار سنسان پڑا تھا، کوتوالی والا بازار بھی ویران تھا، گوکشمیری بازارمیں بھی کوئی نہ تھا، پر اس نے آگے بڑھنے کے جذبے سے مغلوب ہوکر اُسی طرف بڑھنے کا فیصلہ کرلیا۔ بڑھنے سے پہلے اُس نے تسلی کے لیے دوبارہ لکڑمنڈی کی جانب نظر کی، چند دکانیں چھوڑکر ایک مکان کے پُرانے طرز کے دروازے پر تالا، زنجیر پڑے تھے۔ یہ دیمے چاقو بردار کی بیٹھک تھی۔دیما تقسیم سے پہلے کا معروف علاقائی بدمعاش تھا۔اس کی دہشت اس کی زندگی ہی میں دَم توڑ گئی تھی، پر اتنی ضرور باقی رہی تھی کہ کسی نے اس کی بیٹھک پر قبضہ نہ کیا تھا۔ وہ گراری والا چاقو رکھتا تھا، کسی مخالف یادشمن پر خود حملہ آورنہ ہوتا تھا، بلکہ اپنے پٹّھے آگے روانہ کردیتا تھا۔چھوٹے قد،گٹھے ہوئے بدن اور چمک دار،سانپ ایسی آنکھوں والا دیما اچھا منصوبہ ساز تھا۔ اس کے دشمن زیادہ تر اُس کی چال سے مات کھا جاتے تھے۔کشمیری بازار بند پڑا تھا، وہاں کوئی ہڑتال تھی، ہڑتالی بینر بازار میں آویزاں تھے،مُلک میں چناؤ ہورہا تھا، اُس کے بینر، پوسٹر اور جھنڈے بھی جگہ جگہ موجود تھے۔ فیروز کو یاد آیا کہ اُس روز کے قومی چناؤ کے بینر،پوسٹر وہ گھر سے راستے میں جگہ جگہ دیکھتا آیا تھا۔

فیروز چلتا ہوا سُنہری مسجد کے قریب سے گزر گیا۔ سیڑھیاں اوپر کو مسجد کے داخلی دروازے کو جارہی تھیں۔اسے مسجد وزیرخان اور سُنہری مسجد کے صحنوں میں موجود نمازیوں کے وضو کے لیے،وسیع کشادہ حوض، تالاب بہت پسند تھے۔ وقت بدلنے کے ساتھ یہاں ٹونٹیاں لگ گئی تھیں، البتہ مسجد کی ہاتھ سے بُنی چٹائیوں، دانہ چُگتے پرندوں، پُرلحن تلاوت، وضو کے تالابوں اور سکون وشانتی کی علامات ہنوزموجود تھیں۔وہ صُبح سے چل رہا تھا۔ بہار کی دوپہر کی تمازت روئی کے گالوں کی طرح اُتر رہی تھی۔ وہ تھک چلا تھا، اعصابی تناؤ نے اُسے درماندہ کردیا تھا۔ وہ بے منزل مسافر تھا۔ بھوک سے اُس کا پیٹ خوراک مانگنے لگاتھا۔اُس نے رنگ محل چوک میں آکر اپنے سفر کے اختتام کا فیصلہ کرلیا۔ وہ رستے میں کسی دکان سے کھانے کی شے اُٹھا کھاکر، گھر میں اپنی آرام دہ مسہری پر سوجانا چاہتا تھا۔ واپسی کے سفر کا تصور ہی اُسے محال لگ رہا تھا۔اُس نے سامنے محمود غزنوی کے غلام، ملک ایاز کا مقبرہ دیکھا، اُس کے کاندھے کے ساتھ ایک دو مرلے کے طویل القامت، بُلند وبالا کئی منزلہ مکان پرنظر ڈالی، جو گویا آندھی کے ایک لپیٹے کی خوراک تھا، گردن گُھما کر پری محل پرنگاہ کی، جو ساکت موجود تھا، سامنے سوہا بازار سنسان پڑا تھا۔ وہ تاریخ کے چوراہے پر کھڑا تھا۔ہرقدم پر تاریخ اپنے شکوہ اور اپنی بوسیدگی کے ساتھ دعوت ِ نظارہ دے رہی تھی۔کیا منفرد کہانیاں اور لوگ اِن عمارات، محلوں اور گلیوں میں پرورش پاچکے تھے۔قریب ہی رنگ محل مشن اسکول تھا،شمالی ہندوستان اور پنجاب کی تاریخ کا پہلا انگریزی میڈیم اسکول،شاہنشاہ شاہ جہاں کے وزیراعظم، سعد اللہ خان کی تعمیر کردہ پرُشکوہ حویلی کے تعمیراتی شاہ کار حصّے میں تب سے قائم ہونے والا مِشنری اسکول جب مغل تاج دار، بہادر شاہ ظفر کی حکومت شہرِ دِلّی تک محدود ہوچکی تھی۔وہ واپس مُڑا تو اُسے سامنے ایک پُرانی سی چھوٹی بیکری پر نظرآئی۔ بیکری کے سامنے دو قدمی زینہ تھا، ساتھ میں ماشکی کا کلیجی رنگاخالی مشکیزہ پڑا تھا اور ایک گھر کی چھوٹی اینٹ کی دُھول سے آلودہ جالی پر کوڑھ کرلی سَر اُٹھائے ایک غیر مرئی کیڑے کو تک رہی تھی۔ زینے کے نیچے نالی میں رطوب بہ رہا تھا۔ بیکری کے بیرونی لکڑی کے دروازے پر قرمزی رنگ بے سلیقگی سے تُھپا ہوا تھا، اس رنگ کے چھینٹے شیشے پربھی پڑے ہوئے تھے۔ سامنے شو کیس میں تیز روشنی والے پیلے بلب جل رہے تھے۔ ان کی چمک دمک میں پیٹیز، سموسے، چکن، سبزی اور قیمے کے رول اشتہا بڑھا رہے تھے۔ اُن پر اِکّادُکّا مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔یہ دیکھ فیروز کے مُنہ میں پانی بَھر آیا۔ اسے بہت زور کی بھوک لگی۔ اُس نے بیرونی شیشے سے اندر جھانکا، کاؤنٹر کے پیچھے کوئی نہ تھا۔ وہ بے چین ہوکر آگے بڑھا اور بیکری کا دروازہ باہر کو کھینچا۔ چرچراہٹ سے زنگ آلود اسپرنگوں نے انگڑائی لی اور دروازہ کُھل گیا۔

فیروز نے اَدھ کھلے دروازے سے بیکری میں قدم رکھا۔ اُس کی نظر سامنے آئینے پرجاپڑی۔ اُس آئینے میں بیکری کا لکڑی کا قرمزی رنگا، اسپر نگوں والا دروازہ اَدھ کھلا نہ تھا۔ اُس کے اندرونی حصّے کے پرتو میں وہ بند تھا۔اُس نے آئینے میں اپنے عکس کی جانب دیکھا۔ اُس کا دِل دھک سے رہ گیا۔خالی آئینہ اُس کا مُنہ چڑا رہا تھا۔ فیروز بھی وہاں موجود نہ تھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین