• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت،نان فائلرز کو دی جانے والی چھوٹ سے دستبردار ہوسکتی ہے

اسلام آباد(عمر چیمہ) حکومت‘نان فائلرز کو دی جانے والی چھوٹ سے دستبردار ہوسکتی ہے۔وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکس ریٹرنز کے نان فائلرزجو کہ جائداد اور نئی کاریں خریدنے کے خواہش مند ہیں،ان پرسے پابندی اٹھانے کی بجٹ تجویز پر نظر ثانی کے لیے تیا رہیں۔اس اقدام سے تنازعہ پیدا ہوگیا ہے کیوں کہ ایسا کرنے کا مطلب ٹیکس چوروں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ٹیکس ادا کرنے والوں پر جرمانہ عائد کرنا ہے۔اسد عمر نے دی نیوز کو بتایا کہ ’’ہاں ، اس پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔اس ضمن میں انا کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے۔نہ ہی میں سب کچھ جانتا ہوں اور نہ یہ چھوٹ دینے میں میرا کوئی ذاتی مفاد ہے۔ہم نے اس ضمن میں تجاویز طلب کی ہیں تاکہ ان میں سے حقیقی کیسز کی شناخت ہوسکے جہاں چھوٹ دی جاسکتی ہے۔جس کیس میں چھوٹ دینے سے متعلق میں مطمئن ہوں گا ، وہاں استثنا دے دیا جائے گا۔یہ میرا ذاتی فیصلہ ہے۔جب کہ حتمی فیصلہ مشترکہ طور پر کیا جائے گا۔منگل کے روز اپنی بجٹ تقریر میں اسد عمر نے نان فائلرز کے لیے مجوزہ چھوٹ کواس بنیاد پر جائز قرار دیا تھاکہ ن لیگ کے حکومت نے جو پابندی عائد کی تھی ، اس کے سبب بیرون ملک مقیم ان پاکستانیوں کو تشویش ہوئی تھی جو رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے خواہش مند تھے۔تنازعہ کے بڑھتے ہی وزیر خزانہ نے اس چھوٹ کے دفاع میں دو دیگر وجوہات بھی بیان کی تھیں۔وزیر مملکت برائے خزانہ حماد ظفر کے مطابق، نان فائلرزپر پابندی آئین کے آرٹیکل 23میں بیان کیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ اس سے وراثت میں ملنے والی جائداد کی منتقلی بھی متاثر ہوگی کیوں کہ ایسا کرنے کے لیے جانشین(بینفشری)کا فائلر ہونا بھی ضروری ہے۔ایسا وہ حکمران جماعت کہہ رہی ہے، جس نے ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔ٹیکس چوروں کو ٹیکس دائرہ کار میں لانے کے بجائے پی ٹی آئی حکومت ان سے پابندیاں ہٹا کر ان کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ٹیکس قانون کے ماہرین نے متنازعہ تجویز کے حق میں دیئے گئے دلائل کو مسترد کردیا ہے۔جہاں تک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا تعلق ہے تو ایک عام فہم تجویز یہ ہے کہ انہیں بیرون ملک مقیم پاکستانی کا شناختی کارڈ (این آئی سی او پی)بطور ثبوت دکھانے پر استثنا دے دیا جائے۔اگر چہ اسد عمر نے اس خیال کو قبول کیا ہے البتہ حماد ظفر کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم ایسے بھی افراد ہیں جن کے پاس این آئی سی اوپی نہیں ہے۔یہ بالکل بے معنی بات ہے کہ وہ افراد جائداد خریدنا چاہتے ہیں مگر این آئی سی او پی حاصل نہیں کرنا چاہتے۔یہاں تک کے این آئی سی او پی کی تجویز بھی دشوار ہے۔ٹیکس ماہرین اسے بھی مشتبہ سمجھتے ہیں۔این آئی سی او پی ہونے کا مطلب یہ ضروری نہیں ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ، پاکستان میں کاروبار نہیں کرتا۔وہ اپنے آبائی ملک اور جس ملک میں سکونت اختیار کررکھی ہے وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ماہرین کے مطابق،یہ بھی حقیقت ہے ایسے بڑے کاروباری افراد ہیں جن کے پاکستان میں بڑےکاروبار ہیںلیکن وہ بیرون ملک مقیم ہیں۔وہ بیرون ملک مقیم ہونے کی بنیاد پر 183روز سے زائد کا ٹیکس ریٹرنز استثنا ءلیتے ہیں۔یہ ایسی شرط ہے جس سے انہیں ریٹرنز فائل نہیں کرنا پڑتا ، مثال کے طور پر ہوٹل کی صنعت سے وابستہ ایک بڑی شخصیت ان میں شامل ہے۔ٹیکس ماہرین سے جب پوچھا گیا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیئے جنہیں صرف این آئی سی او پی کی شرط پر کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے؟اس پر ٹیکس ماہرین کا کہنا تھا کہ این آئی سی او پی رکھنے والوں کا بھی ریٹرنز فائلر بنانا لازمی ہونا چاہیئے۔رہائش نہ رکھنے کی صورت میں وہ قابل ادائیگی ٹیکسوں پر ’’کچھ نہیں ‘‘ظاہر کرسکتےہوں۔بہر حال اگر انہوںنے پاکستان میں کوئی کاروبار یا سرمایہ کاری کی ہو تو انہیں اس کی تفصیلات لازمی فراہم کرنا چاہیئے۔حکومت کی جانب سے خود بھی اقرار کیے جانے کے بعد کہ زیادہ تر بیرون ملک مقیم پاکستانی ، پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، لہٰذا ان میں سے جو کوئی بھی پلاٹ یا گھر خریدتا ہے ، اس کا مقصد ضروری نہیں کہ وہ رہائش کے مقاصد کے تحت خریدتا ہو۔مثلاً ایک شخص بیرون ملک مقیم ہے ، جس نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کررکھی ہےلیکن وہ نان فائلر ہے۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے خریداروں کوپاکستان میں پراپرٹی بزنس میں واجب الادا ٹیکس ادا کرنا چاہیئے۔آئین کے آرٹیکل 23 میں جو دوسرا عذر پیش کیا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں جائداد اپنے تصرف یا قبضے میں رکھنے یا اس کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔البتہ اس کا انحصار آئین اور قانون کی طرف سے کسی مناسب رکاوٹ جو کہ عوامی مفاد میں ہو پر ہوگا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت کو ریاست سے متعلق اپنے فرائض سے زیادہ شہریوں کے حقوق کی زیادہ فکر ہے۔ٹیکس قوانین کے تحت ٹیکس ادائیگی ان میں سے ایک ہے۔پاکستان کی آبادی 20کروڑ سے زائد ہے ، جب کہ ٹیکس ریٹرنز فائلرز 10لاکھ کے قریب ہیں ، جو کہ آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں اور اس میں سے بھی 50فیصد ’’کچھ نہیں‘‘فائلنگ کرتے ہیں یعنی وہ ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے کہ انہوںنے قابل ٹیکس آمدنی حاصل نہ کی ہو۔طبقہ اشرافیہ کی اکثریت ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔نادرا کی جانب سے 2010میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 35لاکھ پاکستانی جو اکثر بیرون ممالک سفر کرتے رہے ہیں ۔ان کے پاس ایک سے زائد لگژری گاڑیاں ہیں اور وہ پوش علاقوں میں رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔نان فائلر کا یہ استثنا پاکستان کی غریب عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا کیوں کہ رئیل اسٹیٹ سرمایہ کار اور کاروں کے خریدارمعاشرے کے متوسط طبقے سے طبقہ اشرافیہ تک تعلق رکھتے ہیں ۔حیرت انگیز طور پر حکومت انہیں ہی استثنا دینے کی تیاری کررہی ہے، جب کہ غریبوں پر بالواسطہ ٹیکس کا بوجھ ڈال رہی ہے۔حماد ظفر کے مطابق، نان فائلرز عدالت جاکر کہہ سکتے ہیں کہ یہ پابندی ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس پابندی کا اطلاق رواں برس یکم جولائی سے ہوا ہےاور اب تک کسی نے عدالت سے رجوع نہیںکیا۔اس بات سے کچھ بعید نہیں کہ حکومت کے موقف کو جان کر کوئی آئین کی اس شق کی بات کرے۔کسی قانونی جنگ سے ڈرنے کے بجائے حکومت کو چاہیئے کہ وہ عدالت میں اس بنیاد پر اس پابندی کا دفاع کرے کہ وہ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھاناچاہتی ہےاور صرف ان افراد کو اس کے دائرے میں لانا چاہتی ہےجو اس کے اہل ہیں لیکن ٹیکس قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔تیسرا عذر جو حکومت نے پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ نان فائلرز پر پابندی سے وراثت کی منتقلی کا عمل رک گیا ہے۔ٹیکس ماہرین کے مطابق،ان کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے۔جائداد کے ٹرانسفر کے 10کیسز میں سے شاید کوئی ایک کیس ہی وراثت کی منتقلی کا ہوتا ہے۔ان کیسز میں چھوٹ دی جاسکتی ہے لیکن کور کی صورت میں استثنا نہیں دینا چاہیئے۔وراثت حاصل کرنے والے ٹیکس نیٹ کے دائرہ کار میں آتے ہیں لیکن وہ اس سے باہر ہیں ، انہیں منتقلی کے عمل میں لازمی دائرہ کار میں لانا چاہیئے۔گھریلو خواتین یا ریٹائر افراد کو فائلنگ سے استثنا دیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین