• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ…شہزاد علی
لوٹن ٹائون میں آبادی کا ایک قابل ذکر حصہ پاکستانی کشمیری کمیونٹی پر مشتمل ہے۔ اس کمیونٹی کی آبادی کے تناسب سے بھی بظاہر زیادہ نمائندگی لوٹن بارو کونسل میں بطور کونسلرز موجود ہے مگر کونسل ملازمتوں میں کمیونٹی کی کتنی نمائندگی ہے اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کثیر تعداد میں کمیونٹی کونسلرز کی موجودگی مگر کمیونٹی دستور گوناگوں مسائل سے بھی دوچار ہے۔ آخر کیوں؟ اس امر میں ہر گز کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ کمیونٹی کونسلرز کی بڑی تعداد کمیونٹی مسائل پر کوئی جاندار کردار ادا کرنے سے معذور دکھائی دیتی ہے۔ ان کی کمیونٹی کے لیے اچیومنٹس محدود نوعیت کی ہیں جس طرح کے قبرستان، تدفین اور رجسٹریشن سے متعلق مسائل پر قدرے پیش رفت ہوئی ہے مگر یہ بھی کمیونٹی کے بار بار توجہ دلانے اور مختلف کمیونٹی شخصیات کے جملہ تعاون سے ممکن ہوا۔ ماضی کو تو رہنے دیں اور دیگر کئی مسائل سے بھی آج صرف نظر کرلیتے ہیں صرف ایک مسئلہ جو اب سر پر کھڑا ہوا ہے یعنی لوٹن برا کونسل نے لوٹن میں بن اکٹھا کرنے کے شیڈول میں تبدیلی لانے کا جو فیصلہ کیا ہے اور نئے شیڈول جو 2اکتوبر سے نافذالعمل ہوں گے، کے مطابق کالے بنز black bins ایک ہفتے کے بجائے دو ہفتے بعد اکٹھے کیے جائیں گے۔ اس فیصلہ پر لوٹن کے شہریوں میں تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی ہے جو ایک فطری امر ہے۔ اسی ایک مسئلہ کے مختلف پہلوئوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو کمیونٹی کونسلرز کی اہلیت کا پول کھل جاتا ہے ۔اس حوالے چیئرمین بلڈنگ برجز راجہ اکبر داد خان نے باقاعدہ مہم چلائی ہے تاکہ کونسل کو فیصلے پر ازسر نو غور کرنے کے لیے زور دیا جائے۔ شروع میں اس مہم میں خاصی گرمجوشی دکھائی دیتی تھی۔ اور دو تین اجلاس میں کمیونٹی کے نمائندہ افراد نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور امید کی جارہی تھی کہ کمیونٹی ایک موثر احتجاج کرے گی جس سے کونسل کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنا پڑے گی مگر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اندرون خانہ اس مہم کو بے اثر کرنے کی کسی نہ کسی جگہ پر شاید منصوبہ بندی ہو رہی ہے اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ کمیونٹی اس معاملے پر لوٹن ٹائون ہال کے باہر عملی طور پر کوئی بڑا مظاہرہ نہ کرے یہاں کئی ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر یہ مہم سرد مہری کا شکار کیوں ہو رہی ہے،اب ایک اجلاس میں پٹیشن دینے پر اکتفا کیا گیا ہے، کیا فقط پٹیشن سے کونسل کے فیصلے پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے،یہ صحیح ہے کہ جمہوری ملک میں پٹیشن کی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن بعض باریک بین حلقوں میں ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کہیں وہ لوگ جن کے ذاتی مفادات ہیں وہ پس پردہ رہ کر اس مہم کو سرد کرنے کی کوشش میں تو نہیں لگے ہوئے کیونکہ اگر صرف مساجد ہی باہم متحد ہوکر آواز بلند کریں جیسا کہ شروع دنوں میں کافی امید پیدا ہوچلی تھی اگر موثر احتجاج جاری رہے تو ضرور کوئی بہتر راستہ نکالنے پر کونسل زعما غور کرسکتے ہیں۔ دانش و بینش کی حامل ایک بزرگ شخصیت کے سامنے میں نے جب یہ صورت حال رکھی تو ان کی رائے تھی کہ غالب امکان ہے کہ کمیونٹی کے جن کونسلرز کو ٹائون ہال میں کلیدی عہدے ملے ہوئے ہیں وہ یہ کیسے گوارہ کرسکتے ہیں کہ کمیونٹی کو متاثر کرنے کا یہ فیصلہ جس میں ان کا بھی بھرپور حصہ تھا اس پر کمیونٹی کوئی سخت ردعمل ظاہر کرے۔ اس سے کونسل کو یہ پیغام جائے گا کہ ان کونسلروں کے اپنی کمیونٹی سے تو روابط ہی مضبوط نہیں ہیں اور جو ایک تلخ حقیقت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کمیونٹی سے متعلق ایگزیکٹو کونسلرز اور پاکستانی نژاد لیڈی میئر کو کم از کم اب کمیونٹی کے تاثرات کو کونسل میں ضرور پہنچانا چاہیے اور اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے کونسل لیڈر کے ساتھ ساتھ میٹنگ کا انعقاد کرنا چاہئے ورنہ کمیونٹی میں کونسلرز کے اس معاملے پر اٹھنے والے وسیع سوالات کے سلسلے کو آپ روک نہیں سکتے۔ کمیونٹی اپنے کونسلرز سے جاندار کردار کی توقعات رکھتی ہے۔ آپ کمیونٹی کو مایوس نہ کریں جب کہ اب اس فیصلہ کے بعد جو لیبر کونسلرز یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کمیونٹی کو متاثر کرے گا ان کو باضابطہ کونسل لیڈر کو تحریری شکل میں اپنے تاثرات اور کمیونٹی تحفظات سے آگاہ کرنا چاہیے اس سلسلے میں ایک مثبت پیش رفت البتہ یہ ہے کہ بن مسئلہ پر بلخصوص چوہدری محمد بشیر، علامہ قاضی عبدالعزیز چشتی اور راجہ اکبرداد خان کمیونٹی کے اس اہم مسئلہ پر اپنے ماضی کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر اکٹھے ان اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں جب کہ سابق میئر لوٹن چوہدری مسعود اختر جے پی کو آن بورڈ کیا جانا بھی کمیونٹی کے بہتر مفاد میں ہے آپ پڑھے لکھے اور مقامی مسائل کا بخوبی ادراک رکھنے والی شخصیت ہیں ۔ سنی کونسل کے راجہ فیصل کیانی بھی متحرک ہو چکے ہیں انہوں نے نمائندہ جنگ سے بات چیت میں کہا ہے کہ لوٹن بارو کونسل کو کسی اور مد میں پیسے بچا کر ہفتہ واری بن سروسز ہر صورت جاری رکھنی چاہیے انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو کونسلرز کا یہ استدلال کہ وہ اگر یہ کٹوتی نہ کرتے تو دیگر سروس کے علاوہ بچوں سے متعلق سروسز میں بھی کمی لانا پڑتی اس میں اس لیے وزن نہیں کہ بچوں کو جہاں بہتر تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اس سے پہلے بہتر ماحول مہیا کرنا بھی ازحد ضروری ہے اب جب لوٹن میں ماحولیات کا شدید مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے اس سے سب سےزیادہ متاثر تو بچے ہی ہوں گے، میں سمجھتا ہوں کہ راجہ فیصل کیانی کی دلیل میں خاصا وزن ہے۔ راجہ فیصل کیانی نے یہ بھی توجہ دلائی ہے کہ لوٹن کونسل کا سالانہ بجٹ 500 ملین پونڈ ہے انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس کونسل کے پاس کوئی finance experts نہیں جو تین لاکھ کی کونسل کو بچت کراسکے جس سے کہ کمیونٹی کو صاف ماحول فراہم کرنے کے لیے بن سروس پہلے کی طرح جاری رکھی سکے ۔ ان کی رائے میں اس کمزوری کی وجہ یہ ہے کے بد قسمتی سے ہمارے کونسلرز وہی کرتے ہیں جو ان کو آفیسرز گائیڈ کرتے ہیں۔ جنگ تجزیہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بعض دیگر عوامل کے علاوہ ایک کمی یہ بھی ہے کہ اس مسئلہ پر بھی ابھی خواتین کو آن بورڈ نہیں کیا گیا۔ اس سارے معاملے سے ایک پہلو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ لوٹن بارو کونسل میں کمیونٹی کی مضبوط آواز کی شدید کمی ہے ۔ کونسل کے اندر موجودہ لیبر گروپ میں کوئی ایسی آواز نہیں جو کمیونٹی مفادات کو متاثر کرنے والے فیصلوں پر اپنا جمہوری حق استعمال کرکے متبادل سوچ پیش کرسکے پارٹی کے لیڈر جو فیصلہ کرلیں ان کو من و عن تسلیم کر لیا جائے اور پھر دعوے ہیں کمیونٹی نمائندگی کے، اسی طرح لوٹن میں کمیونٹی کو مقامی سطح پر اپنے مسائل کے لیے فورم یا کمیونٹی گروپس تشکیل دینے کی بھی ضرورت ہے جن میں مختلف الفکر باشعور خواتین اور مرد حضرات کی بھرپور شمولیت ہو۔ ایسے فورمز میں نئی اور پرانی نسل دونوں کی بھرپور نمائندگی ہو۔ ایسے فورم کمیونٹی کے ان نوجوانوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیں جو کل کونسلوں یا پارلیمنٹ میں پہنچ کر برائے نام نمائندگی کی علامت نہ ہوں بلکہ کمیونٹی کی توانا آواز ثابت ہوں جب کہ اس طرح کے فورمز پارٹی سیاست سے بلند ہو کر فقط کمیونٹی وسیع مفادات کے لیے تشکیل دئیے جائیں ورنہ ماضی اور حال کے کئی تجربات یہ بات واضح کرتے ہیں کہ کمیونٹی اکثر جن لوگوں کو آگے بڑھاتی رہی ہے وہ بعد ازاں ذاتی مفادات کے اسیر ہوں کر رہ گئے یا جو بہت قابل بھی تھے وہ پارٹی پالیسی کو فالو کرنے تک محدود رہے، بہت کم ایسے ہیں جو مختلف سطح پر سٹیٹس کو، کو چیلنج کرنے کی استعداد رکھتے ہوں جب کہ بن شیڈول میں تبدیلی کے حوالے جو لوگ بعض دیگر شہروں کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں پر پہلے سے ہی اس طرح کے اقدامات اٹھا دئیے گئے ہیں ان کیلئے بی بی سی کی 24ستمبر کی رپورٹ کے چند نقاط پیش خدمت ہیں۔ ویلز اور انگلینڈ میں ویلش کائونٹی میں ایک ایریا ہے Conwy county وہاں پر بن شیڈول تبدیلی کا تجربہ کیا گیا ہے اور اب علاقے میں مزید چوہوں اور مکھیوں کی بہتات ہوگئی ہے۔ وہاں کے کئی رہائشی افراد بہت ناخوش ہیں کیونکہ غلاظت بدبو پھیلاتی ہمت اور rubbish چوہوں کو اٹریکٹ کرتی ہے۔ گرمیوں میں خاص طور پر مکھیاں ہر طرف پھیل جاتی ہیں اور جب لوگ گندگی سے نجات کے لیے ڈھیر کو آگ لگاتے ہیں تو ماحولیات کے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں مزید برآں جن لوگوں نے گھروں میں جانور پال رکھے ہیں ان کی پریشانی تو مزید بڑھ جاتی ہے بہتر ہے کہ لوٹن کے رہائشیوں کو دوسرے شہروں کے ویسٹ مینجمنٹ کی مثالیں دینے والے مہربان ان شہروں میں ان تبدیلیوں کے اثرات کا بھی مطالعہ کرنے کی زحمت گوارہ کرلیں۔
تازہ ترین