• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ہندوستان کے اقوام متحدہ میں وزیر خارجہ کی سطح کی ملاقات کو منسوخ کرنے کے بارے ذرہ برابر حیرانی نہیں ہوئی:مجھے تو ہندوستان کی رضامندی ظاہر کرنے پر ہی کافی حیرت ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے کافی عرصے سے یہ یقین ہے کہ ہندوستان پاکستان کیساتھ بات چیت کرنے کی بجائے اسے مزید تنہا کرنے اوراس کی معاشی ترقی کے راستے میں روڑے اٹکانے کو ترجیح دیتا ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ پاکستان کے طاقتور ادارے درون خانہ ہندوستان کو بات چیت شروع کرنے کے اشارے دیتے رہے ہیں،اگرچہ پاکستان میں اس خبر کی تردید ہو چکی ہے کہ پاکستان نے افغانستان کو عندیہ دیا تھا کہ وہ ہندوستان کو واہگے کے راستے تجارت کی اجازت دینے کیلئے تیار ہے لیکن مجھے افغانستان میں امریکی سفیر کا یہ دعویٰ درست نظر آتا ہے کہ پاکستان نے ایسی پیشکش کی تھی۔ غرض یہ کہ ہندوستان پاکستان کے مصالحانہ رویے کی نفی کرتے ہوئے معاندانہ اور مغرور رویہ اپناتے ہوئے ایک امیر اور طاقتور ہمسائے کی کلاسیکل مثال پیش کر رہاہے۔ ہندوستان کیا بنگلہ دیش بھی معاشی لحاظ سے پاکستان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور اب اسکے سفارتخانے بھی پاکستان کے اعلیٰ ترین ماہرین کو ویزہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔بنیادی حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر میں الجھاؤ کے باوجود ہندوستان کی معیشت 8فیصد سے زیادہ کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر 9سالوں میں ہندوستانی معیشت کا حجم دوگنا ہو جاتا ہے۔ دنیا میں اس طرح کی تیز ترین معاشی ترقی کی وجہ سے اب ہندوستان پاکستان سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ اب تو آبادی کے تناسب کے پہلو سے بھی دیکھیں تو دونوں ملکوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اگر ہندوستان پاکستان سے چھ گنا بڑا ہے تو پاکستان کو ہر میدان میں اسکا 1/6ہونا چاہئے۔ لیکن ایسا نہیں ہے:مثلا بجلی کی ہی پیداوار کو ہی لیں توعملاًپاکستان پندرہ سے بیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے جبکہ ہندوستان 350گیگا واٹ بجلی پیدا کرکے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم دس اور پندرہ بلین ڈالر کے درمیان ہے جبکہ ہندوستان کے پاس سوا چار سو بلین ڈالر سے زیادہ کے ذخائر ہیں۔اس صورت حال میں اگر ہم کشمیر اور ہندو مسلم تنازع کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو ہندوستان کا پاکستان کیساتھ وہی رویہ ہے جو کہ خاندانوں میں امیروں اور غریبوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اسی پہلو کو مد نظر رکھیں تو ہندوستان کا اپنے دوسرے کمزور پڑوسی ملکوں (مثلاً نیپال) کیساتھ بھی یہی رویہ ہے۔

غالباً پاکستان کی حکمت عملی یہ تھی کہ جب تک ہندوستان کشمیر میں الجھا ہوا ہے اس کی معاشی ترقی پر قدغنیںلگی رہیں گی۔ اسی طرح ہندوستان کے دعوے کے مطابق پاکستان نے بمبئی اور دوسرے مقامات پر دہشت گردی کے ذریعے اس کی معاشی ترقی کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے دعوے غلط ہیں یا صحیح یہ امر حقیقت ہے کہ ہندوستان مسلسل معاشی ترقی کرتا رہا ہے۔ کشمیر میں الجھاؤ پر اس کے بجٹ اور وسائل کا بہت معمولی حصہ صرف ہوتا ہے اور وہ اسے ہضم کرنے کے لئے تیار ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ پاکستان کو تنہا کیا جائے اور اسے معاشی طور پر پس ماندہ رہنے پر مجبور کیا جائے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے رہنما نریندر مودی کو اس طرح کی پاکستان دشمنی کا بہت زیادہ سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ ہندوستان عالمی سطح پر اپنی حکمت عملی میں کامیاب نظر آتا ہے: پاکستانی بیانیے کی سوائے ملکی میڈیا کے کہیں بھی داد رسی نہیں ہے۔ اب اگر ہندوستان پاکستان سے معاندانہ رویہ رکھتے ہوئے اپنے دشمن کو تنہا اور کمزور کرنے میں کامیاب رہا ہے تو وہ صلح جوئی سے اسے سنبھلنے کا موقع کیوں دے؟ پاکستانی میڈیا جتنا مرضی چلائے کہ صلح جوئی سے دونوں ملکوں کو ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہوں گے لیکن جواب میں ہندوستان کا کہنا ہے کہ اسے پاکستان دشمنی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کی معیشت تو اس صورت حال میں بھی تیز ترین ترقی کر رہی ہے۔ اور جب پاکستان دشمنی سے حکمران پارٹی کا سیاسی مفاد بھی وابستہ ہو تو وہ صلح کی طرف کیوں راغب ہو؟

ہندوستان کی معاشی ترقی کی تو اپنی کہانی ہے لیکن اب تو بنگلہ دیش بھی معاشی طور پر پاکستان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔جب 1971میں بنگلہ دیش علیحدہ ملک بنا تھا تو مغربی پاکستان میں فی کس آمدنی(511 ڈالر) مشرقی پاکستان (317.70 ڈالر) سے 61 فیصد زیادہ تھی۔ اب تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی 1754ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں 1641ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش کے زر مبادلہ کے ذخائر 32 بلین ڈالر سے زیادہ ہیں۔ بنگلہ دیش سے سلے ہوئے کپڑوں کی برآمد پاکستان اور ہندوستان کی مجموعی مقدار سے بھی زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی بڑھنے کی بنیادی وجہ تو معاشی ترقی ہے لیکن اس کے آبادی پر کنٹرول نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت پاکستان سے کہیں زیادہ آبادی تھی جبکہ اب بنگلہ دیش کی آبادی 170ملین ہے جبکہ پاکستان کی 220 ملین۔ بنگلہ دیش میں تعلیم کی سطح ہمیشہ سے بلند تر رہی ہے اور جاگیرداروں کا غلبہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے درمیانے طبقے نسبتاً زیادہ روشن خیال رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے احوال سے بخوبی واقف ماہرین کا کہنا ہے کہ وہاں کرپشن اور بد عنوانی پاکستان سے کسی بھی صورت میں کم نہیں ہے اوربنگلہ دیش میں گورننس بھی کافی بری ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام تر وجوہات کے باوجود بنگلہ دیش کیسے پاکستان سے آگے نکل گیا؟ سماجی علوم کے عالمی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں مذہبی بیانیے کا غلبہ اس کی بنیادی وجہ ہے۔ اگر یہ دعویٰ غلط ہے تو پاکستانی میڈیا پر چھائے ہوئے نظریاتی اکابرین کو اس کی متبادل تفسیر پیش کرنا چاہئے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے نظریاتی میڈیا کا باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے،ہر مسئلے پر وہ خود ہی بولتا ہے اور خود ہی سنتا ہے۔ اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر کتنے ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ عرب ممالک، خلیجی ریاستوں اور ایران تک کے ہندوستان سے کاروباری تعلقات پاکستان سے بہتر ہیں۔ یہ سب تلخ حقائق دہائی دے دے کر ہمیں خواب خرگوش سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تازہ ترین