• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو سال قبل بھارت اور نیپال حکومت میں کچھ اَن بَن ہوگئی تو بھارت جو نیپال کو پیٹرول اور ڈیزل سپلائی کرتا تھا، اس نے تنگ کرنے کیلئے تیل کی سپلائی کم کر دی۔ اتفاق سے ان دنوں میں نیپال سیر و سیاحت کیلئے اپنے بھارتی دوستوں کے ساتھ گیا ہوا تھا۔ ایئرپورٹ سے جب ہم ہوٹل جارہے تھے تو جگہ جگہ پیٹرول پمپوں پر پیٹرول لینے کے لئے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ گاڑیوں کے مالکان پیٹرول پمپ کے نزدیک قطار میں گاڑیاں بند کر کے اپنے کاموں پر چلے جاتے تھے۔ وہاں پمپ کے پاس موٹر بائیک والے ان کو ان کی مطلوبہ جگہ پر پہنچا کر موبائل نمبر لے کر آجاتے۔ جب ان کا نمبر جو غالباً 3سے 4گھنٹے کے بعد آتا تو وہ ان کو فون پر مطلع کر کے واپس اپنی بائیک پر لے آتے۔ ان 3چار گھنٹوں کے دوران وہ موٹر بائیک والے دھکا لگا لگا کر پمپ کے قریب دھکیل دیتے ۔ یہ تکلیف دہ مرحلہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ ہمارے ملک میں کم از کم نہ پیٹرول کی قلت ہے اور نہ ہی گیس کی۔ ہر طرف اس سے ہم بے نیاز تھے جبکہ نیپال اور بھارت کے درمیان کوئی ویزہ سسٹم نہیں ہے۔ بھارتی اور نیپالی عوام ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں یہاں تک کہ بازار میں نرخوں میں بھارتی روپیہ اور نیپالی سکہ دونوں ساتھ ساتھ لکھے ہوتے ہیں۔ عام طورپر بھارتی روپیہ بہت مضبوط سمجھا جاتا تھا لین دین میں چلتا تھا ۔ پاکستانیوں کو ائیرپورٹ پر ویزہ مل جاتا ہے، سیاحت نیپال کا سب سے زیادہ کمائی کا ذریعہ ہے۔ تیسرے دن عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا کھٹمنڈو میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، جگہ جگہ ہنگامے ہوئے حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ۔ وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑا، حزب اختلاف نے فائدہ اٹھایا اور اقتدار ان کو مل گیا۔ حکومت نے ہنگامی طور پر پیٹرول درآمد کیا اور عوام کو اس عذاب سے نجات دلا دی۔ خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی جب سے گیس کی بندش شروع ہوئی تو پہلے عوام کو محسوس نہیں ہوا مگر جب دام بے تحاشہ بڑھائے جاتے رہے تو عوام کی طرف سے احتجاج ضرور ہوا۔ میڈیا بھی بولا مگر حکمرانوں اور خصوصاًپیٹرول اور گیس کی وزارت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تو ہمارے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری نے خود ایکشن لیا کہ گیس تو ہمارے ملک میں پیدا ہوتی ہے پھر اس میں اتنی تیزی سے ردوبدل کیوں کیا جارہا تھا اور وہ بھی ہر ہفتے۔ اوگرا جو اس کی اتھارٹی ہے ازخود نرخوں کے اتار چڑھاوٴ میں مصروف تھی اس کو روکا گیا اور اضافی سرچارج عوام کو دینے سے روک دیا گیا پھر پورے ملک میں دام تو کم ہوگئے مگر اس کی سپلائی روک دی گئی، جب چاہا ناغوں کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور جب گیس کے ڈیلروں کی کمائی کم ہوئی تو انہوں نے اس ستائی ہوئی قوم کو عذاب میں ڈال کر ہڑتال کر دی۔ جب حکومت نے دباوٴ ڈالا تو کچھ اسٹیشن کھل گئے مگر ایک تو اتنی لمبی لائنیں جو میں نے نیپال میں دیکھی تھیں وہ تو کچھ بھی نہیں تھیں جو حال ہی میں، میں نے چند دنوں میں دیکھا تو لگتا تھا کہ ملک میں ہنگامی حالات سر پر آگئے ہیں اور گیس ختم ہو چکی ہے۔ عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ حکومت ان ڈیلروں سے بات نہیں کرنا چاہتی نہ ہی اپنا ٹیکس کم کر کے عوام کو سستی گیس دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف ڈیلر صاحبان بھی اپنی طرف سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کے منافع میں کیوں کمی آئے دونوں طرف سے عوام پس رہے ہیں۔ ایک طرف خوف و دہشت گردی سے بچنے کیلئے، دوسری طرف قید و تنہائی سے شاکی۔ پوری دنیا میں ہماری کتنی بدنامی ہوئی ہو گی اس سے اندازہ لگائیں کہ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی حکمران کیسے کیسے طریقے سے دہشت گردی کی روک تھام کے بجائے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ فوج ، رینجرز اور پولیس سب ناکام نظر آتے ہیں ۔ الیکشن سر پر آرہے ہیں سیاستدان بھانت بھانت کے وعدے کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے عوام کو اپنا ہمدرد ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ عوام پہلے ہی کم مصیبتیں جھیل رہے ہیں کہ اب گیس کے حصول کیلئے گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آنے لگی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو کل پیٹرول اور ڈیزل کا نمبر بھی آسکتا ہے۔ کسی کو عوام کی فکر نہیں ہے۔قائد اعظم کے پاکستان کو ہم کہاں لے جانا چاہتے ہیں، خدارا عقل کے ناخن لیں ۔ یہ عذاب عوام سے کب ٹلے گا خود عوام ہی سوچیں اور فیصلہ کریں کہ پاکستان کا کیا بنے گا ؟
تازہ ترین