• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز معاشی اعتبار سے جن بحرانوں کا شکار ہے، ان کے پیش نظر اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے، لہٰذا پاکستان نے اس بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے باقاعدہ درخواست کردی ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد چند ہفتوں میں پاکستان کا دورہ کرے گا اور اس کیلئے معاشی پروگرام اور قرض کے حجم پر بات کرے گا۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لاگارڈ نے انڈونیشیا کے شہر بالی میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر سے ملاقات کی جس میں دیگر حکام بھی موجود تھے۔ رائٹرز کے مطابق ایک نیوز کانفرنس میں کرسٹین لاگارڈ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو چین سمیت تمام قرضوں میں شفافیت لانا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کسی ملک کو بیل آئوٹ پیکیج دینے سے قبل اس کے تمام قرضوں کے بارے میں مکمل آگاہی ضروری ہوتی ہے، پاکستان تمام قرضوں کی تفصیل دے، آئی ایم ایف یہ بھی جاننا چاہے گا کہ اداروں سمیت ملک پر کتنا قرضہ ہے تاکہ ہم پر قرضوں کی نوعیت کا اندازہ لگا سکیں۔ پاکستان روانگی سے قبل وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملک جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس کا سب کو ادراک ہے۔ آئی ایم ایف سے ایسا پروگرام چاہتے ہیں جس سے معاشی بحران پر قابو پایا جاسکے۔ یہ حقیقت کسی بھی ذی شعور سے پنہاں نہیں کہ معاشی و اقتصادی اعتبار سے پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرر ہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ملک واجب الادا قرضوں کی قسطیں ادا کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ان حالات میں تمام تر کوششوں کے بعد اگر حکومت کو، جو پہلی بار برسراقتدار آئی ہے، آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا ہے تو اس پر طعن و تشنیع کے نشتر آزمانا کسی بھی صورت درست نہیں۔ اسی آئی ایم ایف سے قبل پاکستان درجن سے زائد مرتبہ مالی تعاون کے پیکیج لے چکا ہے۔ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کے جہاں فوائد ہیں وہاں کچھ مسائل بھی ہیں لیکن اگر تفصیل سے دیکھا جائے تو اس مالیاتی ادارے سے رجوع کرنا کسی ملک سے امداد یا قرض لینے سے بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج کا پورا پروگرام بنا کر دیتا ہے جو مالیاتی نظم و ضبط لانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک بھی اس ملک سے اپنے تجارتی و اقتصادی روابط بڑھاتے ہیں کہ انہیں آئی ایم ایف کے حوالے سے ایک اعتماد کی فضا میسر آتی ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف چند شرائط بھی عائد کرتا ہے جس سے حکومت اور عوام کو مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم امید ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ غریب عوام کو ان اثرات سے محفوظ رکھنے کی حتی الوسع کوشش کریں گے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے تمام تر قرضوں کی تفصیل کا طلب کیا جانا اس کے بیل آئوٹ پیکیج دینے کا لازمہ ہے اور اسی بنیاد پر وہ کسی ملک کو کوئی پیکیج دیتا ہے، تاہم کرسٹین لاگارڈ کی طرف سے خاص طور پر چین کے قرضوں کا ذکر حیران کن اس لئے نہیں کہ سی پیک کے حوالے سے خاص طور پر امریکہ اور مغربی ممالک بہت حساس رویہ اپنائے ہوئے ہیں، کیا خبر کہ وہ اس مخمصے کا شکار ہوں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے لئے گئے بیل آئوٹ پیکیج سے چین کا قرضہ واپس کرے، حالانکہ یہ ایک الگ منصوبہ ہے جس کی تفصیلات سب جانتے ہیں۔ مذکورہ حالات میں آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کا حصول اور وہ بھی نرم شرائط پر پاکستان کی بڑی کامیابی ہوگی جس سے وہ اپنے معاشی مسائل سے نجات پاسکتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ جو آئی ایم ایف کے جال میں آجاتا ہے وہ ہمیشہ کیلئے پھنس کر رہ جاتا ہے۔ پھنستا وہ ہے جو دیانت داری سے ملک و قوم کیلئے کام نہیں کرتا ورنہ ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے کچھ ہی عرصہ قبل آئی ایم ایف کی آخری قسط ادا کی ہے۔ پاکستان بھی دیانت داری کی راہ پر چلتا ہے تو یہ پیکیج اس معاشی بحرانوں کا خاتمہ کردے گا۔

تازہ ترین