• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہو سکتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے دودھ اور شہد کے دریا اُمڈ آئیں مگر انتہائی ادب سے عرض ہے کہ اس سوال پر بھی غور کیا جائے کہ کس قیمت پر ؟
وفاق جو چار اکائیوں پر مشتمل ہے یہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا کہ چار بنیاد پر کھڑا ہے تین اکائیاں اور بنیاد خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان کے عوام کی منتخب اسمبلیاں کالاباغ ڈیم کے خلاف قرار دادیں منظور کرچکی ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وفاق کی تین اکائیاں ماضی میں بھی شکوہ کرتی رہی ہیں کہ اُن کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے۔ اس شکوہ کے ازالے کے لئے 1973ء کے آئین کو اصل صورت میں بحالی کرکے صوبوں کو مکمل صوبائی خود مختاری دی گئی ہے جو صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کی زیر قیادت جمہوری حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔اب صوبے با اختیار ہیں اپنے پانی کے جائز حصے سے چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی تعمیر کرسکتے ہیں اور بجلی بھی پیدا کرسکتے ہیں ۔ اس کے باوجود کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا اصرار وفاق کی تین اکائیوں کے عوام کو مشتعل کرنے کے سوا او رکیا ہوسکتا ہے ؟کالا باغ ڈیم کی مختصر کہانی یہ ہے کہ ملک کے تین دریاؤں راوی ،ستلج اور بیاس کا سودا کرنے کے بعد اقتدار پر قابض عناصر نے کالا باغ ڈیم کے شوشے میں پناہ حاصل کی حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب کالا باغ ڈیم کی تعمیر ممکن تھی اور اس وقت ملک کا کوئی باقاعدہ آئین بھی نہیں تھا اور نہ ہی عوام کی منتخب اسمبلیوں کا وجود ، گویا خلاؤں میں کالا باغ ڈیم کا نقشہ بنایا گیا جو تصوراتی ہی رہا ۔ماضی میں نظر دوڑایں سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی۔ یہ تحریک وفاق بچانے اور جمہوریت کی بحالی کے لئے تھی ۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران وفاق کو بچانے اور جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کرنے والوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان کو یاد کرتے ہوئے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس دوران خلاؤں میں تصوراتی کالا باغ ڈیم کی تعمیر انگڑائی لیتی ہے اور جنرل ضیاء اس کی فزیبلٹی تیار کراتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی کالا باغ ڈیم بنانا نہیں چاہتے تھے ۔ صرف سندھیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنا مقصود تھا ۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیاء سندھ میں علیحدگی پسندوں کو سیاسی زندگی دینا چاہتے تھے ۔جن کا بنیادی مقصد پاکستان کو توڑنا تھا ۔ اس کی بنیاد ی دلیل یہ ہے کہ سندھ میں علیحدگی کی تحریک کے بانی جی ایم سید ، جنرل ضیاء کے مداح اور حامی تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے چلائی جانے والی تحریک کے کٹر مخالف ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کی ۔جہاں تک 1991ء میں مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کی بات کا تعلق ہے تو حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1990ء کے انتخابات پر فیصلہ دیا ہے کہ ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی جس نے معاشرے کو آلودہ کردیا ۔سوال یہ ہے کہ جس حکومت کی بنیاد ہی دھاندلی پر ہو اس حکومت کی مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کی قانونی ، آئینی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے ؟
کالا باغ ڈیم بنانے کے حوالے سے خبیر پختونخوا اور سندھ کا رد عمل فطری ہے جہاں تک کالا باغ ڈیم کے حوالے سے تکنیکی پہلوؤں کی بات کا تعلق ہے تو تکنیکی پہلو اور زمینی حقائق میں بہت بڑی خلیج ہے ۔ایسی خلیج جو خیالی تصور کے برعکس زمینی حقائق کے گرد گھومتی ہے، یہ ہم پر ہے کہ ہم خیالی دنیا میں بھٹکنے کے لئے تیار ہیں یا حقائق کو ماننے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ ہم ”انرجی“بجلی کی کمی کا سامنا کررہے ہیں اور یہ بھی سچائی ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ انسانی زندگی کو متاثر کررہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اُس کا ذمہ دار کون ہے؟
1990سے لیکر 1993ء اور پھر 1997ء سے لیکر 1999ء تک نواز شریف حکومت کا اصرار جنرل ضیاء کے خلاؤں اور تصوراتی کالاباغ کی تعمیر پر رہا، مگر کیا ہمیں یاد ہے کہ 1997ء میں جب نواز شریف اقتدار میں آئے تو اس وقت ملک میں بجلی وافر مقدار میں دستیاب تھی۔ جی ہاں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے جدید دنیا کے شانے بشانے چلنے کیلئے نجی پاور سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے ساتھ غازی بروتھا پاور پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ تھرکول اور کیٹی بند ر جیسے پاور پراجیکٹ کی تعمیر شروع کی تھی تاکہ آئندہ ایک صدی تک ہمارا ملک بجلی کی پیداوار میں خودکفیل رہے ، مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید سے تعصب ، نفرت اور مخاصمت کی بنیاد پر میاں نواز شریف نے پی پی پی حکومت کی انرجی پالیسیوں کو ختم کرکے اپنی بنیادی ترجیح کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر مرکوز کر رکھی جو نو من تیل اور رادھا کے ناچنے کی طرح تھی۔ چلیں دیر آید درست آید کے مصداق 12اکتوبر کے اقدام کے بعد میاں نواز شریف کے رویہ میں تو تبدیلی آئی کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے وفاق کی چاروں اکائیوں کا اتفاق ضروری ہے۔انتہائی ادب اور احترام کے ساتھ عرض ہے کہ ایسے وقت جب تخت لاہور کا تصور خوفناک فضا قائم کرچکا ہے، کالاباغ ڈیم کے ایشو نے ایک پنڈورہ باکس کھول دیا ہے۔اس پنڈورہ باکس کے کیسے مضمر نتائج سامنے آئیں گے مجھے تو سوچتے ہی ڈر لگتا ہے کیونکہ سندھ ابھی نہیں بھولی کہ 4اپریل 1989ء کو راولپنڈی سے ایک تابوت بھیجا گیا تھا اور کڑیل جوانوں کے کڑے پہرے میں کسی لاوارث کی طرح دفنا دیا گیا تھا۔ ٹھیک ساڑھے اٹھارہ سال بعد راولپنڈی سے ایک اور تابوت سندھ پہنچا تھا ، میں کوئی جسارت نہیں کرتا مگر پھر بھی سچ یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو سیاست سے بیدخل کرنے کاعدالتی فیصلہ ابھی تک ہضم نہیں کیا گیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا کہنا تھا کہ تاریخ کی ہر بڑی ناانصافی عدالت کی دہلیز پر ہوئی ہے۔ تاریخ کے طالب علم کے ناطے سقراط کو زہر دینے سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تک تمام واقعات کو یادکرتے ہوئے عدالتی فیصلوں پر قے آنے لگتی ہے۔جی ہاں کالاباغ ڈیم کی تعمیر ایک سیاسی مہم جوئی کے سوا کچھ بھی نہیں بالکل اس طرح صدر جناب آصف علی زرداری کے دوعہدوں کا معاملہ بھی سراسر سیاسی ہے تاہم وفاق کی تین اکائیاں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کی منتخب اسمبلیاں اُ س پر کیا ردعمل ظاہر کرتی ہیں وقت کی بات ہے۔
تازہ ترین