• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات اس لحاظ سے جمہوریت کی نشو و نما کے حق میں خوش آئند تبدیلی کے مظہر ہیں کہ ماضی کی عمومی روایت کے برخلاف پاکستان کے رائے دہندگان برسر اقتدار پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے بجائے اب ذاتی مصلحتوں سے قطع نظر استحقاق کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کا چناؤ کرنے لگے ہیں۔ چنانچہ اتوار کو قومی اسمبلی کی گیارہ اور صوبائی اسمبلیوں کی 24خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے مجموعی برتری کے باوجود جہاں عام انتخابات میں جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی 3نشستیں کھو دیں وہاں اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ (ن) نے تین جبکہ متحدہ مجلس عمل نے ایک نشست جیت لی۔ ان چاروں نشستوں میں سے دو ایسی تھیں جن پر وزیراعظم عمران خان منتخب ہوئے تھے اور عام خیال یہ تھا کہ اپوزیشن کے قد آور امیدواروں کے باوجود شاید یہ تحریک انصاف کے حصے میں ہی آئیں گی لیکن رائے دہندگان کا فیصلہ کچھ اور نکلا؛ تاہم عام انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات میں بھی ووٹروں کا عام رجحان ملا جلا ہی رہا اور اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن برقرار رہی۔ قومی اسمبلی میں جہاں اپوزیشن کی پارلیمانی قوت میں 5نشستوں کا اضافہ ہوا وہاں حکومتی پارٹی کو بھی مزید 6نشستیں مل گئیں۔ اپوزیشن اتحاد کی قومی اسمبلی میں نشستیں اب 159سے 164ہو گئی ہیں جبکہ حکومتی اتحاد کی نشستیں 176سے بڑھ کر 182ہو چکی ہیں۔ حکومتی اتحاد کو اب بھی 18نشستوں کی برتری حاصل ہے جسے برقرار رکھنے کے لئے اسے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا اور چھوٹی اتحادی پارٹیوں خصوصاً ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی سے سمجھوتوں کی پاسداری کرنا ہو گی ورنہ اتنی کم عددی اکثریت کسی وقت بھی اس کے لیے خطرے کی گھنٹی بن سکتی ہے۔ وفاق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتوں کو بظاہر مکمل کنٹرول حاصل ہے لیکن پاکستان کی عمومی سیاست اصولوں اور نظریات سے زیادہ اقتدار کی غلام گردشوں کے گرد گھومتی ہے اس لئے عوام اور اپنے اتحادیوں کو مطمئن رکھنے کے لئے حکومت کو تبدیلی کے ایجنڈے، گڈ گورننس، اقتصادی پروگرام اور چھوٹی جماعتوں کے مطالبات پر سنجیدگی سے کام کرنا ہو گا۔ ضمنی انتخابات میں عام انتخابات کے مقابلے میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔ خصوصاً بعض علاقوں میں خواتین نے بہت کم ووٹ ڈالے جو تشویشناک امر ہے اور ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ایسے چند علاقوں کے انتخابی نتائج منسوخ کرکے دوبارہ الیکشن کرانا پڑے۔ سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ الیکشن عام ہوں یا ضمنی، زیادہ سے زیادہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں پرلائیں۔ خاص طور پر خواتین میں رائے دہی کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ اس مرتبہ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی ووٹ ڈالنے کاحق دیا گیا۔ سات، آٹھ ہزار نے یہ حق استعمال بھی کیا جو ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اوور سیز پاکستانی ملکی معیشت میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، انہیں فیصلہ سازی میں بھی شریک کرنا ضروری ہے۔ چند مقامات پر معمولی لڑائی جھگڑوں کے سوا مجموعی طور پر پولنگ پُرامن اور منظم طریقے سے ہوئی۔ انتخابی عمل کے بارے میں بھی پورے ملک سے صرف 53شکایات ملیں الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا کردار بحسن و خوبی نبھایا۔ عام انتخابات میں ووٹروں نے کسی بھی پارٹی کو واضح مینڈیٹ نہیں دیا تھا یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لئے آزاد ارکان اور چھوٹی پارٹیوں پر انحصار کرنا پڑا۔ ضمنی انتخابات میں بھی تقریباً یہی رجحان برقرار رہا اور مجموعی طور پر تینوں بڑی پارٹیوں؛ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی نے حسب توقع سندھ اسمبلی کی دونوں نشستیں جیت لیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اسمبلی کی تحریک انصاف سے ایک سیٹ زیادہ ملی۔ اب جبکہ ضمنی انتخابات کے بعد پارلیمنٹ مکمل ہو چکی ہے، سیاسی پارٹیوں کو انتخابی رنجشیں بھلا کر ملک و قوم کو درپیش موجودہ مشکلات سے نکالنے کے لئے افہام و تفہیم کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ خاص طور پر حکومت کو کشادہ دلی سے اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنا چاہئے۔

تازہ ترین