• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے قصّے میں مجھے آپ سے بات کرنی ہے اپنے بھیس بدلنے اور طرح طرح کے تماشے دیکھنے کی۔اور اگر گنجائش نکل آئی تو پھر میں آپ کو اس شخص کا بھی قصّہ سنائوں گا جو خواب بیچتا تھا۔لیکن سب سے پہلے میں آپ سے دیکھنے، سمجھنے، اور تجزیہ کرنے کے نئے اور نرالے زاویوں کے بارے میں بات کروں گا۔ مجھے ایک سیمینار میں آنے کی دعوت ملی ہے جہاں پر دانشور اور اہل علم دیکھنے، سمجھنے، اور تجزیہ کرنے کے نئے اور نرالے زاویوں کے بارے میں اپنی آرا پیش کریں گے۔ سیمینار انگریزی میں رکھا گیا ہے۔ موضوع ہے Changing Perspectiveمجھے سیمینار میں ہونے والی گفتگو سننے کی دعوت ملی ہے۔ سیمینار میں بولنے کی مجھے اجازت نہیں ملے گی۔ موضوع دلچسپ ہے۔ لہٰذا کیوں نہ ہم پہلے اس موضوع کو حسب حیثیت کھنگال لیں۔ کوہ ہمالیہ لاکھوں کروڑوں برس سے اپنی جگہ موجود ہے۔ ہزاروں لاکھوں برس سے انسان کوہ ہمالیہ دیکھ رہا ہے۔ مگر جدید تحقیقاتی دور میں کوہ ہمالیہ کو دیکھنے اور سمجھنے کے اقدار بدل گئے ہیں۔ اب کوہ ہمالیہ دنیا میں سب پہاڑوں سے صرف میلوں اونچا پہاڑ نہیں ہے۔ اب کوہ ہمالیہ کو جدید دور میں نئی جہتیں مل گئی ہیں۔ کوہ ہمالیہ کی ایک جانب چین ہے۔ چین کے لوگ وہاں سے کوہ ہمالیہ کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ آسمان کو چھوتے ہوئے پہاڑ میں معدنیات کی کھوج لگاتے ہیں۔ پہاڑ کی اونچائی سے گرتی ہوئی آبشاروں اور ندیوں کو توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں سے دوائیں بناتے ہیں۔ یہ ہے کوہ ہمالیہ کا ایک زاویہ۔

کوہ ہمالیہ کی ایک جانب ہندوستان ہے۔ وہاں سے ہندوستانی کوہ ہمالیہ کو ایک الگ تھلگ نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمالیہ کی برف پوش اونچائیوں پر ان کی عبادت گاہیں اور مندر ہیں۔ سال بھر کروڑوں ہندوستانی یاترا کے لیے کوہ ہمالیہ کی بلندیوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہمالیہ سے نکلتی ہوئی ندیاں اور نالے ہندوستان کو سیراب کرتے ہیں۔ کوہ ہمالیہ کے سلسلے کا کے ٹو پہاڑ پاکستان میں ہے۔ بلندی میں کوہ ہمالیہ کی چوٹی مائونٹ ایورسٹ سے صرف دو سو سینتیس میٹر کم ہے۔ جس طرح ہندوستان اور چین نے کوہ ہمالیہ کو آباد کیا ہے اور بے انتہا استفادہ کیا، ہم پاکستانیوں نے نہیں کیا ہے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کے ٹو کے پگھلتے ہوئے پانی کا کیا کریں۔ ہمارا ہمسایہ نیپال کوہ ہمالیہ کے دامن میں ہے۔ کوہ پیما وہیں سے ہمالیہ کی بلندترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ کا رخ کرتے ہیں۔ نیپال میں دنیا کے پہاڑوں میں بلندترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ کو سگرمتھا کہتے ہیں۔ انیس سو تریپن میں ایڈمنڈ ہلیری دنیا میں پہلے شخص تھے جنہوں نے مائونٹ ایورسٹ پر قدم رکھا تھا۔ ان کے ساتھ ساتھ تھے نیپال کے شیرپا تینسنگ۔ حکومت برطانیہ نے ایڈمنڈ ہلیری کو سر کے خطاب سے نوازا تھا۔ سر ایڈمنڈ ہلیری اپنے وطن نیوزی لینڈ واپس جانے کے بجائے نیپال میں رہائش پذیر ہو گئے تھے۔ اپنے قیام کے دوران انہوں نے دل کھول کر فلاحی کام کیے تھے۔ بعد میں وہ نیوزی لینڈ چلے گئے تھے اور سن دو ہزار آٹھ میں انتقال کر گئے ۔

امریکہ نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی ایجاد کی ہے۔ یہ طے ہے کہ دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے کبھی نہیں ٹیکے جائیں گے۔ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہو کر دہشت گردوں سے دو بدو ہونے کو فضول اور مہنگی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ مطلب ہے کہ دہشت گردی کا سد باب کرنے کے لیے مسئلے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے نئی سوچ اور نیا عمل ہے، یعنی Perspectiveہے۔ بندوق کی بجائے گفت و شنید سے دہشت گردوں کو مات دی جائے۔ اس نئی حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے افلاطون جیسی ذہانت درکار ہے، جو کہ میرے بھیجے میں نہیں ہے۔ کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے لیے اس سے بڑی فتح اور کیا ہو سکتی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے دہشت گردوں کو بات چیت کی دعوت دی جائے۔ شاید ہی ایسا کوئی بوڑم دہشت گرد دنیا میں پایا جائے جو آپ کی جانب سے گفت و شنید کی دعوت کو آپ کی کمزوری اور اپنی فتح نہ سمجھے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ گفت و شنید کی دعوت قبول کرنے کے بعد صلح صفائی کی میز پر آنے والی دہشت گرد تنظیم کے نمائندے آپ کی ہر بات اور ہر شرط قبول کر لیں گے اور آپ سے اپنی بات اور اپنی شرائط نہیں منوائیں گے؟ نئی حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے ایک مفروضہ سامنے رکھتے ہیں۔ فرض کیجئے، دہشت گردی کی کارروائیاں بند کرنے کے عوض دہشت گرد اگر آپ سے اسمبلی میں پچاس سیٹیں مانگ لیں، ملازمتوں میں حصّہ مانگ لیں، اور ملک کے ایک حصّے پر اپنے لیے نئے صوبے کا مطالبہ کر لیں، تو کیا آپ ان کے مطالبات مان لیں گے؟اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں امریکہ کے صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ یہ نئی حکمت عملی ان کے دماغ کی اختراع ہے۔ ویسے بھی تاریخ میں یہ سب پہلی بار نہیں ہونے جا رہا ہے۔ اس سے ملتی جلتی ایک مثال سن لیجیے۔ سندھ پر انگریزوں کے دور حکومت میں بلوچستان کے جنگجو قبیلے سندھ کے سرحدی علاقوں پر دھاوا بولتے تھے۔ لوٹ مار کرتے تھے۔ انہوں نے انگریز حکمرانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ انگریز جب طاقت کے بل بوتے پر مہم جو قبیلوں کو روکنے میں ناکام ہو گئے، تب انہوں نے نیا Perspective، حکمت عملی اپنا لی۔ انہوں نے جنگجو قبیلوں کو بات چیت کی دعوت دی۔ انگریزوں نے سندھ بلوچستان کی سرحد سے لگنے والی سندھ کی ہزاروں ایکڑ زمین دہشت گردوں کو جاگیر میں دے دی۔ اور جنگجو قبیلوں نے پرامن رہنے کی ہامی بھر لی۔ قبیلوں کے نام بتانا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ سندھ کی زمین پر آج تک ان کی جاگیرداری قائم اور دائم ہے۔ ان کا شمار سندھ کے بااثر اور طاقتور سرداروں اور سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ نسل در نسل، آج تک وہ انتخابات میں جیتتے آئے ہیں اور حکومتوں کا حصّہ بنتے رہے ہیں۔

تازہ ترین