• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوابزادہ لیاقت علی خان کا جنازہ 17اکتوبر 1951کو ان کی اقامت گاہ 10 وکٹوریہ روڈ سےٹھیک بارہ بجکر 45منٹ پر اٹھایا گیا تھا۔ نماز جنازہ ایک بجکر 36منٹ پر پولو گرائونڈ میں ممتاز عالم دین مولانا احتشام الحق تھانوی نے پڑھائی اور پھر جلوس ہیولاک روڈ، الفٹن اسٹریٹ، گارڈن روڈ، بندر روڈاور محمدعلی جناح روڈ سے ہوتا ہوا نمائش گاہ پہنچا جہاں ملت اسلامیہ کے سرمایہ حیات قائداعظم محمدعلی جناح کو تین سال ایک ماہ اور 5 دن پہلے سپرد خاک کیا گیا تھا۔ جلوس میں کم و بیش 7 ,8 لاکھ افراد تھے ،جن میں مرد، عورتیں بچے بوڑھےاور جوان سب ہی شامل تھے۔ قائد ملت کی والدہ محترمہ جو مجسم غم کی صورت تھیں، کی حالت کسی سے دیکھی نہ جارہی تھی، وہ اپنے نامور سپوت کو جسے انہوںنے اپنی گودی میںکھلایا تھا ،لوری دے کر اور تھپک تھپک کر سلایا تھا،انہیں مٹی دینے آئی تھیں۔

قائدملت کی بیوہ ان کےبڑےصاحبزادے،وزارت میںانکے رفقا کار، گورنر جنرل پاکستان، بیرونی ممالک کے سفیر اور عمائدین شہر تھے۔ ہر شخص کا چہرہ اداس، آنکھیں پرنم اور جسم نڈھال تھا، مگر نظم و ضبط کو ہاتھ سےنہ جانےدیا عوام کی یہ غیرمعمولی تنظیم پاکستان کے لازوال عزم و استقلال کی مظہر تھی۔

جلوس جب قائد ملت کی اقامت گاہ سے چلا تو ہزاروں آدمی جلوس کے ساتھ تھے۔ جلوس کے آگے بحری فوج کے ایک افسر اعلیٰ ہاتھ میں برہنہ تلوار لئے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ ان کے پیچھے بحری، بری اور فضائی فوج کے جوان اور افسر تھے،جن کے چہرے غمگین اور اداس تھے، مگر جن کی چال میں عزم و استقلال نمایاں تھا ۔بحری فوج کے جوان سفید براق پوشاک پہنے ہوئےتھے، ان کے سروں پر سفید ٹوپی اور گلوں میں نیلا رومال تھا، ان کے کاندھوں پر بندوقیں تھیں، جن میں سنگینیںلگی ہوئی تھیں۔ بری فوج کے جوان خاکی وردی پہنے تھے،ان کے سروں پرنیلی ٹوپی تھی، یہ نوجوان دوسری عالمگیر جنگ کے بعد دنیاکے کونے کونے میں اپنی بہادری اور جانبازی کیلئے مشہور تھے ان کے ہاتھوں میں بندوقیںتھیں۔بری فوج کے بعد فضائی فوج کے جوان تھے۔ ان کی آسمانی رنگ کی ٹوپی تھی ۔ ان کے قدم آہستہ آہستہ اٹھ رہے تھے ۔پاکستانی فوج کے جوانوں کے بعد گورنر جنرل کے خاص باڈی گارڈ گھوڑوںپر سوار ہاتھوں میں سیاہ و سبز جھنڈیاںلئے چل رہے تھے۔ گھوڑوں کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں ان کے درمیان قائد ملت کا جسد خاکی ایک توپ پر رکھا تھا، جسے بحریہ، بری اور فضائیہ کے جوان کھینچ رہے تھے۔ محافظوں کے اس دستے کے بعد پاکستان کے وزرا، غیرملکی سفرا اور عمائدین شہر اور پھر لوگوںکا ہجوم تھا۔ جب جلوس ایوب کھوڑو روڈ سے پولو گرائونڈ پہنچا تو وہاں لاکھوں کا مجمع تھا۔ لوگ مکانوں کی چھتوں کھڑکیوں، شہ نشینوں، دروازوںسے اپنے محبوب رہنما کا آخری دیدار کررہے تھے۔ اسی مقام پر قائد ملت نے 14 اگست 1951 کو سلامی لی تھی۔ یہاں ایک بجکر 28 منٹ پر جنازہ لایا گیا۔ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں لاکھوں افراد کا یہ ہجوم اس سے پہلے کبھی پولو گرائونڈ میں دیکھنے میںنہ آیا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ لوگوںکو اپنےمحبوب رہنما کا شدید غم تھا۔

نماز جنازہ ادا کرنے کے بعدجلوس نمائش گاہ کی طرف بڑھا، جہاں شہیدملّت کے جسد خاکی کو اپنے دیرینہ امیر اور پرانے ساتھی قائداعظم کے پہلو میں 3 بجکر 8 منٹ پر قبر میں اتارا گیا اور ٹھیک 3 بجکر 14 منٹ پر سپرد خاک کردیا گیا۔

تازہ ترین