• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔

آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔

تعارف

حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘

سلسلۂ نسب، حلیہ

آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘

صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ

آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔

کاتبِ وحی

حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔

غزوات میں شرکت

حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔

شہادت ہے معراجِ مردِ مومن

غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔

جنگِ نہاوند

حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔

حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی

امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔

شہنشاہی میں فقیری

جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔

سادگی مومن کی شان ہے

کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘

خالقِ حقیقی سے جا ملے

موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔

تازہ ترین