• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک وقت تھا جب ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اورڈاکٹر بابر اعوان سیاسی سرکس میں دو بڑے اداکار تھے۔ جونہی وہ اپنے مربی صدر آصف علی زرداری کے دربار سے ردے گئے وہ سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہوگئے۔ قوم ان کی تخلیقات سے محروم ہوگئی۔ بابر اعوان کے گمشدہ ہونے کے بعد ”تخت لاہور“ جیسی اصلاحات بھی ناپید ہوگئیں۔ اپنے سیاسی جوبن کے زمانے میں وہ لگاتار شریف برادران کو ایسے طعنوں سے نوازتے رہے اور صدر اور پیپلزپارٹی کے کچھ حلقوں سے داد وصول کرتے رہے۔ اسی سنہری دور میں وہ اعلیٰ عدالتوں کا بھی کھل کر مذاق اڑاتے رہے اور یہ تاثر دیتے رہے کہ عدلیہ شریفوں کے ساتھ خاص رعایت برتتی ہے اور صدر زرداری اور پیپلزپارٹی سے سوتیلی ماں کا سلوک کرتی ہے۔ وکیل ہوتے ہوئے بھی وہ کئی بار احتیاط کا دامن چھوڑ جاتے رہے۔ یہ تو عدالتوں کی درگذر تھی کہ انہیں جیل کی ہوا نہیں کھانا پڑی حالانکہ ان کی یہ خواہش رہی تاکہ وہ بھی اپنی انگلی کٹا کر ”سیاسی شہید “ بن سکیں ۔ آخر کار بابر اعوان ہزاروں فٹ کی بلندی سے دھڑام سے نیچے گرے اور سیاسی یتیم ہوگئے۔ یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں گواہی دینے سے انکار کیا۔ صدر ان کی گواہی چاہتے تھے تاکہ وہ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لیں تاکہ وزیراعظم اس جال سے بچ سکیں۔ اس ”نہ “ نے انہیں صدر سے کوسوں دور کر دیا۔ وہ سیاسی اسٹار صرف اس وقت تک رہے جب تک آصف زرداری کے قریب رہے۔ جونہی فاصلہ پیدا ہوا وہ بے آسرا ہوگئے۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی میں ان کا پرسان حال کوئی نہیں۔ یہ کوئی کم جھٹکا نہ تھا کہ ان کا بطور سپریم کورٹ کے وکیل لائسنس بھی عدالت عظمیٰ نے معطل کر دیا۔ جو ایک بم شیل سے کم نہ تھا۔ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود ان کا لائسنس بحال نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے وہ سپریم کورٹ میں بطور وکیل پریکٹس نہیں کرسکتے۔ وقت نے ثابت کیا کہ پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے سیاسی ناموں کی وقعت صرف اس وقت تک ہی ہے جب تک وہ اس کے باس کے منظور نظر رہیں۔ ان کی اپنی کچھ سیاسی حیثیت نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بابر اعوان کا طوطی بولتا تھا اور وہ ہر بڑے حکومتی فیصلے جو ایوان صدر میں ہوتے تھے میں ایک اہم کردار ادا کرتے تھے۔ اپنی اسی حیثیت کی وجہ سے وہ گورنر پنجاب اور چیئرمین سنیٹ بننے کا خواب بھی دیکھتے رہے جو پورا نہ ہوسکا۔ اب جبکہ نئے انتخابات کی آمد آمد ہے موقع تھا کہ صدر بابر اعوان جیسے شعلہ بیان کی خدمات حاصل کرتے مگر وہ انہیں معاف کرنے کو بالکل تیار نہیں۔
بالکل بابر اعوان کی طرح ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی سیاست میں عجیب عجیب ہنگامے کرکے بڑا نام کمایا۔ وہ آزاد عدلیہ پر سخت سے سخت حملے کرتے رہے۔ ان کے خیالات کو ہمیشہ صدر کی آواز سمجھا جاتا رہا جو بالکل صحیح تھا۔ مگر جب وہ کراچی کی تکلیف دہ صورتحال خصوصاً دہشت گردی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ پر پھٹ پڑے تو صدر سے دوری ہونا شروع ہوگئی اس وجہ سے کہ آصف زرداری ہر قیمت پر متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اتحاد قائم رکھنا چاہتے تھے جبکہ ذوالفقار مرزا اس جماعت کے دشمن نمبر ون ہوگئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنی ایسوسی ایشن کے آخری چند ماہ کے دوران جب وہ گرج رہے تھے تو انہوں نے اعلیٰ عدلیہ خصوصاً چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر مکمل اعتماد کا اظہار شروع کر دیا تھاجو کہ عدالتوں پر بے جاتنقید پر پچھتاوے کے مترادف تھا۔ اس ہنگامہ خیز دور کے دوران ذوالفقار مرزا نے اپنے پرانے دوست اور مربی آصف زرداری کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ چاہتے تھے کہ صدر ایم کیو ایم سے الائنس ختم کریں اور کراچی میں آپریشن کریں تاکہ وہاں امن وامان قائم ہوسکے۔ سیاسی افق سے گمشدہ ہونے کے اور چپ کا روزہ رکھنے سے قبل ذوالفقار مرزا نے اپنے بہت سے نقادوں کو اپنا دل دادہ بنا لیا تھا۔ جو یہ بات ماننے کو تیار تھے کہ وہ اس ڈاکٹر کو صحیح نہ سمجھ سکے۔ ایک وقت تھا کہ ذوالفقار مرزا بہت دلیر اور ٹارزن بن کر سامنے آئے جنہیں نہ کوئی خوف تھا اور نہ کسی کی پرواہ مگر یہ سارا شور مچانے کے بعد وہ ایسا گوشہ نشین ہوئے کہ سارے وعدے جو انہوں نے قرآن کی قسمیں کھا کھا کر پاکستانی قوم سے کیے تھے بھول گئے۔ تاہم ہمارے ملک میں جہاں سیاست دان اور دوسرے حضرات ہمیشہ مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں ایسے سر پھروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ قوم کڑوا سچ سن سکے۔ جب وہ ایسا سچ بولتے ہیں تو قوم ان کا ماضی بھول کر ان سے محبت کرنا شروع ہو جاتی ہے۔ ذوالفقار مرزا کے رویے نے یہ ثابت کیا ہے وہ بہت بڑے انتہا پسند ہیں۔ جب بولے تو چھپر پھاڑ کر اور جب چپ سادھ لی تو ایسی جیسے وہ کبھی سیاستدان ہی نہیں تھے۔ ان کے باغیانہ دور میں بھی ان کی زوجہ محترمہ اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اپنے آپ کو اس کھیل سے بہت دور رکھا۔ وہ صدر اور پیپلزپارٹی کی اسی طرح ہی وفادار رہیں جیسے پہلے دن سے تھیں۔ وہ تو اگلا الیکشن بھی لڑیں گی مگر ذوالفقار مرزا کے بارے میں علم نہیں کہ وہ آیا سیاست ، انتخابات اور پیپلزپارٹی سے کنارہ کش رہیں گے یا نہیں۔ اب چند الفاظ دوہری شہریت رکھنے والے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کے بارے میں۔ کئی ماہ قبل سپریم کورٹ نے چند ایسے ارکان کے خلاف فیصلہ دیا جس سے ان کی نہ صرف رکنیت ختم ہوئی بلکہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی بنے۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ تمام ارکان سے حلف نامے لیں کہ وہ دوہری شہریت کے حامل نہیں۔ اکثریت نے ایسے حلف نامہ جمع کرا دیے مگر 16 ارکان ایسے تھے جنہوں نے ایسا کرنے سے آخری دن تک اجتناب کیا۔ اب وہ بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی زد میں آئیں گے۔ کچھ اسمارٹ ارکان الیکشن کمیشن کی دی ہوئی آخری تاریخ سے ایک دن قبل مستعفی ہوگئے تاکہ وہ اس فیصلے کے اثر سے بچ سکیں۔ تاہم ان میں کچھ ارکان کو سندھ حکومت میں وزیر یا مشیر بنالیا گیا ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ عدالتی فیصلے کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ فیصلے کی روح سے دوہری شہریت کے حامل ارکان کو قومی پالیسیاں بنانے کے عمل میں شریک نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان کی وفاداری منقسم ہے۔ وہ ایک وقت میں پاکستان اورملکہ برطانیہ یا امریکہ یا کینیڈا کے وفادار نہیں ہوسکتے مگر پھر بھی سندھ میں ایسے ارکان کو دوبارہ وزیر بنایا گیا ہے۔ ان حضرات کی ملک سے کمٹمنٹ اور عدالتی فیصلوں کا احترام کا یہ عالم ہے کہ وہ آخری دن بھی اپنی دوسرے ملک کی شہریت کو ترک کرنے کو تیار نہیں۔ وہ ہر قیمت پر ایسی شہریت رکھنا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین