• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں جس دن اچانک 13 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ، اسی دن پاکستان بھر کی ہول سیل مارکیٹوں میں کاروبار بند کر دیا گیا ۔ خصوصاََ دواؤں کی ہول سیل مارکیٹوں میں جان بچانے والی دواؤں کی فروخت فوراََ بند کر دی گئی کیونکہ ہول سیلرز نے روپے کی قدر کم ہونے پر یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اب اپنی اشیاء پرانی قیمتوں پر نہیں بیچیں گے ۔ پھر دو دن بعد لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے ۔ خاص طور پر دواؤں کی قیمت میں 10 سے 50 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔

اس امر کا فائدہ وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے تناظر میں کیا گیا ، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک کی معیشت کو درست کرنے کے لیے جو مشکل فیصلے کر رہی ہے ، اس کے اثرات کچھ عرصے بعد محسوس ہوں گے اور ان اقدامات سے لوگوں کو ریلیف ملے گا ۔ وزیر اعظم کے اس بیان پر تکرار فی الوقت مناسب نہیں کیونکہ انہوں نے مستقبل کی بات کی ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے دور رس اثرات جو بھی ہوں گے ، ان کا وقت آنے پر پتہ چل جائے گا لیکن جو فوری اثرات مرتب ہوئے ہیں ، وہ یہ ہیں کہ مہنگائی میں یک دم اضافہ ہوا ہے ۔ جان بچانے والی دواؤں سے لے کر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں تک ہر چیز میں اضافہ ہو چکا ہے ۔ پاکستان کی اکثریتی غریب آبادی کی چیخیں نکل گئی ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ قوموں کو بڑے بحرانوں سے نکلنے کے لیے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان مشکل حالات میں سب کے لیے ایک جیسی آزمائش ہونی چاہئے ۔ ہر قوم اور سماج میں طبقاتی تقسیم ہے ۔ کچھ طبقات ایسے ہیں ، جن پر مہنگائی میں اضافے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ وہ ان مشکل فیصلوں کی حمایت کر رہے ہوں تو ان کے مقاصد اور طبقاتی مفادات کچھ اور ہوں گے ۔ اگر وہ ان طبقات کی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہیں ۔ مہنگائی کی وجہ سے جن کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی غریب اور محروم طبقات سے لی جا رہی ہے ۔

ڈالر کی قدر میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ مزید 20 فیصد آبادی ایسی ہے ، جو غریب کہلاتی ہے۔ ایک عشرہ پہلے کی لوئر مڈل کلاس بھی غریب ہو گئی ہے ۔ غریب خط غربت سے نیچے گر رہا ہے اور لوئر مڈل کلاس غریب ہو رہا ہے ۔ یہ عمل تیز ہو گیا ہے ۔ آج پاکستان کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی ایسی ہے ، جس کی آمدنی اس کے ضروری اخراجات سے بہت کم ہے ۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہو چکا ہے ، جہاں روزگار کرنے والے اپنی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے ہیں ۔ ’’ مشکل فیصلوں ‘‘ سے بالائی طبقات پر جو بوجھ پڑتا ہے ، وہ ایک خود کار نظام کے ذریعے نچلے طبقات پر مشتمل ہو جاتا ہے ۔ بڑی بڑی فیکٹریوں اور محلات کے بجلی اور گیس کے بلوں میں اگرچہ اضافہ ہوتا ہے تو اضافی رقم بھی غریب کی جیبوں سے نکالی جاتی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام خود کار طریقے سے چلتا ہے اور اس کا میکانزم بہت مضبوط ہے ۔ مشکل فیصلے تو تب ہوتے ، جب بالائی طبقات اپنی شاہانہ زندگی کے بڑھتے ہوئے تفرقات سے اپنی دولت میں کچھ کمی محسوس کرتے یا ان پر کم از کم اتنا دباؤ ہوتا کہ وہ اپنا طرز زندگی تبدیل کر دیتے ۔

آج ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں ، جہاں معاشی اور سیاسی نظریات ، فلسفہ اور سائنس پر مباحث نہیں ہوتے ۔ جو روایتی اور جدید میڈیا کے ذریعہ لوگوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور پیشہ ور عوام دشمن جملے باز دانشوروں کی لکھی ہوئی تقریریں یاد کرکے دہرا سکتا ہے یا نام نہاد ماہرین کی آرا کو پیچیدہ جملوں میں لپیٹ کر پیش کر سکتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں ہی حق اور سچ پر ہوں ۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں ، جہاں ازل سے جاری طبقاتی جنگ یا کشمکش بظاہر نظر نہیں آتی اور تاریخ میں ایسے عہد بھی آئے ہیں لیکن یہ جنگ اور کشمکش ختم نہیں ہوئی ۔ ماضی میں بھی تاریخ سے نابلد دانشوروں اور صرف استحصالی طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ماہرین اور پاپو لر سیاستدانوں کا سکہ چلتا رہا ہے مگر یہ سکہ کھوٹا ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ طبقاتی تضادات کچھ وقت کے لیے زیادہ شدت میں نہیں ہوتے تاہم وہ ختم بھی نہیں ہوتے۔

بہت سی باتیں ہیں ، جو موجودہ عالمی صورت حال میں اگر کی جائیں تو ان کا ابلاغ نہیں ہو گا ۔ ماضی میں یہ باتیں واضح بھی تھیں اور ان کا ابلاغ بھی تھا ۔ آج کی صورت حال میں صرف اس حقیقت کو بیان کرنا کافی ہے کہ ’’ مشکل فیصلوں ‘‘ کی اصطلاح اس وقت سے رائج ہے ، جب سے دنیا کے سرمایہ دار ملکوں نے غریب اور ترقی یافتہ ملکوں کو جدید نو آبادیاتی شکنجے میں جکڑنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے قائم کیے ۔ ان اداروں کو غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو اپنی معیشت بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ ’’ مشکل فیصلے ‘‘ کرنے کی تجویز دی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ملکوں نے مشکل فیصلے کیے ، وہ مزید مشکل میں پھنس گئے ۔ سیدھی سی بات ہے کہ مہنگائی اور اس کے نتیجے میں غربت میں اضافے سے کس طرح کوئی ملک ترقی کرے گا ۔ مشکل فیصلوں کے فوری اثرات کو ان کے دور رس اثرات سے زائل کرنے کی امید تیسری دنیا میں صرف ناامیدی ، افراتفری اور انتشار کی صورت میں ہی برآئی ۔ گزشتہ ایک صدی سے ہم نے دیکھا ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں جن سیاست دانوں نے غریب عوام کی خاطر ان مشکل فیصلوں سے انکار کیا ، وہ عبرت کا انجام بن گئے اور جنہوں نے یہ مشکل فیصلے کیے ، ان کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں رہا ۔ تاریخ کے گہرے ادراک اور تدبر کی ضرورت ہے ۔ اس وقت صورت حال کو معروضی طور پر بیان کیا جائے تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ مشکل فیصلوں سے اکثریتی غریب عوام مشکل میں ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین