• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کو درپیش اہم ترین بنیادی مسائل میں سے غربت کی سنگینی بالکل واضح ہے۔ سات دہائیوں میں آنے والی تمام حکومتیں غریبوں کے حالِ زار کو بہتر بنانے کی دعوے کرتی رہی ہیں لیکن جو معاشی و سماجی نظام قوم پر مسلط چلا آ رہا ہے اس کے نتیجے میں غربت و امارت کا فرق ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان کا یہ تازہ اعلان کہ ان کی حکومت لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے کیلئے ایک ایسا پیکج لے کر آرہی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں آیا، پاکستانی عوام کے لیے بلاشبہ امید کی کرن ہے۔ یہ انکشاف وزیراعظم نے گزشتہ روز لاہور میں شیلٹر ہوم کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جس کے تحت لاہور میں رات سڑکوں پر گزارنے والوں کے لیے پانچ پناہ گاہیں قائم کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ غربت کے خاتمے کے لیے ان کی حکومت چین کے تجربات سے استفادہ کرے گی جن کے مطابق تمام فلاحی ادارے ایک ہی چھت کے نیچے کام کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے بقول ان کے ابتدائی سو دن کے پروگرام میں غربت کے خاتمے کے اقدامات کو ترجیحی اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے ایسے اقدامات کرے گی کہ یہ ملک پوری دنیا کے لیے قابل تقلید مثال بن جائیں گے۔ غربت کے مسئلے کے ایک بنیادی سبب کی بالکل درست نشاندہی عمران خان نے ان الفاظ میں کی ’’ہم وسائل نہیں احساس کی کمی کا شکار ہیں، مفلس لوگوں کو دیکھ کر جس کے دل میں رحم نہ آئے وہ انسان ہی نہیں، ہمیں احساس پر مبنی معاشرہ تشکیل دینا ہے‘‘۔ نئی حکومت کے پہلے سو دن پورے ہونے میں اب بہت کم وقت باقی ہے لہٰذا توقع ہے کہ وزیراعظم کے اظہارِ خیال کے مطابق غربت کے خاتمے کے وہ بنیادی اقدامات جو پہلے سو دنوں میں ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں، آنے والے چند روز میں منظر عام پر آ جائیں گے۔ جہاں تک ملک کو درپیش غربت کے مسئلے کی شدت کا معاملہ ہے تو اس کا اندازہ تقریباً سوا دو سال پہلے کے ایک حکومتی جائزے سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق اس وقت ملک میں غرباء کی تعداد چھ کروڑ سے زیادہ تھی۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئندہ بارہ سال میں مزید دس کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے جبکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ رپورٹ کی رو سے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی آبادی کی آمدنی میں مزید آٹھ فی صد کمی ہو جائے گی۔ اس صورتِ حال میں پاکستانی عوام غربت کے خاتمے کے لیے حکومت کے اقدامات کی کامیابی کے یقیناً شدت سے آرزو مند ہوں گے۔ توقع ہے کہ حکومتی پالیسی ساز وقتی اور نمائشی اقدامات کے بجائے مسئلے کے مستقل حل کی خاطر پائیدار اور دور رس اقدامات عمل میں لائیں گے۔ غربت اور امارت کا بڑھتا ہوا فرق فی الحقیقت آج پوری دنیا میں ایک ہولناک مسئلہ ہے اور اس کا اصل سبب وہ سنگ دلانہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کے نتیجے میں ارتکازِ دولت اس انتہا کو پہنچ گیا ہے کہ عالمی اداروں کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے محض ایک فی صد امیر ترین اشخاص دنیا کی آدھی دولت کے مالک بن چکے ہیں اور دولت کے چند ہاتھوں میں سمٹتے چلے جانے کا یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ عمران خان پاکستان کو مدینے جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے علم بردار ہیں لہٰذا وہ اسلام کے معاشی و سماجی نظام کو اپنا کر بے حسی اور سنگ دلی پر مبنی سرمایہ دارانہ عالمی نظام سے نہ صرف اہلِ پاکستان کو نجات دلا سکتے ہیں بلکہ پوری انسانی برادری کو فلاح کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔ یہ منزل ظلم اور حق تلفی کے تمام راستے بند کر کے، قانون کی نگاہ میں سب کو برابر قرار دے کر، تعلیم و تربیت کی بہترین سہولتوں کو ملک کے تمام شہریوں کیلئے یکساں طور پر عام کر کے اور زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھنے کے لیے صرف اہلیت و دیانت کو معیار بنا کر حاصل کی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین