• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی کابینہ کا 5 گھنٹے طویل اجلاس، بریگزٹ ڈیل کی منظوری دیدی گئی

لندن (اے ایف پی) بریگزٹ پر برطانوی کابینہ کے 5 گھنٹے طویل اجلاس کے بعد بریگزٹ ڈیل کی منظوری دے دی گئی، جس کے مسودے کو آئندہ ماہ برطانوی پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ اس کا اعلان برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے کابینہ اجلاس کے بعد بدھ کی شب اپنی سرکاری رہائش گاہ 10ڈائوننگ سٹریٹ کے باہر منتظر کھڑے صحافیوں سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسودے کی منظوری میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں تاکہ پرامید ہوں کہ وہ مشکل وقت بھی کامیابی سے نکال لیں گے۔ بدھ کو بریگزٹ منصوبے کے مخالفین اور حمایتیوں نے پارلیمنٹ بلڈنگز اور 10ڈائوننگ سٹریٹ کے باہر علیحدہ علیحدہ مظاہرے بھی کئے۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم اپنے اقتدار کیلئے خطرے کا باعث بنے بریگزٹ ڈیل میں پہلی خطرناک رکاوٹ پار کرنے میں اس وقت کامیاب ہوگئیں جب 5 گھنٹے کے طویل اجلاس کے بعد کابینہ نے انہیں بریگزٹ ڈیل کیلئے مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے ڈیل کو آگے بڑھانے کیلئے سگنل دے دیا۔ وزیراعظم نے اپنی رہائش گاہ کے بعد کہا کہ اس مسودے کی منظوری میں انہیں پارلیمنٹ میں زیادہ شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم وہ پرامید ہیں کہ وہ اس مزاحمت کیخلاف بھی کامیاب ہوجائیں گی۔ قبل ازیں گزشتہ روز ڈیڑھ سال کے مذاکرات کے بعد طے پانے والی ڈیل کے حوالے سے اپنے پہلے کھلے تبصرے میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک ڈرافٹ بالآخر طے پا گیا ہے، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا یہ فیصلہ کم وبیش 46 سالہ رفاقت کا خاتمہ ہے، اس رفاقت کا خاتمہ عالمی مالیاتی بحران کے دوران پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال اور مائیگرنٹس کے سیلاب کے خطرات کے پیش نظر کیا گیا ہے، جون 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم میں52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی جبکہ 48 فیصد نے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیئے تھے، کابینہ سے منظوری کے بعد برطانیہ اوریورپی یونین کے درمیان حتمی معاہدے کیلئے 25 نومبر کو بریگزٹ سربراہ اجلاس ہونے کا امکان ہے۔ منگل کو بریگزٹ کے بارے میں ہونے والے اعلان کے بعد، جو یورپی یونین کی جانب سے 29 مارچ کو بغیر کسی ڈیل کے علیحدگی کے حوالے سے اقدامات شروع کئے جانے کے بعد کیا گیا تھا، پونڈ کی قدر میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ ادھر مے کی جانب سے اپنے وزرا کو راضی کرنے کی کوششوں کے دوران ان کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر ناراض بریگزٹ حمایتی اور تنقید نگار ریلیاں بھی نکال رہے ہیں۔ اخراج کیلئے لندن گروپ بنانے والی لوسی ہیرس نے اس موقع پر کہا کہ ملک کو مکمل طور پر فروخت کردیا گیا، ہم اس کے نتیجے میں یورپین یونین کی بے کار ریاست میں بدل جائیں گے۔ برطانیہ کی سب سے بڑی اپوزیشن کی پارٹی لیبر کے قائد جیرمی کوربن قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں، مذاکرات کے اس پور ےعمل کو شرمناک قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک بری ڈیل کیلئے مذاکرات میں 2 سال ضائع کردیئے اور اس ڈیل نے ملک کو منجھدار میں پھنسا دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر، جو یورپی یونین کے کٹر حامی ہیں، کا کہنا ہے کہ برطانیہ برسلز میں اپنی حیثیت کھو رہا ہے اور اس کے عوض اسے کچھ نہیں ملا۔ انھوں نے کہا کہ یہ مصالحت نہیں بلکہ مشروط اطاعت کا معاہدہ ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ پیٹر بون نے تھریسا مے پر بریگزٹ کے حق میں ووٹ دینے والوں کو مایوس کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے وزیر اعظم تھریسا مے کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ بہت سے کنزرویٹو ارکان پارلیمنٹ اور لاکھوں ووٹروں کی حمایت سے محروم ہوچکی ہیں۔

تازہ ترین