• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اخراج پلان منظوری، کابینہ میں بغاوت، بریگزٹ منسٹر سمیت 8 وزرا و معاونین مستعفی، وزارت عظمیٰ نہیں چھوڑ رہی، تھریسامے

لندن (جنگ نیوز) وزیراعظم تھریسامے نے بدھ کی شام بریگزٹ کے حوالے سے کابینہ کی منظوری کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ کابینہ کے ارکان ان کے بریگزٹ منصوبے کی حمایت کررہے ہیں لیکن جمعرات کی صبح برطانوی کابینہ میں بغاوت کا آغاز ہوگیا اور بریگزٹ سیکرٹری ڈومینک راب کا استعفیٰ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا اور اس کے بعد مزید استعفیٰ آنے شروع ہوگئے۔ جس کے بعد صورت حال کو واضح کرنے کے لئے وزیراعظم تھریسا مے کو جمعرات کی شام پریس کانفرنس کرنا پڑی، جس میں انہوں نے اس دعویٰ کی نفی کی کہ وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس عمل کو مکمل کریں گی اور ایسا فیصلہ کریں گی، جو ملک اور اس کے عوام کے لئے بہتر ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو یورپین یونین سے اخراج کے پلان (بریگزٹ) کی کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم تھریسا مے کو کابینہ میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور جمعرات کی صبح ڈومینک راب کے مستعفی ہونے کے بعد ورک اینڈ پنشن سیکرٹری ایتھر میکو نے بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا۔ جس کے بعد جونیئر ناردرن آئر لینڈ منسٹر شیلش وارا، جونیئر بریگزٹ منسٹر سوٹلا بریومین، دو پارلیمنٹری پرائیویٹ سیکرٹریز اور دو دیگر معاونین نے بھی استعفیٰ دے دیا، ملک کی ناہموار سیاسی صورت حال کا اثر ملک کی معیشت پر بھی پڑا ہے، جس سے پائونڈ کی قدر میں کمی کے علاوہ سٹاف ایکسچینج بھی مندی کا شکار رہا۔ قبل ازیں وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اراکین پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا۔ جہاں ان کا کہنا تھا کہ برطانوی عوام ہمارے ساتھ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد نمٹے جبکہ اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے بریگزٹ کے حوالے سے ڈیل کرنا مناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت خود اپنی متعین کردہ حدود کو عبور کررہی ہے۔ یورپی یونین کے مذاکرات کرنے والے مرکزی کردار میثل بارنیے نے کہا تھا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے معاہدے میں فیصلہ کن پیش رفت ممکن ہے جبکہ بیک بینچر جیکب ریس موگ نے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا لیٹر بھی سر گراہم بریڈی کے حوالے کردیا ہے۔ تحریک عدم کے حوالے سے ووٹنگ اسی صورت میں ممکن ہوگی جب ایسے 48خطوط پیش کئے جائیں گے جبکہ ابھی ایسی صورتحال نہیں ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران تھریسا مے نے اس بات کا اقرار کیا کہ معاہدے میں چند مشکل فیصلے بھی کرنے پڑے ہیں۔

تازہ ترین