• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طاہرداوڑ کا قتل، سیکورٹی صورتحال پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں میزبان نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت یا وزیراعظم فواد چوہدری کے ساتھ کھڑے ہیں ،ایس پی طاہرداوڑ کے قتل کے حوالے سے سیکورٹی صورتحال پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں، وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے کہا کہ جو اداروں سے انفارمیشن آتی ہے ہم وہی کنفرم کردیتے ہیں۔پروگرام میں سنیئر تجزیہ کار سلیم صافی اور تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر شبلی فراز نے بھی اظہار خیال کیا۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کا قتل کیا کسی دہشت گرد تنظیم نے کیا یا پھر کوئی اور ملوث ہے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اغوا ہونا پھر افغانستان منتقلی قتل اور پھر افغان حکام کا رویہ یہ بتا رہا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم سے آگے کا معاملہ ہے کیا اس واقعہ میں کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں افغانستان کی خفیہ ایجنسی ملوث ہے یا دونوں ملوث ہیں کئی سوالات اٹھ گئے ہیں کیسے افغانستان سے دہشت گرد یا پھر افغان خفیہ ایجنسی کے اہلکار پاکستان آئے سیف سٹی اسلام آباد سے پولیس آفیسر کو اغوا کیا پھر پنجاب سے ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا گئے اس کے بعد افغان سرحد عبور کی پھر انہیں قتل کر دیا گیا یہ دہشت گرد اگر افغانستان سے پاکستان آئے کسی نے نہیں روکا اسلام آباد سے اغوا کیا پھر طاہر داوڑ کو افغانستان لے گئے پھر بھی کسی کی گرفتار میں نہیں آئے یہ حقائق سیکورٹی صورتحال پر سنگین سوالات اٹھا رہے ہیں اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پنجاب، اور خیبرپختونخوا حکومت کی ہے اس کے علاوہ میت حوالگی پر بھی تنازع سامنے آیا طاہر داوڑ کی میت لینے وزیر مملکت شہریار آفریدی، شوکت یوسفزئی، ڈپٹی کمشنراور دیگر حکام بارڈر پہنچے مگر افغان حکام نے میت حوالے کرنے سے انکار کر دیا انہوں نے اصرار کیا کہ طاہر داوڑ کی میت قبائلی نمائندوں کے حوالے کی جائے گی جس کے بعد محسن دواڑ تورخم بارڈر پہنچے مذاکرات میں حصہ لیا کامیاب مذاکرات کے بعد افغان حکام نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور قبائلی عمائدین کے حوالے کر دی۔ دو دن پہلے سوشل میڈیا پر ایس پی طاہر داوڑ کی لاش کی تصویریں سامنے آئیں تومکمل خاموشی دکھائی دی بلکہ اغوا کے دو دن بعد جب وائس آف امریکا نے وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے طاہر داوڑ کے اغوا کو ہی غلط قرار دے دیا اور بتا یا کہ وہ پشاور میں ہیں اورمحفوظ ہیں۔انہوں نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ اغوا کی خبرہی غلط ہے تو وزیراعظم کے ترجمان کو یہ بتایا گیا یا انہوں نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ اغوا کی خبرہی غلط ہے اور اب انہوں نے ٹوئٹ کیا ہے کہ یہ اُن کیلئے انتہائی حیران کن ہے اُن کا یہ بیان پولیس رپورٹ کی بنیاد پر تھا سینیٹ میں اس حوالے سے سوالات اٹھاتے رہے ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ وزارتِ خارجہ کا اس معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور خود وزارت ِ داخلہ بھی اس معاملے پر خاموش رہی۔ حکومت کی خاموشی پر بلاول بھٹو نے بھی تنقید کی پولیس افسر کیسے اسلام آباد سے اغوا ہوا اور افغانستان پہنچ گیا حکومت نے طاہر داوڑ کے واقعہ کو غیر سنجیدہ لیا حکومت کو یہ معاملہ افغان حکام سے اعلیٰ سطح پر اٹھانا چاہیے۔اغوا کے انیس دن اور قتل کے دو دن بعد وزیراعظم نے ٹوئٹ کیا کہ ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کے سانحہ کو سامنے رکھتے ہوئے پختونخوا حکومت کو اسلام آباد سے مل کر فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق طاہر داوڑ کا افغانستان میں قتل انتہائی قابل مذمت ہے افغان رویہ سے لگتا ہے یہ معاملہ صرف دہشت گرد تنظیم کا نہیں۔شہریار آفرید ی نے دعویٰ کیا کہ قاتل چاہے پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں ہوں ان کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا سینیٹ میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد میں اٹھارہ سو کے قریب کیمرے نصب کیے گئے ہیں اُن میں سے چھ سو سے زائد ناکارہ ہیں اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اپوزیشن نے وزیر مملکت برائے داخلہ کی رپورٹ کو مستر د کر دیا ہے کیمروں کے حوالے سے چیئرمین نیب نے نوٹس لے لیا ہے ۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری معافی مانگنے کو تیار نہیں اُن کا کہنا ہے کہ اُن پر جو پابندی عائد کی گئی ہے اس پر وفاقی کابینہ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے یعنی کے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ فواد چوہدری چاہے نیشنل اسمبلی ہو یا سینیٹ ہو اس میں جو اپوزیشن پر تنقید کرتے ہیں جس پر چیئرمین سینیٹ کہتے ہیں کہ ماحول خراب ہوتا ہے یا پھر جو اسپیکر نیشنل اسمبلی ہیں انہوں نے بھی ایک دفعہ فواد چوہدری کے الفاظ کے حوالے سے بات کی وہ سب کچھ فواد چوہدری وزیراعظم عمران خان کے آشیرباد سے کرتے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیاکہ اُن کے داخلے پر کیوں پابندی ہے مگر جمعرات کو خود صدرِ پاکستان نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت میں ہیں کوشش کرنی چاہیے حکومت چلے۔ دلچسپ بات یہ ہے فواد چوہدری سینیٹ چیئرمین کو برابری کا اصول اپنانے کا کہہ رہے ہیں جب کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر جو خود تحریک انصاف کے ہیں فواد چوہدری کو سخت زبان استعمال کرنے سے منع کرتے رہے ہیں اور پھر بعد میں فواد چوہدری کو معافی بھی مانگنا پڑی جمعرات کو کابینہ کا اجلاس ہوا اس سے واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ حکومت یا وزیراعظم فواد چوہدری کے ساتھ کھڑے ہیں ۔اب تحریک انصاف کو اُسی چیئرمین سینیٹ پر اعتراض ہے جنہیں باقاعدہ طور پر عددی اسٹرنتھ نہ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر بنایا تھا اور ن لیگ کا چیئرمین سینیٹ نہیں بنے دیا گیا تھا اور اب فواد چوہدری کہہ رہے ہیں کہ وہ عوام کو ریپرزنٹ نہیں کرتے ہم ریپرزنٹ کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے کہا کہ اٹھائیس اکتوبر کو میں نے انٹرویو دیا تھا طاہرداوڑ خیبرپختونخوا کے تھے اسلام آباد چھٹیوں پر آئے ہوئے تھے جو انہوں نے پیغام چھوڑا تھا فیملی کے لئے کہ میں خیریت سے ہوں اس بنیاد پر پولیس نے کہا اور میری رسورس پولیس تھی میں نے بتا دیا ۔

تازہ ترین