• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈیا میں آنے کے بارے میں سوچا تک نہ تھا، منیب فاروق

بات چیت :رئوف ظفر،لاہور

عکّاسی :عارف نجمی

جیو نیوز کے معروف ٹاک شو، ’’آپس کی بات‘‘ کے37سالہ میزبان، منیب فاروق کا شمار مُلک کے قابل اور باصلاحیت اینکر پرسنز میں ہوتا ہے۔ اپنے چُبھتے ہوئے سوالات اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنے کی وجہ سے معروف، منیب فاروق قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت کے شعبے سے منسلک ہونے کے خواہش مند تھے، لیکن قسمت انہیں الیکٹرانک میڈیا کی طرف لے آئی اور پھر انہوں نے اپنی محنت کی بہ دولت مختصر سےعرصے میں خُوب نام کمایا۔ گزشتہ دنوں ہماری منیب فاروق سے ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس میں اُن کے ابتدائی حالاتِ زیست ، ذاتی زندگی اور مُلک کی موجودہ صورتِ حال سمیت دیگر امور پربات چیت ہوئی۔ یہ دِل چسپ گفتگو نذرِ قارئین ہے۔

میڈیا میں آنے کے بارے میں سوچا تک نہ تھا، منیب فاروق
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س :اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں۔

ج :میرا تعلق ضلع، چکوال کے درگئی راجگان نامی گائوں سے ہے۔6بہن، بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر بَھر کی آنکھ کا تارا تھا۔ گرچہ عموماً لاڈلے بچّے شرارتی، لاپروا اور کھلنڈرے ہوتے ہیں، لیکن میرا مزاج مختلف تھا اور اس کا ایک سبب شاید یہ بھی تھا کہ مُجھے کم عُمری ہی میں بہت سی چیزوں کا ادراک ہو گیا تھا، جس نے مُجھے ہوش مند بنا دیا۔ گھر والوں کے لاڈ پیار کے باوجود چَھٹی، ساتویں جماعت ہی سے مُجھ میں پختگی آنا شروع ہو گئی تھی۔ ہر چند کہ والد پولیس سروس میں تھے، لیکن گھر کے ماحول میں کوئی سختی نہیں تھی۔

س :پس منظر دیہی ہونے کی وجہ سے شہر میں قیام میں دشواری تو محسوس ہوئی ہو گی؟

ج :بے شک مَیں دیہی ماحول میں پَلا بڑھا اور اپنے گائوں سے مجھے گہری اُنسیت ہے، لیکن جب 1998ء میں والد لاہور میں تعیّنات ہوئے، تو ہماری پوری فیملی یہیں منتقل ہو گئی اورہمیں شہر میں سیٹل ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

س :آپ کا شمار کیسے طلبہ میں ہوتا تھا؟

ج :اسکول کے زمانے میں، مَیں کوئی بہت زیادہ پڑھاکو یا لائق فائق طالب علم نہیں تھا، بلکہ امتحانات میں اپنے ہم جماعت طلبہ سے کم مارکس آنے پر بھی مُجھے کوئی پریشانی یا پشیمانی نہیں ہوتی تھی۔ تاہم، جب مَیں نے اے لیول میں داخلہ لیا، تو دِل میں سنجیدگی سے پڑھائی کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ مَیں نے اے لیول ہی سے قانون میں دِل چسپی لینا شروع کر دی تھی ۔ پھر جامعہ پنجاب سے ایل ایل بی کرنے کے بعد لندن سے قانون میں ماسٹرز کیا۔ انگلینڈ میں قیام کے دوران مُجھے عملی زندگی کی اہمیت کا احساس ہوا، جو تعلیمی زندگی سے قطعاً مختلف ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب مَیں2007ء کے آخر میں پاکستان واپس آیا اور وکالت شروع کرنے کا فیصلہ کیا، تواندازہ ہوا کہ اس شعبے میں قدم جمانے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔

س:میڈیا کی جانب کیسے راغب ہوئے؟

ج : مُجھے وکالت کے پیشے میں درپیش مشکلات کا اندازہ تو تھا، لیکن میڈیا میں آنے کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے سوچا تک نہ تھا۔ بس یوں سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا کر دیے۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ ایک روز جامعہ پنجاب کے ایک پروفیسر نے مجھ سے کہا کہ ’’لاہور سے ایک ٹی وی چینل کا آغاز ہو رہا ہے ، تم وہاں ضرور اپلائی کرو۔‘‘ نہ جانے انہوں نے کیا سوچ کر مُجھے یہ مشورہ دیا تھا، لیکن اُن کی اس تجویز نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ خوش قسمتی سے مَیں پہلے ہی آڈیشن میں کام یاب ہو گیا اور مُجھے اینکر پرسن کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ تاہم، ابتدا مَیں مُجھے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ مَیں میڈیا سے تا دیر وابستگی برقرار رکھ سکوں گا یا نہیں۔ کچھ عرصے بعد سینئر صحافی و تجزیہ کار، نجم سیٹھی بھی اس چینل سے وابستہ ہو گئے اور اپنے پروگرام کی میزبانی کے لیے اُن کی نظرِ انتخاب مجھ پر پڑی۔ جب انہوں نے اینکر کے طور پر مُجھے منتخب کیا، تو بہت سے افراد نے یہ کہہ کر میری حوصلہ شکنی کی کوشش کی کہ ’’اتنی بڑی شخصیت کے پروگرام کی میزبانی سے آپ کی شخصیت بالکل دَب کر رہ جائے گی۔‘‘ چُوں کہ میرا بہ طور اینکر پرسن یہ پہلا پروگرام تھا، لہٰذا مَیں سبھی کو یہی جواب دیتا کہ ’’مَیں نے تو ابھی کچھ حاصل ہی نہیں کیا، تو کھونے کا کیا خوف؟‘‘ تاہم، مَیں نے خُوب محنت کی اور پھر اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شاملِ حال رہی۔ سو، میری اور نجم سیٹھی صاحب کی کیمسٹری مَیچ کر گئی اور یہ پروگرام کام یاب ہو گیا۔ خیال رہے کہ یہ مُلکی سیاست پر اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام تھا۔ بعد ازاں، 2010ء میں ہم ’’جیو نیوز‘‘ سے منسلک ہو گئے اور یہاں ہمارا پروگرام پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہوا۔ یوں سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت ڈال دی۔ ابتدائی تین، چار برس تک اس پروگرام کی مقبولیت عروج پر تھی، لیکن پھر نجم سیٹھی صاحب کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا۔ وہ پہلے پنجاب کے نگراں وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے اور پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تعیّنات ہو گئے۔ نتیجتاً اُن کے لیے اس پروگرام کو وقت دینا تقریباً نا ممکن ہو گیا، جس کی وجہ سے پروگرام کی ویور شِپ گھٹ گئی۔ سیٹھی صاحب کے جانے کے بعد مُجھے تنہا ’’آپس کی بات‘‘ چلانے کی ذمّے داری سونپی گئی، جو میرے لیے کسی چیلنج سے کم نہ تھی۔ ابتدائی طور پر تین ماہ کے لیے یہ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تب مَیں عُمرے پر تھا اور مَیں نے خانۂ کعبہ میںخاص طور پر یہ دُعا کی کہ ’’اللہ تعالیٰ مُجھے اس نئی ذمّے داری سے احسن انداز سے عُہدہ برآ ہونے کی ہمّت عطا فرما۔‘‘ ربِّ ذوالجلال نے میری یہ آرزو پوری کر دی اور میرا پروگرام نجم سیٹھی صاحب کی غیر موجودگی میں بھی کام یاب ہو گیا۔ تاہم، مَیں یہاں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میری کام یابی میں اصل ہاتھ نجم سیٹھی صاحب ہی کا ہے ۔وہ میرے لیے استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔وہ اکثرو بیش تر پروگرام میں مزاح کا عُنصر پیدا کر کے ایک خُشک موضوع کو دِل چسپ بنا دیا کرتے تھے اور بعض اوقات تو لطیفے بھی سُناتے تھے۔ یعنی وہ خوش گوار اور بے تکلفانہ انداز میں خار زارِ سیاست کے عقدے حل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ نیز، ہم بڑی سخت باتیں بھی ہلکے پھلکے انداز میں کر لیا کرتے تھے۔ نجم سیٹھی صاحب کے ساتھ میرا بہت شان دار وقت گزرا ۔ مَیں اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔

س :نجم سیٹھی کی ’’چڑیا‘‘ بہت مشہور ہوئی۔ اس بارے میں کچھ بتائیں۔

ج: دراصل،انہوں نے ایک پروگرام میں چڑیا کے حوالے سے کوئی بات کہی تھی اور چُوں کہ اُن دِنوں ’’آپس کی بات‘‘ کی مقبولیت عروج پر تھی، لہٰذا اُن کی چڑیا بھی مشہور ہو گئی۔اس کے علاوہ کوئی خاص بات نہیں تھی۔

س :بہ حیثیت اینکر پرسن پہلے پروگرام کے وقت کیا احساسات تھے؟

ج :سیٹھی صاحب کے ساتھ پروگرام کی میزبانی کسی چیلنج سے کم نہ تھی، لیکن اُن کی حوصلہ افزائی کے نتیجے ہی میں، مَیں تمام آزمایشوں پر پورا اُترا۔ انہوں نے مُجھے اُن تمام باریکیوں کے بارے میں بتایا، جنہیں ہم عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے اُس زمانے میں میڈیا پر اس قدر پابندیاں بھی عاید نہیں تھی، جتنی قدغنیں آج لاگو ہیں۔ بلاشُبہ، آج کے مقابلے میں 10برس قبل مُلک کے سیاسی حالات پر پروگرام کرنا زیادہ آسان تھا۔

س : پروگرام کے دوران پیش آنے والا کوئی ایسا واقعہ، جسے آپ آج تک نہ بُھول پائے ہوں؟

ج :ایک مرتبہ ایک لائیو پروگرام میں، مَیں نے لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر کو مدعو کیا تھا۔ میری ٹیم نے اُن سے کو آرڈی نیٹ کیا، لیکن پروگرام شروع ہونے سے 5منٹ پہلے ایک صاحب اسٹوڈیو میں آکر بیٹھ گئے۔ مَیں نے اپنی ٹیم سے پوچھا کہ ’’ یہ صاحب کون ہیں؟ مَیں نے تو لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر کو مدعو کیا تھا۔ میرے پاس اُن کی تصویر بھی ہے، جب کہ یہ صاحب تو اجنبی ہیں۔‘‘ پھر مَیں نے اُن سے اپنا تعارف کروانے کے لیے کہا، تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک وکیل ہیں اور جب میری ٹیم نے لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر کو کال کر کے پروگرام میں مدعو کیا، تو تب اُن کا فون ان کے پاس تھا اور وہ کال ریسیو کرنے کے بعد بار کے صدر کو مطلع کرنے کی بہ جائے خود ہمارے پروگرام میں آ گئے۔ بعد ازاں، ہم نے مجبوراً انہی کے ساتھ پروگرام کیا۔ یہ واقعہ میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ پھر ایک پروگرام کے بعد مُجھے خاصی خفّت بھی اُٹھانا پڑی۔وہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک پروگرام میں سیٹھی صاحب نے مُلک کی ایک بڑی سیاسی شخصیت کے بیٹے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا، تو پروگرام ختم ہونے کے بعد مُجھے اُس سیاسی شخصیت کی کال موصول ہوئی۔ انہوں نے پہلے خود ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ آپ نے ہمارے ساتھ بہت زیادتی کی۔‘‘ اور پھر اپنی اہلیہ کو فون تھما دیا ۔ وہ بھی گلے شکوے کرنے لگیں۔ سیٹھی صاحب میرے پاس ہی بیٹھے تھے اور ساری بات چیت سُن رہے تھے۔ انہوں نے فوراً سارا ملبہ مُجھ پر ڈال دیا اور ہنستے ہوئے کہا کہ ’’اصل میں یہ سب کچھ منیب کا کیا دھرا ہے۔‘‘ سیٹھی صاحب کی یہ بات سُن کر مَیں لا جواب ہو گیا۔ پھر انہوں نے مُجھے خاموش ہو جانے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’ آخر کسی ایک کو تو قربانی کا بکرا بننا ہی تھا۔‘‘ اسی طرح مَیں یہ بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتا کہ 2011ء میں ایم کیو ایم کی طرف سے ہمیں ’’یاجوج، ماجوج‘‘ کا لقب دیا گیا تھا۔

س :کس غیر مُلکی اینکر سے متاثر ہیں؟

ج :ایک اینکر ہونے کے ناتے مَیں غیر مُلکی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے ٹاک شوز باقاعدگی سے دیکھتا ہوں اور مُجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔ غیر مُلکی اینکرز میں سے مُجھے وولف بلٹزر اور ٹِم سیبسٹیان کا انداز بہت پسند ہے۔ مَیں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اگر کوئی اینکر کیمرے کے سامنے اداکاری کی کوشش کرتا ہے، تو ناظرین فوراً اُس کے تصنّع اور بناوٹ کو پکڑ لیتے ہیں۔ ویورز کی نظریں بہت تیز ہوتی ہیں ، وہ کسی کو بھی معاف نہیں کرتے۔ نیز، ایک اچّھے اینکر پرسن میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے ناظرین کا دِل بہلاتا رہتا ہے۔ لہٰذا، مَیں اپنے ٹاک شو میں مزاح کا عُنصر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تاکہ کشیدہ ماحول میں تھوڑی سی دیر کے لیے ناظرین کے چہرے پر ہنسی آ جائے۔ پھر سوال کرتے وقت ایک اینکر کو متجسّس بھی دکھائی دینا چاہیے اور پوری تیاری کے ساتھ اپنا پروگرام کرنا چاہیے۔

س: اب آپ اس مُلک کا بہت جانا پہچانا چہرہ ہیں۔ شُہرت ملنے پر مزاج، رویّے میں تبدیلی تو آئی ہو گی؟

ج : شُہرت نے مُجھے پہلے سے زیادہ سے منکسرالمزاج بنا دیا ہے۔ گھر اور دفتر سے باہر جب کوئی فرد مُجھے سلام کرتا ہے، میری خیریت دریافت کرتا ہے یا صرف میری طرف مسکرا کر ہی دیکھتا ہے، تو مَیں اس پر دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اندرونِ مُلک کے علاوہ بیرونِ مُلک موجود پاکستانی بھی میری عزّت افزائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ بیرونِ مُلک قیام کے دوران ایک مدّاح نے میری خُوب آئو بھگت کی۔ تاہم، مَیں اس بات پر پُختہ یقین رکھتا ہوں کہ عزّت اللہ تعالیٰ کی خصوصی دَین ہے اور مُجھے اپنے بڑے، بزرگوں نے بھی ہمیشہ یہی سمجھایا ہے کہ اگر اللہ نے آپ کو کوئی مقام و مرتبہ دیا ہے، تو عاجزی و انکساری اختیار کریں اور رعونت کو اپنے پاس پھٹکنے تک نہ دیں۔ بیش تر افراد عزّت و شُہرت ملنے پر متکبّر ہو جاتے ہیں اور یہ طرزِ عمل اللہ تعالیٰ کو قطعاً پسند نہیں۔ میری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ میری ذات سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور اگر میری وجہ سے کسی کی مشکل دُور ہو جاتی ہے، تو مَیں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے میری ٹیم کے ارکان بھی ایسی ہی طبیعت اور مزاج کے مالک ہیں اور مَیں نے اُن سے کہہ رکھا ہے کہ اگر ہمارے پروگرام کو پزیرائی ملتی ہے، تو اس میں سب برابر کے شریک ہیں، لیکن اگر یہ خدانہ خواستہ کبھی ہماری رسوائی کا باعث بنتا ہے، تو وہ بے شک ساری ذمّے داری مُجھ پر ڈال دیں۔ میں قبول کرنے پر تیار ہوں۔

س: لَو میرج کی یا ارینجڈ؟

ج: مَیں نے اپنے والدین کی مرضی سے شادی کی اور الحمد للہ میری ازدواجی زندگی بہت اچّھی گزر رہی ہے۔ مَیں گھر میں بیگم کی حُکم رانی پر یقین رکھتا ہوں ۔ویسے بھی ہر شریف آدمی اپنی بیوی سے ڈرتا ہے اور میرے خیال میں تو بیگم سے بنا کر رکھنے ہی میں عافیت ہے۔

س:کیا آپ کے بیوی، بچّے آپ کا پروگرام دیکھتے ہیں؟

ج: میرے دو بچّے ہیں۔ بڑا بیٹا، موسیٰ 9سال کا ہے اور بیٹی، رانیہ 6ماہ کی۔ بیٹا ٹی وی دیکھتا ہے اور اُسے معلوم ہے کہ مَیں ایک اینکر ہوں۔ میری اہلیہ ڈاکٹر ہیں اور جب بھی انہیں وقت ملتا ہے، تو وہ نہ صرف میرا پروگرام دیکھتی ہیں، بلکہ اپنا فیڈ بیک بھی دیتی ہیں اور تنقید بھی کرتی ہیں۔

س :زندگی کا کوئی انتہائی تکلیف دہ واقعہ؟

ج :میرا ایک بیٹا پونے دو برس کی عُمر میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اُس نے چھوٹی سی عُمر میں بڑی تکالیف دیکھیں ۔ اس کی جدائی کی خلش آج بھی میرے دل میں ہے۔ اپنے کم سِن بیٹھے کا جنازہ اُٹھانا ، اُسے لحد میں اتارناآسان بات نہیں اور یہ میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ واقعہ ہے، جسے مَیں کبھی نہیں بُھول سکتا۔

س :کیا والدین آپ کی کام یابی سے مطمئن ہیں؟

ج :مَیں اپنے والد کو مکمل طور پر مطمئن نہیں کر پایا۔ کتاب لکھنے کے علاوہ اُن کی بعض دیگر توقّعات بھی مجھ سے وابستہ ہیں، جنہیں مَیں چاہتے ہوئے بھی پورا نہیں کر پاتا۔

س :گھر سے نکلتے وقت کون سی تین اشیا ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں؟

ج :پرس، موبائل فون اور لیپ ٹاپ۔ مزید برآں، مَیں والدہ کو مِلے بغیر گھر سے نہیں نکلتا اور واپسی پر بھی سب سے پہلے والدہ کے کمرے میں جاکر انہیں سلام کرتا ہوں۔

س :کوئی ایسا دوست کہ جس کی دوستی پر فخر محسوس کرتے ہوں؟

ج: میرا حلقۂ احباب خاصا محدود ہے ۔ تین، چار ہی قریبی دوست ہیں، البتہ یونی ورسٹی کے زمانے کے ایک دوست، عثمان کی دوستی پر ناز ہے اور مجھے امید ہے کہ وہی کڑے وقتوں میں میرے کام آئے گا۔

س :اگر آپ کو اچانک پتا چلے کہ آپ کی زندگی کے صرف 24گھنٹے باقی ہیں، تو آپ کون کون سے کام سر انجام دیں گے؟

ج:مَیں اپنے والدین اور بیوی، بچّوں کی کفالت کا مستقل بندوبست کروں گا، تاکہ میرے بعد انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ نیز، مَیں یہ یاد کرنے کی کوشش کروں گا کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر میری وجہ سے کسی کی دل آزاری تو نہیں ہوئی اور یاد آنے پر اس فرد سے فوراً معافی مانگوں گا۔

س :مشہور مقولہ ہے کہ ’’ہر کام یاب مَرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔‘‘ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟

ج: جی، ایسا ہی ہے، بلکہ مَیں تو اس بات کا بھی قائل ہوں کہ اولاد کی کام یابی میں ماں کی دعائوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، جب کہ شادی کے بعد ملنے والی کام رانی میں بیوی کا ہاتھ بھی ہوتا ہے، جو گھر کا نظام بہ حسن و خُوبی چلاتی ہے۔

س :میڈیا کی آزادی کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں یا منفی؟

ج: مُجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ میڈیا کی آزادی کے نتیجے میں ہمارے مُلک میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی، جب کہ اس وقت تو میڈیا اپنی آزادی بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پہلے ہم ریڈ لائنز کے قریب پہنچ جاتے تھے، لیکن اب تو سُرخ لکیر تک پہنچے سے کافی پہلے ہی پیلی لکیر آ جاتی ہے کہ آپ ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتے۔

س: اہلِ خانہ کو آپ کی کون سی عادت نا پسند ہے؟

ج :گھر میں موبائل فون پر بات کرنا اور ٹی وی دیکھنا۔ مَیں جب بھی ان دونوں میں سے کوئی ایک کام کرنے لگتا ہوں، تو میرا بیٹا فوراً کہتا ہے کہ ’’ آپ صرف میری باتیں سُنیں۔ آپ یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہی تو گھر آتے ہیں۔‘‘ ویسے میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ آپ اپنی اولاد کو جو سب سے قیمتی چیز دے سکتے ہیں، وہ وقت ہے۔ عام دِنوں میں جب مَیں دفتر سے گھر آتا ہوں، تو بیٹا سو چُکا ہوتا ہے، لیکن مَیں پوری کوشش کرتا ہوں کہ اپنا فارغ وقت فیملی کے ساتھ ہی گزاروں۔

س:آپ کی صبح کب ہوتی ہے؟

ج : مَیں صبح سویرے بیدار ہو جاتا ہوں کہ مُجھے 7بجے بیٹے کو اسکول چھوڑنے جانا ہوتا ہے۔

س: زندگی کی پہلی کمائی کتنی تھی اور کیسے خرچ کی؟

ج: مَیں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ میری زندگی کی پہلی کمائی ہی اچّھی خاصی تھی، جو 2008ء میں ایک ٹی وی چینل سے ملنے والا ایک لاکھ روپے کا چیک تھی۔ تب میری شادی نہیں ہوئی تھی اور مُجھے یاد ہے کہ پہلی تن خواہ سے مَیں نے والدہ کے کمرے کے لیے ٹی وی اور گھر کا دیگر سامان خریدا تھا۔

س :زندگی کا کون سا دَور سب سے حسین لگتا ہے؟

ج: یوں تو زندگی کا ہر دَور ہی حسین ہوتا ہے، لیکن نوجوانی کا زمانہ اس لیے زیادہ اچّھا لگتا ہے کہ اس میں بے فکری ہوتی ہے اور آپ اس وقت اپنی زندگی سے خُوب لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مَیں نے اپنی نوجوانی کا بیش تر حصّہ انگلینڈ میں گزارا اوراس عرصے میں بہت کچھ سیکھا۔

س :اگر آپ اینکر نہ ہوتے تو …؟

ج: قانون دان ہوتا۔

س :عشق و محبّت کا زندگی میں کس حد تک عمل دخل ہے، کیا کبھی کسی سے عشق کیا؟

ج: چُوں کہ مَیں وقت سے پہلے ہی ذہنی طور پر پُختہ ہو گیا تھا، لہٰذا عاشقی معشوقی کے لیے وقت ہی نہیں ملا۔ یوں کہیں کہ لڑکپن ہی میں کیریئر بنانے کے جھنجھٹ میں پڑ گیا تھا اور پھر شادی بھی والدین ہی کی مرضی سے کی، جو الحمدللہ بہت کام یاب ثابت ہوئی، لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ آپ کے اندر خُوب صُورتی کو سراہنے کا جذبہ ضرور موجود ہونا چاہیے اور ویسے بھی کسی کو پسند کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ محبّت اور لگائو جیسے فطری جذبات تو ہر انسان ہی میں موجود ہوتے ہیں۔

س :کام یاب زندگی گزارنے کا سنہرا اصول کیا ہے؟

ج :دیکھیں، آپ ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتے، لیکن اچّھی نیّت کے ساتھ دوسروں کی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں اور یہی آپ کی کام یابی ہے۔ صرف اپنے لیے جینا، جینا نہیں ہوتا۔ آپ کی زندگی سے دوسروں کو فیض پہنچنا چاہیے۔ سب سے پہلے آپ اپنے اہلِ خانہ کو خوش رکھیں، پھر عزیز و اقارب اور پھر اپنے ملنے جُلنے والوں کو۔ اسی طرح ہی آپ ایک با مقصد اور بھرپور زندگی گزار سکتے ہیں۔ بعض افراد کروڑوں، اربوں کا مالک ہونے کے باوجود دوسروں پر ایک روپیا تک خرچ نہیں کرتے۔ مَیں ایسی بے فیض اور خود غرض زندگی کے حق میں نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مُجھے توفیق دی ہے اور مَیں اپنا مال دوسروں پر خرچ کرتا ہوں، جس سے نہ صرف مُجھے دِلی طمانیت ملتی ہے، بلکہ اگر کوئی سائل میرے پاس آتا ہے، تو مَیں اللہ کا شُکر ادا کرتا ہوں۔ مَیں اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال سے دوسروں کو دیتا ہوں اور میرا رب میرے مال میں برکت ڈال دیتا ہے۔

س :شادی سے پہلے کی زندگی اچّھی ہوتی ہے یا بعد کی؟

ج : پہلے کی، کیوں کہ تب سَر پہ ذمّے داریاں نہیں ہوتیں۔

س : غُصّہ کب آتا ہے؟

ج: جب کوئی میری نیّت پر شک کرے۔

س :محبّت، دولت اور شُہرت میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے، تو کسے چُنیں گے؟

ج :میرے خیال میں اگر آپ کے پاس دولت موجود نہیں، تو محبّت اور شُہرت بھی کسی کام کی نہیں۔

س :پریشانی سے نجات کے لیے کیا کرتے ہیں؟

ج :عام طور پرنماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتا ہوں اور اگر کوئی بڑی پریشانی ہو، تو اسے اہلیہ سے بھی شیئر کرتا ہوں۔ والدین کو اس لیے نہیں بتاتا کہ وہ بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔

س :اگر کوئی اہم عُہدہ مل جائے، تو سب سے پہلا کام کیا کریں گے؟

ج :مَیں کسی عُہدے میں دِل چسپی نہیں رکھتا اور پھر ویسے بھی ہمارے ہاں اگر کوئی شریف آدمی کسی اہم عُہدے پر فائز ہو جائے، تو اس کا جینا دُو بَھر ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں سیٹھی صاحب کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ مَیں جو کام کر رہا ہوں، اللہ اسی میں برکت ڈال دے، تو یہی کافی ہے۔

س :زندگی کا یادگار لمحہ؟

ج: بچپن میں والد صاحب اکثر مُجھ سے کہا کرتے تھے کہ ’’ بیٹا! تم کوئی ایسا کرنا کہ جو ہمارے خاندان میں پہلے کبھی کسی نے نہ کیا ہو یا اس کی وجہ سے لوگ مُجھے تمہارے نام سے پہچانیں۔‘‘اور جس روز اُن کی یہ خواہش پوری ہوئی، تو وہ میری زندگی کا یادگار ترین لمحہ تھا۔ گرچہ بہت سے افراد کو میری کام یابی ہضم نہیں ہو رہی، لیکن مَیں انہیں ہدفِ تنقید بنانے کی بہ جائے اپنے کام سے انہیں جواب دے رہا ہوں، کیوں کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک سے اُلجھنا، لڑنا ضروری نہیں۔ بس، آپ خوفِ خدا دِل میں لیے خاموشی سے اپنا کام کرتے رہیں۔

س :آپ کا ستارہ کون سا ہے ، کیا سال گرہ مناتے ہیں؟

ج :میرا بُرج سرطان ہے اور مَیں جنم دِن ضرور مناتا ہوں، مگرزیادہ اہتمام بیوی، بچّے کرتے ہیں۔

س :موسیقی سے لگائو ہے؟

ج :صرف گاڑی میں میوزک سُنتا ہوں۔

س :پہلی بار سینما میں فلم کب دیکھی؟

ج: 2003ء میں انگلینڈ میں قیام کے دوران۔

س :ایک دُعا، جو ہمیشہ لبوں پہ رہتی ہے؟

ج :مَیں ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ مُجھے دوسروں کے لیے مفید بنا دے۔

س:اپنی زندگی سے مطمئن ہیں؟

ج: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ نے مُجھے بہت نوازا ہے، بلکہ مَیں تو شاید ان نعمتوں کے قابل بھی نہ تھا اور نہ ہی کبھی ان کے بارے میں سوچا تھا۔

س :پاکستان میں ایک عام آدمی کے لیے حصولِ انصاف کسی خواب سے کم نہیں۔ آپ ایک قانون دان بھی ہیں، تو مُلک میں انصاف کی بر وقت فراہمی کیسے یقینی بنائی جا سکتی ہے؟

ج :بِلاشُبہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور انصاف کی بروقت فراہمی ہی کسی مُلک کی خوش حالی و استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ قانون کا ایک ادنیٰ طالبِ علم ہونے کے ناتے میری رائے یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے مُلک میں وسیع پیمانے پر انقلابی قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس عمل میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس جج صاحبان، بار کے نمایندگان، قانونی ماہرین اور دانش وَروں کی مشاورت ضرور شامل ہونی چاہیے۔ یہاں لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مَر جاتے ہیں، لیکن انہیں انصاف نہیں ملتا اور ظلم کا شکار بے چارا غریب تو وکلا کی فیس ادا کرنے اور کورٹ کچہریوں کے چکر لگانے کی سکت ہی نہیں رکھتا، جو ہمارے عدالتی نظام پر ایک بدنما داغ ہے۔ پھر مقدّمات کی تعداد کے اعتبار سے ہمارے ہاں عدالتوں اور ججز کی تعداد بھی کم ہے۔ عدالتی اصلاحات کرتے وقت ان تمام امور کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ حال ہی میں شام کے وقت فیملی کورٹس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو ایک مستحسن اقدام ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی ججز کی کمی بھی پوری کی جانی چاہیے اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے زیرِ التوا مقدّمات کو نمٹانا چاہیے۔ اسی طرح پنچایتی اور مصالحتی عدالتوں کے قیام سے، عدالتوں سے معمولی نوعیت کے جھگڑوں اور لین دین کے مقدّمات کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔سو، ہمیں پنچایتی نظام کو مربوط و منظّم کرنا چاہیے۔

س: کیا چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار کی مساعی سے عدالتی نظام کی بہتری کی کوئی امید ہے؟

ج :چیف جسٹس ، جسٹس میاں ثاقب نثار میرے لیے قابلِ صد احترام ہیں۔ گرچہ اُن کی کاوشیں خلوصِ نیّت پر مبنی ہیں، لیکن یہ اُن کے منصب کے شایانِ شان نہیں۔ عدالتی فعالیت اور سوموٹو ہر مُلک میں ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں یہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ اگر چیف جسٹس آف پاکستان خود اسپتالوں کے دورے اور دیگر معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں عدالتوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ مَیں بہ صد احترام یہ عرض کروں گا کہ اگر معزز چیف جسٹس آف پاکستان اس کی بہ جائے عدالتی نظام اور حصولِ انصاف کے لائحہ عمل میں کوئی بہتری لے آئیں، تو عوام انہیں مدّتوں یاد رکھیں گے۔ اس وقت ایک عام سائل کو انصاف کی بروقت فراہمی ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔ آپ ماتحت عدالتوں کے مناظر جا کر دیکھیں، تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہاں قیامتِ صغریٰ برپا ہوتی ہے۔ اس وقت ہماری عدالتوں میں لاکھوں مقدّمات زیرِ التوا ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کو فوری طور پر عدالتی اصلاحات پر توجّہ دینی چاہیے اور اپنی تمام تر توانائیاں اس پر صَرف کرنی چاہئیں، کیوں کہ انصاف کی جلد از جلد فراہمی ہی سے مُلک میں تبدیلی آئے گی۔

س :آج ہمارے مُلک میں کرپشن کی داستانیں زبان زدِ عام ہیں۔ آخر بد عنوانی کا سدّ باب کیسے ممکن ہے؟

ج :کرپشن ہر مُلک میں ہوتی ہے۔ ہمارے پڑوسی مُلک، بھارت میں ہم سے زیادہ بدعنوانی ہے۔ حتیٰ کہ بہار سمیت کئی دوسری ریاستوں میں ’’اغوا برائے تاوان‘‘ باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کر چُکی ہے۔ تاہم، ہمارے مُلک میں اس کا ضرورت سے زیادہ چرچا کیا جا رہا ہے، جب کہ کرپٹ عناصر کے احتساب کا عمل سُست روی کا شکار ہے۔ دوسری جانب کئی ممالک کی حکومتوں نے اپنے شہریوں کی بیرونِ مُلک موجود دولت واپس لانے میں کام یابی حاصل کر لی ہے۔ یعنی اگر نیّت صاف ہو، تو قانون کے اندر رہتے ہوئے لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لائی جا سکتی ہے اور اسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ہمارے حُکم ران باتیں کم اور کام زیادہ کریں، تو کرپشن بھی ختم ہو سکتی ہے۔ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالا جائے، تو نچلی سطح پر کرپشن خود بہ خود ختم ہو جائے گی۔ تاہم، کرپشن جیسے ناسور کا خاتمہ آپریشن ہی سے ممکن ہے، پین کلر سے نہیں۔

س :پاکستان کی سیاست کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: کسی بھی مُلک میں سیاست تبھی پَھلتی پُھولتی ہے کہ جب اس کے شہری با شعور ہوں اور حقیقی معنوں میں اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال جانتے ہوں، لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ابھی تک یہ شعور پنپ ہی نہیں سکا۔ پھر ہمارے ہاں سیاست دانوں کو گالی دینا بھی ایک فیشن بن چُکا ہے۔ جب تک تعلیم یافتہ اور سنجیدہ طبقہ سیاست میں نہیں آتا، مُلک کی سیاسی صورتِ حال تبدیل نہیں ہو گی۔

س :کیا یہ بات دُرست ہے کہ سیاست دان ووٹ چھین کر اقتدار میں آتے ہیں؟

ج :سارے سیاست دان ایسے نہیں ہیں اور جوں جوں ہمارا انتخابی نظام بہتر ہوتا جا رہا ہے، ویسے ویسے ایسے سیاسی رہنمائوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے اور میڈیا کا اثر و رسوخ بڑھنے سے مزید بہتری واقع ہو گی۔ اگر مستقبل میں مزید انتخابی اصلاحات کی جاتی ہیں، تو اس سے جمہوریت کو تقویّت ملے گی۔ مَیں اس بات کے حق میں ہوں کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریّت سے بہتر ہے۔ سیاست دانوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے، لیکن احتساب کے نام پر حکومتوں کا تختہ نہیں اُلٹنا چاہیے۔ بھارت میں بھی کرپشن عروج پر ہے، لیکن وہاں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی غیر مُلکی سرمایہ کار بے یقینی کا شکار ہیں، جب کہ ہمارے ہاں تو حکومت قائم ہوتے ہی اپوزیشن اسے گرانے کی کوششیں شروع کر دیتی ہے، جو پانچ برس تک جاری رہتی ہیں اور اس کے نتیجے میں پورے مُلک پر غیر یقینی کی فضا طاری رہتی ہے۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ حکومت کو اپنی مدّت پوری کرنی چاہیے، تاکہ وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اگلا انتخاب لڑسکے۔ ورنہ اس کے پاس یہ بہانہ ہوتا ہے کہ اسے تو کام ہی نہیں کرنے دیا گیا اور اگر کام کرنے دیا جاتا، تو مُلک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔

س :کیا پاکستان ایک جدید فلاحی ریاست بن سکتا ہے؟

ج :اگر ہمیں پاکستان کو جدید فلاحی ریاست بنانا ہے، تو اس مقصد کے لیے انصاف کی بر وقت فراہمی، گُڈ گورنینس اور جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے اور ان تمام کاموں کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔

س :موجودہ حکومت کی ابتدائی تین ماہ کی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج: دراصل، پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے سے پہلے ہی عوام کی توقّعات کا گراف اتنا بلند کر دیا تھا کہ اب اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عوام نے نئی حکومت کے آتے ہی پہلی تبدیلی مہنگائی کی شکل میں دیکھی اور اب انہیں اپنے تمام خواب چکنا چُور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔نیز، اب حکومت کے قول و فعل کا تضاد کُھل کر سامنے آ رہا ہے۔ حُکم ران کرپشن کی گردان کرتے نہیں تھکتے، لیکن لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر عوام کو ریلیف دینے کی بات نہیں کرتے۔ بہرحال، حکومت کو اپنی مدّت پوری کرنی چاہیے۔

تازہ ترین