• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد سجاد رضوی…ہیلی فیکس
ایک بار پھر میلاد النبی ﷺ کا موسم روحانی فرحت و راحت اور باطنی رونق کا سامان لیے جلوہ گرہے۔ گلی کوچوں کی صفائی اور تزیین و آرائش زوروں پہ ہے۔ جھنڈیاں لگائی جارہی ہیں جھنڈے لہرائے جارہے ہیں علماء و نعت خواں حضرات تو دو دو مہینے پہلے سے "بک" کر لئے گئے ہیں۔ جوں جوں 12ربیع الاول قریب آرہا ہے جلسے جلوس اور پروگرام عروج پا رہے ہیں۔ قوم میں بیداری کی لہر اٹھتی دکھائی دیتی ہے۔ انفرادی تیاریوں سے لے کر اجتماعی محافل تک خوب سماں بندھا ہے۔ شاید اس میں زیادہ تعجب نہ ہو کہ میلاد ہو یا یوم آزادی،ہمارا جشن کا سامان چائنہ تیار کرتا ہے۔ موبائل جس سے ہم آن ائر جاتے ہیں غیر مسلم ممالک سے "امپورٹڈ " ہیں۔ جس سپیکر پہ ہم وعظ و نصیحت کرتے اور نعتیہ کلام پڑھ کر عوام سے داد لیتے اور عشق کے "بھانبڑ" بلند کرتے ہیں وہ جاپان کا بنا ہواہے اور تو اور ' ہماری گھریلو چیزوں سے لے کر مسجد و کالج تک کی ضروریات و سہولیات کی اکثر چیزیں ان لوگوں اور ملکوں کی ہیں جن کی زباں پر کلمۂ توحید نہیں ، کچھ مزید آگے بڑھیے، ہمارے بچے انگلش سکول میں پڑھنا چاہتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں معیار نہیں ہم محبت رسول ﷺ کے نعرے اس قدر بلند لگاتے ہیں کہ درو دیوار کانپ اٹھیں مگر بچے کو عالم دین نہیں بنانا چاہتے کہ اس کا کوئی سٹیٹس نہیں، ' وقار نہیں ' اس شعبے میں مال نہیں ہمارے دہرے رویوں کی کہانی اس قدر پیچیدہ ہے کہ رب سےہم کلام ہونے کیلئے جس امام کو فوقیت دے کر نماز میں اپنا لیڈر مانتے ہیں اسے ہی محکوم ' ملازم اور کمتر یقین کرتے ہیں جس سیاستدان کو ہم جھوٹا ' فراڈیا اور مکار قرار دیتے ہیں اسے محفل نعت میں مہمانِ خصوصی اور صدر مجلس بنا دیتے ہیں جس نعت خواں سےعشق پھیلانے کیلئے معاشی معاملات طے کرنے کے بعدمہنگا اور نخریلا ہونے کی داستانیں سناتے ہیں اسے ہی پکا عاشق رسول ﷺ اور محبتوں کا پیامبر بنا کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ کیفیت صرف عوام اور دنیاداروں کی حد تک ہوتی تو ایک آس رہتی کہ علمائے کرام اپنی محنت اور دینی لگن سے تبدیلی لے آئیں گے مگر ہائے افسوس کہ یہ طبقہ بھی تفرقہ بازی اور فتوی سازی کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کی نت نئی راہیں تلاشنے میں اس قدر مصروف ہے کہ (معذرت کے ساتھ) احبار و رہبان کی طرح قران و سنت سے من پسند باتیں لے کر کام چلا رہا ہے۔ طبیعت ایسی نازک پائی ہے کہ اس کا عیب بیان کرو تو دین کی توہین قرار دیتا ہے غلط کام خود کرتا ہے اور جب اس پر سوال کیا جائے تو دین کو آڑ بنا کر مسئلہ کا رخ موڑ دینے پر مہارت رکھتا ہے سبھی نہیں مگر اکثر اس ڈگر پر ہیں۔ جب کوئی قوم اپنے دینی نظریات کو استحکام ملت کی بجائے ' مفادات ذاتیہ کیلئے استعمال کرنا شروع کر دے تو زوال لازم ہے اور قران مجید کے اندر اقوامِ سابقہ کے قصے بیان کرنے کے بعد رب تعالیٰ نے اسی نتیجے سے ہمیں آگاہ فرمایا ہے بہرحال بحیثیت قوم ہم تنزل و تشتت کا شکار، علم سے آوارہ، رسوم و رواج کے دلدادہ اور اسلاف کے کارناموں پر فقط نازاں، ایک نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں ہیں قران مجید نے اس امت کو "خیر امم" ( تمام امتوں میں سے بہترین امت) قرار دیا ہے، اس کے اوصاف کھول کھول کر بیان کئے ہیں اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کا تعین لاریب کتاب کے اندر کر دیا ہے۔ افسوس کہ ہم قران نہیں پڑھتے مگر صاحب قران کے عاشق ہونے کا دعویٰ زور و شور سے کرتے ہیںہم سیرتِ مصطفیٰ کریمﷺ کا مطالعہ کبھی نہیں کرتے مگر "اجرت پر لائے ہوئے مذہبی آرٹسٹوں " سے خیرات محبت کیلئے بیتاب ہیں۔ علمی، صنعتی، معاشی اور سیاسی میدان میں ہم پلہ ملکوں سے بھی کئی درجہ نیچے مگر دنیا کی قیادت کے خواب دیکھتے تھکتے نہیں ۔سن لو! اگر دنیا کی قیادت کرنی ہے تو تاجدار انبیاء ﷺ کی حقیقی غلامی میں آنا ہوگا ورنہ سب وہم و خیال اور رسم و رواج ہے۔
تازہ ترین