آپ اتفاق کریں یا نہ کریں، ’’ جہالت‘‘ انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے اور جہالت محض علم سے دُوری یا تعلیم کے فقدان کا نام نہیں، یہ دراصل ایک داخلی کیفیت ہے، جو انسان کے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص بھی اپنے رویّے اور کردار سے جہالت کا مظاہرہ کرسکتا ہے، اسی طرح ایک ناخونداہ فرد جسے ہم اور آپ’’جاہل‘‘ کہیں گے، اپنے اعلیٰ ترین اخلاقی اور تہذیبی رویّے سے ہمیں متاثر کرسکتا ہے۔ جاہلانہ رویّے یا کردار کی مختلف شکلیں ہیں، جن کا ہم اپنے معاشرے میں ہر جگہ اور ہر موقعے پر مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہم ایک ایسے معاشرے کا حصّہ ہیں، جہاں تہذیبی رویّے دَم توڑ چکے ہیں۔ ’’آپ، جناب، حضور والا، محترم، قبلہ، جنابِ عالی‘‘ جیسے الفاظ اور تخاطب کا انداز ’’ابے، اوئے، تُو اور چل بے‘‘ میں بدل گئے ہیں۔ عوام النّاس تو ایک طرف، ہمارے رہنما، قائدین بھی’’ زبان دانی‘‘ کا یہی نمونہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
زندگی کے کسی نہ کسی حصّے میں ہمارا اور آپ کا کبھی نہ کبھی جاہلانہ رویّوں سے واسطہ ضرور پڑا ہوگا، لیکن سچّی بات یہ ہے کہ اس رویّے سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ حالاں کہ عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے رُوپ میں اللہ تعالیٰ کی خُوب صورت ترین تخلیق ہے، لیکن بیش تر کی زندگی بھی پُرتشدّد رویّوں کا سامنا کرتے ہی گزرتی ہے، جو جہالت کی پست ترین شکل ہے۔ مہذب ترین کہلائے جانے والے اور پس ماندہ، دونوں ہی معاشروں میں یہ مسئلہ موجود ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور کردہ ایک قرارداد کی روشنی میں 25نومبر کا دن، ’’خواتین پر تشدّد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ تاریخ’’ ڈومینکین ری پبلک‘‘ کی ان تین بہنوں کی یاد میں رکھی گئی، جو اپنے مُلک میں آمریت کے خلاف جدوجہد کے دوران قتل کردی گئی تھیں۔ یہ 25نومبر 1960ء کی بات ہے، لیکن ’’صنفی مساوات‘‘ پر یقین رکھنے والے طبقوں نے 1981ء سے اس دن کو باقاعدہ طور پر منانے کا آغاز کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی خواتین اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر تشدّد کا سامنا کرتی ہیں، لیکن حیرت انگیز اَمر یہ ہے کہ مہذب ممالک بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ عالمی اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین پر تشدّد کے حوالے سے روس سرِفہرست ہے۔ اس مُلک میں اگر مرد، خواتین پر تشدّد کرتےہیں، تو خواتین بھی ان کے مقابلے ہی پر ہیں۔ یہاں اپنے ساتھی مَردوں پر تشدّد کرنے، حتیٰ کہ قتل کرنے کے واقعات تک رونما ہوتے ہیں۔ رہا سوال ہمارے اپنے معاشرے کا، تو یہاں خواتین کو ہمیشہ سے مَردوں کے مقابلے میں کم تر حیثیت ہی کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ خود خواتین بھی نفسیاتی طور پر مَردوں کی بالادستی کی قائل ہیں۔ ایک ماں اپنے کمائو پوت کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی یا یوں کہیے کہ اس کی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور ہوتی ہے۔ یہی حال بہنوں کا ہے، بھائی اگر عُمر میں چھوٹا بھی ہے، تو بھی بھائی ہونے کے ناتے بہنوں پرحکم چلا سکتا ہے۔ ان کے آنے جانے، ملنے ملانے پر نگاہ رکھ سکتا ہے۔ شادی شدہ خواتین تسلیم کرتی ہیں کہ غلطی کی صورت میں ان کے شوہر ان کو ڈانٹنے، ڈپٹنے کے علاوہ ہاتھ بھی اٹھا سکتے ہیں، ہلکی پھلکی مار پیٹ کرسکتے ہیں اور صرف برّصغیر ہی میں نہیں، تمام مسلم معاشروں میں یہ سوچ عام ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مِصر کی ایک خاتون اینکر پرسن نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ ’’اگر بیویاں، شوہروں کے حقوق ادا نہ کریں، تو مَردوں کو ان کی جوتوں سے پٹائی کرنی چاہیے۔‘‘ اس رائے پر بہت لے، دے ہوئی۔ خواتین کی تنظیموں نے دنیا بھر میں اس پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا، لیکن خواتین کی اکثریت نے اس رائے کو غلط نہیں سمجھا۔ گرچہ اب یہ سوچ بھی دَم توڑ رہی ہے۔ شرح خواندگی میں اضافے، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی ترقّی سے خواتین میں یہ شعور پیدا ہوا ہے کہ وہ بھی معاشرے کا ایک باعزّت حصّہ ہیں، مَردوں کی بالا دستی، ایک حقیقت سہی، لیکن معاشرے کی ترقّی میں خواتین کا کردار بھی کسی طور کم نہیں۔ خواتین ہر شعبۂ زندگی میں اپنا مقام بنا رہی ہیں، اپنی حیثیت منوا رہی ہیں اور یہ ہر عورت کا حق ہے کہ اس کی عزّت کی جائے، اس کی رائے کا احترام ہو، اس کی معمولی غلطیوں کو نظرانداز کیا جائے، اسے محکوم یا حقیر نہ سمجھا جائے، اس کے انکار کو بھی انکار سمجھا جائے، اسے کسی خوف یا جبر کے بغیر زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے، ازدواجی تعلقات میں، بچّیوں کی شادی کے معاملات میں اس کی رائے بھی تسلیم کی جائے، لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ابھی تک شعور کی اس منزل تک نہیں پہنچا، جہاں خواتین کو یہ تمام حقوق دیئے جاسکیں۔ اس کی بنیادی وجہ معاشرتی رسم و رواج، قبائلی اور جاگیردارانہ نظام ہے۔ کسی حد تک شہری معاشرہ تبدیل ہوا ہے، لیکن دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی سے شہری معاشرت متاثر ہوئی ہے۔ شہری علاقوں میں جا بہ جا کچّی آبادیاں قائم ہیں، جن کا ماحول شہری زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہاں رہنے والے اپنے دیہی پس منظر سے پیچھا چھڑوانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ خواتین پر تشدّد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات عموماً ان ہی آبادیوں میں پیش آتے ہیں۔
گزشتہ برس ستمبر میں کراچی کے مضافاتی علاقے، ابراہیم حیدری کے علی بروہی گوٹھ میں ایک کم عُمر نوبیاہتا جوڑے کو، جس نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کی تھی، جرگے کے حکم پر کرنٹ لگا کر قتل کرکے ان کی لاشیں دفنا دی گئیں۔ اطلاع ملنے پر پولیس نے قبر کشائی کرکے لاشیں برآمد کیں، لاشوں پر تشدّد کے نشانات تھے۔ اس سے اگلے مہینے نومبر میں اورنگی ٹائون کے علاقے، مومن آباد میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جہاں ایک اور جوڑے کو جس نے پسند کی شادی کی تھی، جرگے کے فیصلے کے بعد قتل کرکے خاموشی سے تدفین کردی گئی۔ اس واردات میں مقتولین کے والد، بھائی اور دیگر رشتے دار شامل تھے۔ ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس نوع کے واقعات جہالت اور خود ساختہ قبائلی رسم و رواج ہی کے تحت پیش آتے ہیں اور یہ واقعات کسی ایک علاقے یا صوبے تک محدود نہیں۔
ہم میں سے بیش تر اس مغالطے کا شکار ہیں کہ خواتین کے ساتھ مارپیٹ، بدسلوکی یا زیادتی ہی تشدّد ہے، جب کہ جدید تعریف کی رُو سے، جو اقوامِ متحدہ کی متعیّن کردہ ہے، ’’ کسی بھی بنیادی حق کو زبردستی سلب کرنا تشدّد کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ اس تعریف کی روشنی میں دیکھا جائے، تو پاکستانی عورت تو پیدائش سے دَمِ آخر تک کسی نہ کسی صورت اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہی رہتی ہے اور درجہ بہ درجہ تشدّد بھی سہتی ہے، جس کی ایک صورت گھریلو تشدّد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گھر عورت کی پناہ گاہ، اس کی جنّت ہے، لیکن اس جنّت میں اس کے ساتھ جو کچھ گزرتی ہے، عمومی طور پر مَردوں کو شاید اس کا اندازہ نہیں۔ گھریلو تشدّد کی ایک عام شکل زبردستی کی شادی ہے۔ دیہی یا قبائلی طرزِ معاشرت میں لوگ اپنی بیٹی یا بہن کی شادی طے کرتے وقت اس کی مرضی معلوم کرنے کا تکلف نہیں کرتے، بلکہ اس پر اپنی مرضی تھوپتے ہیں۔ یہ امر صریحاً اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے’’کنواری لڑکی کی شادی نہ کرو، جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اور بیوہ کی شادی نہ کرو، جب تک اس سے مشورہ نہ کرلو۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں ارشادِ مبارک ہے ’’بیوہ اپنے ولی کی نسبت اپنا فیصلہ خود کرنے کا حق رکھتی ہے، جب کہ کنواری سے اجازت لی جائے۔‘‘ اسی طرح حضور اکرمﷺ نے نکاح کے لیے والدین یا ولی کی رضامندی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ گویا وہ شادی، بہترین شادی میں شمار ہوگی، جو والدین یا ولی کی رضامندی اور لڑکی کی مرضی کے مطابق کی جائے۔
گھریلو تشدّد کی ایک دوسری شکل، مناسب جہیز نہ دینے کے طعنے ہیں، جس سے متعدّد شادی شدہ خواتین ذہنی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ پاکستان میں یہ معاشرتی برائی موجود ہے، لیکن اس میں ایسی شدّت نہیں، جو پڑوسی مُلک بھارت میں پائی جاتی ہے۔ جہاں ہزاروں شادی شدہ خواتین، جہیز نہ لانے کی پاداش میں سسرالیوں کے تشدّد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ سیکڑوں خواتین کو اس ’’جرم‘‘ میں قتل تک کر دیا جاتا ہے۔یہ ضروری نہیں کہ گھریلو تشدّد صرف جسمانی صورت ہی میں کیا جائے، اکثر صورتوں میں یہ نفسیاتی، جذباتی اور مالی طور پر بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً بات، بات پر طلاق دینے اور گھر سے باہر نکالنے کی دھمکی دینا، گھر سے باہر جانے پر پابندی عائد کرنا، ظالمانہ، حاکمانہ رویّہ رکھنا، یہ سب تشدّد ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں خواتین کو کھڑکی یا دروازے سے جھانکنے یا کھڑے ہونے تک کی اجازت نہیں دی جاتی اور عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے حال ہی میں پاکستان کی مختلف جامعات میں زیرِ تعلیم طالبات سے خواتین کے مسائل کے بارے میں پوچھا گیا، تو افسوس ناک صورت حال سامنے آئی۔ ایک طالبہ نے بتایا کہ ’’عورتوں کو اپنے امراض کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ عورتوں کو پردے کی پابندی کی وجہ سے زچگی کے لیے اسپتال نہیں لے جایا جاتا، اگر کوئی غیر شادی شدہ لڑکی ماہرِ امراضِ نسواں کے پاس چلی جائے، تو اس کی اور اس کے خاندان کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔ ان کے مرد باہر کی ناکامیوں اور پریشانیوں کا سارا غصّہ گھر کی عورتوں پر نکالتے ہیں۔‘‘ کوئٹہ کی ایک جامعہ کی طالبہ کا کہنا تھا ’’ہمارے یہاں عورت کو مَردوں جیسا کھانا کھانے کا بھی حق نہیں، بوٹی مرد کے اور شوربا عورت کے حصّے میں آتا ہے۔ بیٹے بھی مائوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، کیوں کہ وہ بچپن سے اپنے باپ کو ایسا ہی کرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ خواتین کو موبائل فون رکھنے کی اجازت نہیں۔ ہمارے سردار خواتین کی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور اگر ہم ان روایات کو چیلنج کرتے ہیں تو ہم پر ’’بُری عورت‘‘ کا ٹھپا لگا دیا جاتا ہے۔‘‘
حالیہ برسوں میں جہاں گھریلو تشدّد کے واقعات تیزی سے بڑھے ہیں، وہیں ملازمت پیشہ خواتین کے جنسی استحصال اور کام کی جگہوں پر ہراسانی کے واقعات بھی ایک بڑا مسئلہ بن گئے ہیں، سرچ انجن’’ گوگل‘‘ نے حال ہی میں جنسی ہراسانی کے الزامات کے تحت اپنے 48 ملازمین کو برخاست کیا ہے۔ برطرف کیے جانے والوں میں تیرہ سینئر عُہدے دار بھی شامل ہیں۔ کمپنی کے سی ای او کا کہنا ہے کہ’’ ہم اپنے دفاتر کو خواتین کے لیے محفوظ اور پُرسکون بنانے کے عزم پر کاربند ہیں۔ ہم ہر شکایت کو سنجیدگی سے لیتے ، تفتیش کرتے اور پھر کارروائی کرتے ہیں۔‘‘ یہ صرف گوگل ہی کا معاملہ نہیں، سان فرانسسکو میں واقع چند بڑی کمپنیز میں کیے جانے والے ایک سروے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوّے فی صد خواتین کو کام کے دوران ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان میں سے 65فی صد ایسی تھیں، جنھیں اپنے باسز کے نامناسب رویّوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں بھی ایسے واقعات کی کمی نہیں۔ خصوصاً گارمنٹس کے کارخانوں، دوا ساز کمپنیز کے پیکنگ ڈیپارٹمنٹس میں کام کرنے والی لڑکیوں اور اس نوع کے دیگر اداروں میں ایسے واقعات معمول میں شامل ہیں۔ دوسری جانب ملازمت کے لیے گھر سے نکلنے والی خواتین پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران مَردوں کی جانب سے نامناسب انداز میں گھورنے، ہاتھ لگانے یا چھیڑ چھاڑ کا سامنا کرتی ہیں۔ لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ دورانِ ملازمت خواتین کو ہراساں کیے جانے کی سماجی برائی سے قانونی طور پر نمٹنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔ 2010 ء میں منظور کیے جانے والے قانون کے تحت تمام سرکاری اور نجی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ازخود ایسے قواعد اور ضوابط مرتّب کریں، جن کے ذریعے وہ اپنے ہاں جنسی ہراسانی کے مسائل سے نمٹ سکیں۔ اس کے تحت ہر انتظامیہ اس اَمر کی ذمّے دار ہے کہ ادارے کا ماحول مَردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے قابلِ احترام بنائے۔ علاوہ ازیں، ہر ادارہ اس قانون کے مطابق ایک مستقل تحقیقاتی کمیٹی قائم کرے گا، جو تین ارکان پر مشتمل ہوگی، جن میں کم از کم ایک رکن عورت ہوگی اور باقی دو ارکان انتظامیہ اور ملازمین کے نمایندے ہوں گے۔اس قانون کے تحت وفاقی حکومت کی جانب سے محتسب کا بھی تقرّر کیا گیا ہے۔
پاکستان کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں خواتین کو حقیر اور کم تر سمجھنے کا تعلق قدامت پرستی، مذہب کی پابندی اور رسم و رواج سے جوڑا جاتاہے، لیکن اس کاگہرا تعلق غربت اور جہالت سے بھی ہے، جیسا کہ برطانوی نشریاتی ادارے کو خیبر پختونخوا کی ایک طالبہ نے بتایا کہ ’’مرد باہر کی ناکامی یا پریشانی کا سارا غصہ عورتوں پر نکالتے ہیں۔‘‘اس خالصتاً نفسیاتی مسئلے کا تعلق مالی پریشانی اور سماجی عدم توازن سےہے۔ غربت اور جہالت میں گھرا ہوا شخص اپنے رویّوں میں اس وقت تک بہتری نہیں لا سکتا، جب تک اسے مالی آسودگی حاصل نہ ہوا اپنی محرومیوں کا غصہ وہ معاشرے پر نکالنے کی بجائے گھر میں موجود اس کم زور ہستی پر اتارے گا، جسے ’’عورت ‘‘کہا جاتا ہے اور یہ رویہ صرف دیہی علاقوں میں نہیں، شہروں میں بھی نظر آتا ہے، لیکن یہ خواتین پر تشدد کا جواز ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر صوبوں میں قانون سازی کی جارہی ہے۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان، اس ضمن میں ضروری قوانین بنا چکے ہیں، جب کہ صوبہ خیبر پختونخوا سب سے آخر میں اس جدوجہد میں شامل ہوا ہے، جہاں قانون سازی آخری مرحلے میں ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود خواتین بھی تشدد کے خلاف جدوجہد میں حصہ لے رہی ہیں۔ خواتین کی تنظیمیں، ظلم اور ناانصافی کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ ان کی جانب سے خواتین کو پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ تشدد پر خاموش نہ رہیں۔ تشدد سے محفوظ رہنے کے طریقے سیکھیں، تشدد سے نپٹنے کے لئے قدم اٹھائیں اگر کوئی بری نیت سے چھوتا ہے، ہراساں کرتا ہے تو ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ دنیا صرف مردوں کی نہیں، خواتین نصف سے زیادہ ہیں تو ان کاحق بھی نصف سےزیادہ ہی ہونا چاہئے۔