• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کا شوق سفر ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ انسان بہت زیادہ منصوبہ بندی کیے بغیر تیاری شروع کردیتا ہے، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، حجاز مقدس سے دعوت ہوئی اور پھر اجازت ہوئی اور ہم نے تیاری شروع کر دی۔
فلائٹ سے تین ہفتے قبل بغیر سوچے سمجھے سیٹیں بک کرائیں جس میں جدہ پہنچنے کی تاریخ 11 نومبر رکھی گئی، مدینہ منورہ سے واپسی کی تاریخ 16 نومبر طے کی گئی اور ٹکٹ کنفرم ہو گئے۔

سعودی عرب میں دوستوں کو آمد کی اطلاع دی گئی تو معلوم ہوا کہ 19 نومبر کو 12 ربیع الاول ہے، ایسے موقع پر تو لوگ مدینہ منورہ پہنچا کرتے ہیں اور آپ لوگ 12 ربیع الاول سے صرف تین روز قبل واپس روانہ ہورہے ہیں، بہت افسوس ہوا اور فوری طور پر ایئرلائن سے رابطہ کیا کہ واپسی کی تاریخ میں تبدیلی کرالی جائے لیکن وہاں سے صاف جواب ملا کہ آپ کے ٹکٹ فکس ہیں نہ تو تاریخ میں کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے اور نہ ہی سیٹ کینسل ہوسکتی ہے یعنی صرف ٹکٹ ضائع ہوسکتے ہیں اور ان کے بدلے نئے ٹکٹ خریدے جا سکتے ہیں، اس میں بھی بارہ ربیع الاول کیلئے کوئی سیٹ دستیاب نہیں ہے، یہ بات نہ صرف میرے لیے بلکے میرے ساتھ سفر کرنے والے ہمارے دوست عاشق رسول ﷺ ملک یونس کیلئے بھی مایوس کن تھی لیکن اب مجبوری تھی، کئی دن اسی اداسی میں گزرے کہ اگر ذرا سی منصوبہ بندی کی ہوتی، تاریخیں چیک کرلی ہوتیں تو ہمیں بھی 12 ربیع الاول مسجد نبوی ﷺ میں گزارنے کا موقع مل جاتا، لیکن نصیب کی بات تھی جس میں 10 ربیع الاول کو ہی واپسی لکھی تھی لیکن پھر ایک معجزہ ہوا، سفر سے صرف تین دن قبل ایئرلائن سے ایک ای میل موصول ہوئی کہ آپ کی 16 نومبر کی فلائٹ میں تیکنیکی خرابی کے سبب اب آپ کی فلائٹ تبدیل کرکے جمعرات کی رات اور جمعہ کی صبح کی کر دی گئی ہے، ایک اور صدمہ دل پر گزرا کہ مسجد نبوی ﷺ میں جمعے کی نماز بھی نہیں مل سکے گی، اب جمعرات کو ہی واپس آنا پڑے گا، دل مزید اداس ہوگیا لیکن پھر میں نے ایئرلائن کو فون ملایا اور ان سے عرض کیاکہ آپ ہماری جمعے کی شام کی فلائٹ کیسے تبدیل کرسکتے ہیں، جمعے کی دوپہر ہماری ایک بہت ضروری اپائنٹمنٹ ہے لہٰذا ہم کسی صورت جمعرات کو واپس نہیں آسکتے، اب کیونکہ غلطی ایئرلائن کی تھی لہٰذا وہ ہمارے لیے کافی نرم رویہ اختیار کرچکے تھے اور انھوں نے پوچھا کہ آپ کب واپس آنا چاہتے ہیں تو میرے ساتھ بیٹھے میرے دوست آصف قمر نے مجھ سے پہلے ہی جواب دیا کہ 12 ربیع الاول کے بعد، میں نے بھی مسکرا کر آصف قمر کی جانب دیکھا۔ انہوں نے ہماری سیٹس تبدیل کر کے با آسانی 22 نومبر کی کردیں، اب ہم 12 ربیع الاول کا دن اور رات مسجد نبوی ﷺ میں گزارنے والے تھے۔

یہ تمام واقعات میرے ذہن میں تیزی سے چل رہے تھے کیونکہ ہم 5 دن مکہ مکرمہ اور جدہ میں گزارنے کے بعد اب مدینے منورہ سے صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھے، جہاں مجھے معلوم ہوا تھا کہ بہت سے عاشقان رسول ﷺ دنیا بھر سے مدینہ منورہ جشن آمد رسول ﷺ منانے پہنچ رہے ہیں جن میں سابق وفاقی وزیر احسن اقبال، سیالکوٹ سے رکن قومی اسمبلی چوہدری ارمغان سبحانی، گجرات سے رکن قومی اسمبلی چوہدری عابد رضا، قصور سے رکن اسمبلی ملک رشید، کویت سے جاوید سلہری، فیصل آباد سے شاہد گوگی، سعودی عرب میں مقیم معروف سیاسی سماجی و کاروباری شخصیات ملک منظور اعوان، رانا شوکت، عرفان سدرہ، رانا زوہیب،ابوبکر چیمہ سمیت جاپان سے ملک یونس اور خاکسار شامل تھے۔

صبح شام سرکار ﷺ کی مسجد میں نماز کی ادائیگی اور ہر نماز کے بعد سرکار ﷺ کی بارگاہ پر سلام پیش کرنے میں زندگی کا الگ ہی لطف ہے، آج مسجد نبوی ﷺ جتنے رقبے پر پھیل چکی ہے ماضی میں مدینہ منورہ کا پورا شہر اتنا بڑا ہوا کرتا تھا، یہاں کا ایک ایک چپہ تاریخ اسلام سے جڑا ہوا ہے، بیش قیمت ہے، یہاں چلنا بھی ادب سے ہوتا ہے، یہاں بیٹھنا بھی ادب سے ہوتا ہے، معلوم نہیں کس جگہ پر سرکار دو عالم ﷺ کے قدم مبارک رکھے گئے ہوں گے، معلوم نہیں کس کونے پر صحابہ کرام ؓ کے قدم مبارک رکھے گئے ہوں گے۔

عبادت کے دوران مسجد نبوی ﷺ کے احاطے یعنی ریاض الجنتہ میں نوافل کی توفیق حاصل ہوئی، گنبد خضریٰ کے سائے میں نعت خوانی کی سعادت حاصل ہوئی، مدینہ منورہ میں موجود زیارات کے مواقع ملے جن میں احد کے مقام اور آنحضرت ﷺ کے چچا جان حضرت امیر حمزہ ؓ اور دیگر شہداء کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

ایک روز نماز فجر کے بعد دوستوں کے اصرار پر میدان بدر اور حضور اکرم ﷺ کی والدہ ماجدہ کے مزار جو ابوا کے مقام پر واقع ہے کی زیارت پر روانہ ہوئے، یہ مدینہ منورہ سے ڈھائی سو کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے، ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد پہلے ہم میدان بدر پہنچے جہاں عالم اسلام کا تاریخی معرکہ غزوہ بدر پیش آیا، جس میں مسلمانوں کا صرف ساڑھے تین سو افراد پر مشتمل لشکر تھا جبکہ کفار کا لشکر نو سو سے زائد افراد پر مشتمل تھا، اس معرکے میں مسلمانوں نے تاریخی فتح حاصل کی تھی، اس معرکے میں حضرت علی ؓ نے 22 کفار کو جہنم واصل کر کے اپنی شجاعت اور بہادری کا دشمن پر رعب طاری کر دیا تھا۔

میدان بدر میں کھڑا میں تاریخ میں گم ہوچکا تھا اور اپنے آپ کو مسلمان فوج کا ایک سپاہی تصور کررہا تھا جہاں کھڑے ہو کر ہر مسلمان کا جذبہ ایمانی تازہ ہوجاتا ہے، یہاں سعودی حکومت نے بہترین مسجد تعمیر کی ہے جہاں ہم نے نوافل ادا کئے اور اپنی اگلی منزل ابوا کی جانب روانہ ہوئے جہاں نامعلوم پہاڑ پر آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ کی قبر ہے۔

راستے میں جاوید سلہری خوبصورت نعتیں بھی پیش کرتے رہے جس سے راستے کا بالکل پتہ نہیں چلا، ایک گھنٹے کی مزید مسافت کے بعد ہم ابوا کے مقام پر پہنچ چکے تھے، چاروں طرف پہاڑوں کے درمیان یہاں ایک چھوٹی سی آبادی تھی لیکن کون سے پہاڑ پر آپ ﷺ کی والدہ کا مزار ہے یہ کسی کو معلوم نہ تھا لیکن یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے ساتھ ملک منظور اعوان موجود تھے جو اس مشکل راستے سے واقف تھے، ایک دشوار گزار راستے سے ہوتے ہوئے کافی اونچے پہاڑ پر پیدل چڑھنا شروع کیا تقریباً سو میٹر بلند پہاڑ کی چوٹی کے درمیان میں آپ ﷺ کی والدہ کی قبر موجود تھی جو آپ ﷺ کی ولادت کے 6 سال بعد مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے سفر کے دوران اس مقام پر شدید بیمار ہوئیں اور پھر یہیں ان کا انتقال ہوا اور یہیں ان کی تدفین ہوئی، دور دراز سے لوگ یہاں آتے ہیں اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں، کافی دیر یہاں گزارنے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی اور کئی اہم زیارتیں کیں۔

اسی دوران سابق وفاقی وزیر احسن اقبال سے رابطہ ہوا اور اگلی صبح فجر کے وقت ان سے ملاقات ہوئی اور ہم ساتھ ہی جنت البقیع کی طرف روانہ ہوئے، احسن اقبال کے پاس جنت البقیع کے حوالے سے بہت ہی جامع معلومات ہیں جبکہ یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ احسن اقبال کے والد بھی سچے عاشق رسول ﷺ تھے اور ان کے والد کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور تدفین بھی جنت البقیع میں ہوئی، خاکسار نے احسن اقبال کی معیت میں جنت البقیع قبرستان میں حاضری دی اور بہت ساری معلومات حاصل کیں اور پھر اسی روز احسن اقبال پاکستان روانہ ہوئے اور ہم بھی شام کو جاپان کی جانب عازم سفر ہوئے، ایک خوبصورت سفر کی یادیں اپنے ساتھ سمو کر اس دعا کے ساتھ کہ ان شاء اللہ جلد پھر در نبوی ﷺ پر حاضری دیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین