• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل 3دسمبر ہے اور ہمیشہ کی طرح معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر ان کویاد کیا جائے گا، سیمینارز ہوںگے ، جن میں ایسے افراد کو معاشرے کا مفید شہری بنانے اور انہیں معاشرے میں ان کا صحیح مقام دلانے کے وعدے کئے جائیں گے ۔ معذور افراد سے اظہارِ یکجہتی کی خاطر بینرز، پوسٹرز اور پلے کارڈ اٹھائے بچے ریلیاں نکالیں گے ۔پھر ان تقاریب میں بڑے بڑے لوگوں کے بڑے بڑے دعوے، ان سے پیار، ہمدردی اور محبت کے بول ،ان کی بحالی کے لیے بہت کچھ کرنے کی باتوںکو اخبارات کی زینت بنایا جائے گا ۔خیر ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ جس طرح مائوں کا، استادوں کا صر ف ایک دن نہیں ہوتا، اسی طرح ان معذور افراد کیلئے بھی ایک مخصوص دن نہیں ہونا چاہئے۔ ہر روز، ہر موقع پر، ہر پلیٹ فارم پر ان کے حقوق کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے مسائل پر غور کیا جائے ۔

اگر آپ میں صلاحیت اور کچھ کرگزرنے کی لگن ہے تو پھر کوئی عذر ،کوئی معذوری آپ کی کامیابی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جن میں سب سے معروف شخصیت اسٹیفن ہاکنگ کی ہے ۔ برطانوی ماہر طبیعات جو کہ معذور اور اعصابی بیماری کا شکار تھےلیکن اپنی ذہانت کے با عث برطانوی شاہی ادبی سوسائٹی کےتا حیات اعزازی ممبر تھے۔اس کے بعد ڈومینکو باب ہیں جو کہ ایک فرانسیسی صحافی، فرانس کے مشہور زمانہ فیشن میگزین ایلی کےلکھاری اور ایڈیٹر تھے، باوجود اپنی معذوری کے انہوں نے اپنی تصانیف جاری رکھیں۔ آج جس بجلی کے بلب کی روشنی میں ہم اپنے روز مرہ کے افعال سر انجام دیتے ہیں اس کے مؤجد تھامس ایڈیسن اور مشہور ماہر طبیعات البرٹ آئن اسٹائن دنیا کے وہ چند عظیم لوگ ہیں، جنھوں نے اپنی اختراع و ایجادات کی بدولت دنیا کو ایک نئی جہت دی اور حیرت انگیز بات یہ کہ دونوں شخصیات کسی نہ کسی جسمانی معذوری کاشکار تھیںلیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی معذوری کو اپنی زندگیوں میں داخل ہونے کی قطعی اجازت نہ دی۔

اسی طرح اٹلی کے مقابلہ حسن میں مصنوعی ٹانگ کے ساتھ شریک ہونے والی لڑکی نے شدید تنقید پر بھی ہمت نہ ہاری اور مقابلے کے فائنل تک پہنچ گئی۔معذور ماڈل نے مصنوعی ٹانگ پر تنقید کرنے والوں کو کرارا جواب دیتے ہوئے فائنل میں جگہ بنا کر تنقید کرنے والوں کے منہ بند کردیئے۔ کیارا بوردی نامی ماڈل کے ساتھ 13برس کی عمر میں ایک حادثہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں وہ اپنی بائیں ٹانگ سے محروم ہوگئی۔ کیارا نے اس معذوری پر کبھی مایوسی کا اظہار نہیں کیا بلکہ عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتی چلی گئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں معذور افراد کو سماجی ، معاشی اور حکومتی تعاون حاصل ہوتا ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ پاکستان کی صورت حال بہت خراب ہے ، لیکن یہاں اب بھی خلوصِ دل سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان معذور افراد میں سے مزید ستارے اسپیشل بن کر دنیا بھر میں اُبھریں اور ملک کا نام روشن کریں۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک کی نسبت یہاں معذور بچوں کی تعلیم کے لیے کروڑوں روپے کے بجٹ کا اعلان تو کر دیا جاتا ہے لیکن سرکاری ا سکول ان تمام سہولتوں سے محروم ہیں، جس سے معذور بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کے شوق کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ معذور بچوں کی بڑی تعداد محض اس وجہ سے اسکول نہیں جا سکتی کیونکہ ان کے کلاس روم پہلی یا دوسری منزل پر ہوتے ہیں اور انہیں سیڑھیاں چڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ دیگر ممالک میں نہ صرف اسکولوں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور تفریحی مقامات پر معذور لوگوں کو الگ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں عموماً ایسی سہولتیں ناپید ہیں۔ ملک میں معذور بچوں کی 80فیصد تعداد مناسب سہولتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے۔یہاںتک کہ سرکاری سطح پر معذور افراد کی مردم شماری تک نہیں کی جاتی ۔

پاکستان میں کوئی ایسا سرکاری ادارہ موجود نہیں ہے، جو معذور افراد کے حقوق کے لیے کام کرے۔ انہیں تعلیم و ہنر سکھانے کے لیے سنجیدگی سے کام کرے اور ان کی زندگی کو آسان بنانے میں مددگار ثابت ہو۔حکومتی اقدامات سے نظر ہٹاکر دیکھیں تو معاشرے میں اس حوالے سے شعور و آگہی کا فقدان ہے کہ بچوں کے ساتھ گھروالوں،رشتہ داروں، دوست احباب اور معاشرے کا رویّہ یا برتاؤ کیسا ہونا چاہئے۔ ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان معذور افراد کو کسی قسم کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی کوئی احساس ہوتا ہے تو ہماری یہ سوچ درست نہیں ہے۔ لوگ ان سے اس معاشرے میں رہتے ہوئے جس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں، وہ ان کی زندگی اور تربیت پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کیلئے ہمیں بچوں کے بچپن سے انہیں سمجھنے اور ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق ان کی پرورش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 

نظم

ذہن سے اُڑگئے ،سوچ کے پنچھی

الف ب پ کی ..بن گئی تتلی

ایلفابیٹس سب ہو گئے جل تھل

دواِکّم دو نے... مار دی ڈبکی

نون میں نقطے کا کام نہیں

کیا کریں جو بنتا لام نہیں

کچھ خیال کریں ،ہم خام نہیں

ہم اسپیشل ہیں، عام نہیں

کوئی نہیں ، یہاں کند ذہن

بچپن ہمارا ،نہیں پرابلم

بھیجا اسی نے سب کو یہاں

نہیںہے کسی کا بھیجا کم

تمہیں بھی ملتا ہے زیرو

کیوں تم پھر ، نہیں کرتے غم

تم بھی تو کوئی گلفام نہیں

ہم اسپیشل ہیں، عام نہیں

ہماری دنیا ہے الگ تھلگ

نہ جوڑو سب میں ہمارا پلگ

ہم اینجل ، ہم پھول ہیں

اپنا بستہ، اپنا اسکول ہیں

ٹیلنٹ خاص ، ہمارے اندر

چھُپا ہے پینٹر یا کوئی سنگر

ہم صبح کی چمک ، شام نہیں

ہم اسپیشل ہیں، عام نہیں

فاروق احمد انصاریؔ 

تازہ ترین