• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت قومی احتساب بیورو ( نیب ) پر نہ صرف متاثرہ تمام فریق تنقید کر رہے ہیں بلکہ اس پر یہ تنقید عدالتوں کی طرف سے بھی ہو رہی ہے ۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے نیب کی کارکردگی پر تنقید کی ۔ جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ نیب کا معیار دہرا ہوتا ہے۔ ہر مقدمے میں نیب کا رویہ ایک جیسا نہیں ہے ۔ کئی دیگر مقدمات میں عدالتوں کی طرف سے یہ ریمارکس بھی آئے کہ نیب مقدمات کی پیروی کرنیکی بجائے صرف لوگوں کا میڈیا ٹرائل کرتا ہے ۔ نیب کے بے پناہ اختیارات پر بھی تنقید ہو رہی ہے ۔ اس صورت حال میں دیکھنا یہ ہے کہ احتساب کا یہ عمل کیا رخ اختیار کرتا ہے اور اسکے پاکستان کے حالات پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ یہ صرف آج کی صورت حال نہیں ہے بلکہ قیام پاکستان سے اب تک ہمیشہ ایسے ہی حالات رہے ہیں ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراًبعد ہی احتساب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا اور خاص طور پر پاکستان میں سیاسی قوتوں کو کچلنے اور سیاسی رہنماؤں کو سیاست سے باہر کرنے کیلئے احتساب کا ہتھیار استعمال کیا گیا ۔ ایبڈو اور پروڈا جیسے احتساب کے سیاہ قوانین کے ذریعے ان سیاست دانوں کو احتساب کا نشانہ بنایا گیا ، جنہوں نے اپنا تن ، من ، دھن تحریک پاکستان میں قربان کر دیا تھا اور جن کی دیانت داری کی گواہی وقت دیتا تھا ۔ آج اسی کا ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں کہ احتساب کا موثر نظام پاکستان میں قائم نہیں ہو سکا ۔ عام طور پر یہ غیر جمہوری اور فوجی حکومتوں نے ’’کڑے احتساب‘‘ کا نعرہ لگایا اور اس ’’کڑے احتساب‘‘ سے سیاسی قوتوں کو کنٹرول کیا ۔ سیاسی سمجھوتے بھی کڑے احتساب کا حصہ بنے ۔ احتساب کے قوانین کی بنیادی روح ایبڈو اور پروڈا کی تھی ۔ اس لیے احتساب کا عمل متنازع رہا اور احتساب کے اداروں پر ویسی ہی تنقید ہوتی رہی ، جیسی آج ہو رہی ہے ۔ سیاسی حکومتیں غیر سیاسی حکومتوں کے احتساب قوانین کو ختم یا تبدیل کرنے میں مصروف رہیں اور وہ بھی احتساب کا موثر نظام قائم نہ کر سکیں ۔ اس کشمکش کا آخری حصہ ( Episode ) بھی پہلے والے حصوں ( Episodes ) کی طرح ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے نیب آرڈی ننس نافذ کیا ۔ اس آرڈی ننس کے ذریعہ انہوں نے جو احتساب کیا ، وہ ایک فوجی حکمران کا احتساب قرار پایا ، جس کا مقصد سیاسی قوتوں کو کمزور یا کنٹرول کرنا تھا ۔ یہ احتساب بھی اعتبار حاصل نہ کر سکا ۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت میں احتساب کا شفاف اورغیر جانبدارانہ نظام قائم کرنے کا ایک نکتہ شامل کیا اور چیئرمین نیب کے تقرر کا طریقہ کار وضع کیا ، جسے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ نافذ کیا گیا ۔ چیئرمین نیب کی تقرری وزیر اعظم ، اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کرتا ہے ۔ اس کا مقصد شاید یہ تھا کہ ایسا شخص چیئرمین نیب ہو ، جسے دوسری قوتیں استعمال نہ کر سکیں ۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے 10سالہ اقتدار میں احتساب پر زیادہ توجہ نہ دی گئی ۔ قبل ازیں جنرل پرویز مشرف بھی میاں محمد نواز شریف کو ایک معاہدے کے تحت جیل سے رہا کر چکے تھے اور انہیں باہر جانے کی اجازت دی ۔ جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ قومی مفاہمتی آرڈی ننس ( این آر او ) بھی کیا ۔ اس طرح پاکستان میں احتساب کی کہانی میں کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی ۔ اس کہانی میں اچانک ایک نیا موڑ آیا ، جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں نیب اچانک بہت زیادہ متحرک ہو گیا حالانکہ نیب کا چیئرمین بھی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہوا تھا ۔ نیب کا ایک ایسا چہرہ سامنے آیا ، جسے نیب کے شکنجے میں آنے والے ’’ ڈریکولا ‘‘ سے تعبیر کرنے لگے ۔ وہ ریفرنسز دوبارہ کھول دئیے گئے ، جن کی فائلیں دھول اور مٹی میں دب چکی تھیں ۔ عدالتیں بھی زیادہ سرگرم ہو گئیں ۔ پہلی مرتبہ احتساب سیاسی اور منتخب حکومت کے دور میں شروع ہوا اور اس کا نشانہ حکمران جماعت کے لوگ بنے ۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ غیر جمہوری یا فوجی حکومت احتساب کر رہی ہے ۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ احتساب کا عمل غیر متنازع ہوتا کیونکہ یہ ’’ Episode ‘‘ پہلے والے ’’ Episodes ‘‘ سے مختلف تھا لیکن نہ احتساب کا عمل غیر متنازع ہو سکا اور نہ نیب تنقید کی زد سے بچ سکا ۔

عام طور پر نیب کے لوگوں کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ گرفتار شخص دباؤ میں سب کچھ بتا دیتا ہے اور بدعنوانی کے شواہد ملنے میں مدد ملتی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ نیب کی طرف سے کرپٹ لوگوں کو سزا دلوانے کا تناسب کم ہے ۔ استغاثہ بہت کمزور ہوتا ہے ۔ نیب کی عدالتوں کے فیصلے اعلیٰ عدلیہ بہت کم برقرار رکھتی ہے ۔ گرفتار شخص کا صر ف میڈیا ٹرائل ہوتا ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور دیگر اساتذہ کی گرفتاری اور انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے سے نیب کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہوا ۔ نیب کے گرفتاری کے ان اختیارات پر نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ نیب کو ہر معاملے میں ملوث کرنے اور اسکے وسائل اور توانائی ضائع کرنے کی بجائے اسے میگا کرپشن کیسز تک محدود رکھا جائے تاکہ وہ ان کیسز کی صحیح طریقے سے پیروی کر سکے ۔ وزارتوں اور محکموں کے احتساب کے نظام کو اپنا کام کرنے دیا جائے ۔ احتساب کے صوبائی اداروں کے دائرہ اختیار میں بھی مداخلت کم سے کم ہونی چاہئے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو احتساب کا عمل نہ صرف غیر متنازع نہیں بن سکے گا اور نیب تنقید سے نہیں بچ سکے گا بلکہ جاری احتساب کسی غیر معمولی سیاسی صورت حال کا سبب بن سکتا ہے ۔

تازہ ترین