• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کایہ اعلان کہ وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کی سیاست کو قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے پارٹی کے سربراہ خادم حسین رضوی سمیت تمام قائدین کے خلاف دہشت گردی اور بغاوت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے، اگر یہ کاوش ملک میںپچھلے کئی برسوں کے دوران فروغ پانے والے اس جارحانہ ، اشتعال انگیر اور پرتشدد احتجاجی طرز سیاست کے خاتمے کا باعث بن سکے جس کے ذریعے متعلقہ عناصر نظام حکومت اور کاروبار مملکت کو مفلوج کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ملک و قوم کے لیے یقیناً نیک فال ہوگی۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پچھلی دو منتخب حکومتوں کو وفاقی دارالحکومت کے حساس علاقے میں اسی طرز سیاست کے تحت مہینوں طویل دھرنوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان دھرنوں کے دوران احتجاجی قیادت نے عوام کو سول نافرمانی تک پر اکسانے کی برملاکوشش کی، جبکہ گزشتہ عام انتخابات سے چند ماہ پہلے ختم نبوت کے حوالے سے ارکانِ پارلیمنٹ اور حکومتی عہدیداروں کے آئینی حلف نامے میں مبینہ طور پر کی جانے والی ایک ترمیم واپس لیے جانے کے مطالبے کو منوانے کے لیے بھی ایسا ہی ایک دھرنا دیا گیا جس کی پرزورحمایت اس وقت کی اپوزیشن کی کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس کے باوجود جاری رکھی گئی کہ عدالت عظمیٰ نے اس دھرنے کے خاتمے کا حکم دیا تھا اور جس آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کی ان جماعتوں کی جانب سے حمایت کی جارہی تھی اس ترمیم میں ان میں سے کئی جماعتیں خود بھی شامل رہی تھیں ۔ نفاذِ قانون کے ذمہ دار اداروں نے بھی اس احتجاج کو ختم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے گریزکیا جس کی بناء پر حکومت بالکل بے بس نظر آئی اور آخرکار عسکری قیادت کی مداخلت پر ایک معاہدے کے بعد یہ دھرنا ختم ہوا۔ اس احتجاجی دھرنے کے روح رواں تحریک لبیک پاکستان کے قائد خادم حسین رضوی تھے۔ ان کی جماعت بڑی حد تک اس دھرنے کے ذریعے ہی ملک کے اندر اور باہر متعارف ہوئی ۔ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں اس پارٹی نے بڑی تعداد میں اپنے امیدوار کھڑے کرکے بھرپور حصہ لیا۔گویا انتظامیہ، عدلیہ اور دیگر اداروں نے اس جماعت کو جمہوری طریقوں سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آگے بڑھنے کی تمام سہولتیں پوری کشادہ دلی سے فراہم کیں۔لیکن ایک ماہ پہلے عدالت عظمیٰ کی جانب سے آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد تحریک لبیک نے احتجاجی دھرنے دے کر ملک کے ایک بڑے حصے میں کاروبارِ زندگی معطل کرکے رکھ دیا جبکہ مشتعل مظاہرین نے کروڑوں کی ریاستی اور نجی املاک کو نقصان بھی پہنچایا۔موجودہ حکومت نے اس صورت حال سے نکلنے کے لیے تحریک لبیک کی قیادت سے پانچ نکاتی معاہدہ کیا جس میں اس کے تمام بنیادی مطالبات تسلیم کیے گئے ۔ تحریک کے کارکنوں اور قائدین کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمات کا اندراج بظاہر اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کا کوئی قابل قبول جواز پیش نہ کیا گیا تو حکومت کی اخلاقی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ مقدمات میں انصاف کے تمام تقاضوں کی تکمیل اور شفافیت کا اہتمام بھی یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ اس عمل پر اعتبار کسی بھی طور مجروح نہ ہو۔وزیر اطلاعات کا یہ کہنا یقیناً درست ہے کہ تحریک لبیک نے آئین کو للکارا اور قانون کی خلاف ورزی کی لہٰذا ایسے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا۔انہوں نے اس ضمن میں اپوزیشن اور میڈیا کے مکمل تعاون کا شکریہ بھی ادا کیا۔آئین اور قانون کی بالادستی کیلئےحکومت ، اپوزیشن اور ذرائع ابلاغ کا یہ اتفاق یقیناً خیرمقدم کے لائق ہے لیکن اب یہ بھی طے ہوجانا چاہئے کہ آئندہ کبھی ذاتی ، جماعتی اور سیاسی مفادات کیلئے کسی کی بھی جانب سے یہ موقف بدلا نہیں جائے گا۔ مستقل مثبت تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ پوری سیاسی قیادت اور تمام ریاستی ادارے اس امر کا اعتراف کریں کہ دھرنوں کے ذریعے کاروبار مملکت کو مفلوج کرنے کی سیاست آج ہی نہیں کل بھی غلط تھی اور آئندہ جو بھی اس طرز سیاست کو اختیار کرے گا، وہ ملک وقوم کا مجرم اور آئین وقانون کے مطابق سزا کا مستحق ہوگا۔

تازہ ترین