• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک صاحب بازار گئے اور ایک دکاندار سے انڈوں کا بھائو پوچھا، دکاندار نے بتایا کہ انڈے سو روپے کے درجن ہیں۔ صاحب جو گاہک کی صورت دکان پر گئے تھے‘ کہنے لگے: بھائی جان! وہ پچھلی دکان والا تو 90روپے درجن انڈے بیچ رہا ہے، آپ سو روپے درجن کیوں بیچ رہے ہیں؟ دکاندار نے جل کر کہا:تو پھر آپ انڈے اسی دکان سے کیوں نہیں لے لیتے؟ گاہک نے مایوسی سے کہا کہ اس کے پاس انڈے ختم ہو گئے ہیں۔ دکاندار نے کہا: جب میرے پاس بھی انڈے نہیں ہوں گے تو میں بھی 90روپے درجن ہی بیچوں گا۔

حکومت کے سو دن کیا پورے ہوئے‘ ہر طرف مرغی انڈے کی بحث ہو رہی ہے۔ لوگ اب اس بحث کہ پہلے مرغی پیدا ہوئی یا انڈا، سے نکل کر اس بحث میں پڑ گئے ہیں کہ وزیراعظم صاحب انڈے اور مرغی سے کیسے ملک اور لوگوں کی تقدیر بدلیں گے کیونکہ بڑے بڑے پولٹری فارمز والوں نے پہلے سے انڈے اور مرغی کی مارکیٹ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ روزانہ لاکھوں من مرغی اور لاکھوں درجن انڈے ملک کی مارکیٹ میں سپلائی کرتے ہیں اور مال بنا رہے ہیں، ایسے میں ایک غریب خاتون یا اس کا خاندان دس بیس مرغیوں کو پال کر کس طرح اپنی آمدنی بڑھائے گا؟ ان مرغیوں کو گائوں کے گیدڑوں، لومڑیوں اور بلیوں کے علاوہ گلی کے ان شرارتی لوگوں سے کیسے بچائیں گے جو مرغی چوری یا بھون کر کھانے کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ بیٹی بھوک لگی ہے، جلدی سے روٹی پکا لو، بیٹی نے جواب دیا: امی گھر میں آٹا نہیں ہے۔ ’’اچھا تو بیٹی پھر پراٹھا بنا لو‘‘ ماں نے جواب دیا۔

حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر جو تقریب منعقد کی گئی وہ کارکردگی دکھانے کی ایک ناکام اور کمزور کوشش تھی۔ عوام اب یہ سُن سُن کر تنگ آگئے ہیں کہ پہلے حالات کیا تھے اور اب حالات کیا ہیں، کرپشن کتنی ہوتی تھی، کرپشن کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارے بس میں یہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب تو عوام صرف عملی کام اور ریلیف چاہتے ہیں لیکن ایسا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔ ہم مان لیتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ سعودی عرب، چین، یو اے ای اور ملائشیا نے ہمارے وزیراعظم کا اچھا استقبال کیا۔ ہو سکتا ہے کہ معیشت کو سہارا دینے کے لئے بھی کچھ اچھے فیصلے یا معاہدے ہوئے ہوں لیکن عوام یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کو ریلیف کہاں ملا ہے؟ ان کے بچوں کو گرم کپڑے سستے نرخوں پر ملے؟ بچوں کو دو وقت کی روٹی آسانی سے دستیاب ہے؟ عام شہری کی اتنی آمدنی ہو گی کہ وہ بجلی اور گیس کے بل ادا کر سکے، بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکے؟ جان بچانے کیلئے جہاں ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے وہاں مریض کو اچھی اور صحت بخش غذا کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن ابھی تک صرف گولیاں، کیپسول اور انجکشن ہی لگ رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب! جہاں ڈالر کے مہنگا ہونے سے قرضے کئی گنا بڑھ گئے ہیں، درآمدات کا بوجھ بہت زیادہ ہو گیا ہے، یقیناً خسارہ بھی بڑھے گا، وہیں اگر غریب عوام کو ریلیف دینے کے لئے کچھ ایسے اقدامات کر دیئے جاتے جن سے بے شک خسارہ اور بوجھ ذرا اور بڑھ جاتا تو کچھ برا نہ تھا۔ ہاں یہ ضرور ہوتا کہ عوام کہتے اب ہماری اپنی حکومت آ گئی ہے۔ لمبے منصوبے تو چلتے رہیں گے اور ہو سکتا ہے پی ٹی آئی کی حکومت مستقبل میں بہت اچھے کام کرے لیکن سسکتے عوام کو فوری ریلیف درکار ہے۔ جس طرح بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری کرنے والے پہ حد نافذ نہیں ہوتی، اسی طرح غریب ریڑھی بان، تھڑے پر بیٹھے چھوٹے دکاندار اور خوانچہ فروش کو بھی ناجائز تجاوزات کے نام پر بیروزگار نہ کیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین