• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھاکہ موجودہ دورمیں قوموںکا مستقبل تعلیم، سائنس، ریسرچ اور ٹیکنالوجی سے وابستہ ہےاور جو قومیں مضبوط معیشت کےباوجود ان میدانوں میں پیچھے رہ جائیں گی، وہ نہ ترقی کرسکتی ہیں نہ بین الاقوامی سطح پر وقار کما سکتی ہیں۔ صرف شرح خواندگی بڑھانا بھی اس مرض کا علاج نہیں۔ اگر شرح خواندگی بڑھانے سےقوموں کو عروج ملتاتوآج سری لنکا سپرپاور ہوتا، جہاں شرح خواندگی نوے فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ جس انقلاب کا خواب ہماری قیادت اور قوم دیکھتی ہیں، اس خواب کو شرمندہ ٔ تعبیر کرنے کے لئے اعلیٰ معیاری تعلیم، ریسرچ اور ٹیکنالوجی ناگزیر ہیں۔ انقلاب اسکولوں سے نہیں، یونیورسٹیوں اور معیاری تعلیم سے جنم لیتے ہیں لیکن جب تک اسکول ایجوکیشن معیاری نہ ہو، یونیورسٹیوں کا بطن بانجھ رہتا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستانی ذہنی صلاحیت کے اعتبارسے صف ِ اول میں شمار ہوتے ہیں اور وہ جن غیرملکی یونیورسٹیوںمیںجاتے ہیں، اپنی ذہانت کالوہا منواتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ملک کے اندر معیاری تعلیم کاقحط ہے۔

ہماری یونیورسٹیاں عالمی رینکنگ کو چھوڑیئے ایشیائی رینکنگ میں بھی نچلے درجے پر آتی ہیں چنانچہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو چمکنے اور اپنے اپنے شعبوں میں جھنڈے گاڑنے کے مواقع نہیں ملتے۔ چند دہائیاں قبل سنگاپور کے طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جاتے تھے۔ اب خاصی حد تک یہ سلسلہ الٹ ہو چکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں سنگاپورکی نیشنل یونیورسٹی میں چند دنوں کے لئے مہمان تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بہت سے سنگاپوری پروفیسرز جو امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے تھے، واپس آگئے تھے۔ بہت سے سنگاپوری خاندان جو امریکہ میں آباد ہوچکے تھے، تعلیم کےلئے اپنے بچوں کو سنگاپور بھجواتے تھے۔ تحقیق سے پتا چلاکہ ان والدین کا خیال ہے کہ سنگاپور میں طلبہ سےزیادہ محنت کروائی جاتی ہے اور اس طرح انہیں محنت کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ اس سے یاد آیا کہ ڈاکٹرعطاالرحمٰن نے مشرفی دورمیں بحیثیت چیئرمین ہائرایجوکیشن کمیشن نہات اچھے منصوبے (Initiatives)شروع کئے تھے جن سے ہائر ایجوکیشن کے میدان میں انقلاب کے آثار پیداہوئےتھے۔ ان کی کامیابی میں حکومتی اسپورٹ اور وسائل کا اہم کردار تھا چنانچہ ان کی رخصتی کے بعد وہ تمام منصوبے آہستہ آہستہ انحطاط کاشکارہوگئے کیونکہ حکومت وسائل اور فنڈز مہیا کرنے میں ناکام رہی۔ ان منصوبوں میں ایک منصوبہ بیرون ملک سے ماہر پاکستانی اساتذہ کووطن واپس لا کر یونیورسٹیوں میں ٹیلنٹ کی کمی کوپورا کرنا تھا۔ بہت سے تربیت یافتہ پاکستانی اساتذہ وطن واپس لوٹے اور چند ہی برسوں میں بددل ہو کر بیرون ملک چلے گئے۔ مجھے ان میں سے کچھ عالم و فاضل حضرات سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انہیں یونیورسٹیوں کے ماحول، معیار، طریقہ تعلیم، نصاب اور خاص طور پر ریسرچ کے قحط پر اعتراض تھا۔ یونیورسٹیوں میں نہ تحقیق کے لئے مناسب ماحول، مواقع، مواد اور وسائل موجود ہیں اور نہ طلبہ میں تحقیق کے لئے رجحان اور افتاد طبع پیدا کی جاتی ہے۔ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی پاکستانی طلبہ کوپی ایچ ڈی کے لئے بیرون ملک بھجوانا تھا۔ یہ منصوبہ بھی توقع کے مطابق کامیاب نہ ہو سکا۔ اول تو طلبہ کی اکثریت کوبیرون ملک درمیانے درجے کی یونیورسٹیوں میں داخلے ملے۔ آسٹریلیاکی ایک یونیورسٹی میں بہت سے طلبہ بھجوائے گئے حالانکہ اس یونیورسٹی کی اپنے ملک میں رینکنگ پست تھی۔ ان میں سے جو طلبہ باہر جگہ بناسکے، وہ واپس نہیں آئے اور جو اساتذہ بیرون ملک سے پی ایچ ڈی کرکے آئے وہ اپنے ملک کی یونیورسٹیوں کے ماحول میں بانجھ ہوکر رہ گئے۔ شاید ہی ان میں کوئی ایسا ہو جس نے کوئی معیاری ریسرچ کی ہو یا طلبہ کی معیاری خطوط پرتربیت کی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک ہم اپنے ملک کی یونیورسٹیوں کا ماحول ٹھیک نہیں کرتے، اس وقت تک یہ مسئلہ رہے گاکہ بیرون ملک سے جذبے کے ساتھ لوٹنے والے اسی رنگ میں رنگے جائیں گے۔ اس حوالے سے آپ کو ایک دلچسپ راز بتائوں۔ ریسرچ کی حوصلہ افزائی کے لئے پاکستان کی کئی یونیورسٹیوں اور علمی اداروں سے ریسرچ جرنلز نکالے جاتے ہیں۔ ہائرایجوکیشن کمیشن سے منظورشدہ جرنلز میں مضمون چھپنے پر یونیورسٹی اپنے طلبہ اور اساتذہ کو کیش ایوارڈ دیتی ہے اور جب تک مخصوص تعداد میں مضامین چھپ نہ جائیں اگلے گریڈ میں ترقی نہیں ہوتی۔ اب ہماری جعل سازی دیکھئے۔ میںذاتی طورپر جانتاہوں کہ ایسے جرنلز کی اکثریت پرمافیاز کا قبضہ ہے اور وہ اس وقت تک ریفری (Referees) کامنظور شدہ مضمون شامل اشاعت نہیں کرتے جب تک مصنف اپنے ساتھ ان کے ایک دوحضرات کو شامل نہ کرلے حالانکہ ان حضرات کا ریسرچ سے تعلق ہوتا ہے نہ انہیں علم ہوتا ہے کہ مضمون میں کیا لکھا گیا ہے۔ اس کے پس پردہ محرک یہ ہے کہ مصنف کے ساتھ ایک یا دوشرکا کو بھی یونیورسٹی کی جانب سے کیش ایوارڈ ملتا ہے اور بغیر زحمت اٹھائےترقی کے لئے مطلوبہ تعداد میںمضامین بھی مل جاتےہیں۔ چندایک معیاری یونیورسٹیوں کے علاوہ تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں ایسے مافیازکے قبضے میںہیں۔ ماشاء اللہ جعل سازی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ یاد رہے میں سوشل سائنسز کی بات کر رہا ہوں جو میراشعبہ ہے۔ دوسری سائنس بیچاری کاتو ویسے ہی براحال ہے اور اس شعبے میں ریسرچ چند ایک سینٹرز کے علاوہ عنقاہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا ذکرمیں اس لئے نہیں کررہا کہ ماشاء اللہ چند ایک کے علاوہ باقی محض گولڈ مائنز یعنی سونے کی کانیں ہیں جن کے تعلیم و تدریس پر منافع کی ہوس غالب ہے۔ کسی زمانے میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف کے دل میں تعلیم کی اُمنگ جاگی تھی۔ انہوں نے بعض قابل قدر منصوبوں کا آغاز بھی کیا تھا۔ وہ نئے نئے وزیراعلیٰ بنے تھے تو ایک میٹنگ میں ان سے عرض کیا تھا کہ اپنی درسگاہوں کو وسائل مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ معیاری امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں سے بات کرکے ان کے کیمپس پاکستان میں کھلوائیں۔ بے شک انفرا اسٹرکچر حکومت کومہیاکرنا پڑے۔ جو طلبہ افورڈ کرسکتے ہیں وہ اپنے خرچ پر پڑھیں اور جن مستحق طلبہ کو داخلہ ملےان کا خرچ وزیراعلیٰ تعلیمی فنڈ سے ادا کیا جائے۔ اگر امریکی یونیورسٹیاں قطر اور یو اےای میں کیمپس کھول سکتی ہیں تو پاکستان بہرحال ان ممالک سےبہتر تعلیمی مواقع رکھتا ہے۔ حکمران جلد نتائج چاہتے ہیں لیکن تعلیم کے میدان میں جلد نتائج نہیں ملتے۔ تعلیم عمران خان کا بھی خواب ہے جس کا ثبوت ’’نمل‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔ انہیں ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ معیاری تعلیم کے لئے جلد منصوبہ بندی وقت کااہم ترین تقاضا ہے۔ کچھ باتیں اگلےکالم میں ان شاء اللہ۔

تازہ ترین