• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علم ِ تاریخ (History) بھی سماجی علوم میں معاشیات، علم التعلیم، بین الاقوامی تعلقات، سیاسیات، مطالعہ پاکستان، نفسیات اور عمرانیات کے ساتھ اہم علوم میں شامل ہے اور دیگر علوم کے مقابلے میں اس کی اہمیت کم نہیں۔

تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس میں اَرخ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی دن (عرصہ / وقت وغیرہ) لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ، جامع انسانی کے انفرادی و اجتماعی اعمال و افعال اور کردار کی آئینہ دار ہے۔ تاریخ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے، تاکہ تمدن انسانی کا کارواں رواں دواں رہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس کے توسط سے افراد و قوم، ماضی کے دریچوں سے اپنے کردہ اور نا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی نظر ڈال کر اپنے حال و استقبال کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکیں۔

تاریخ درحقیقت کچھ قصے کہانیوں کا نام نہیں، یہ صدیوں کے واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹتی ہے۔ تاریخ مختلف زبانوں اور ممالک کی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہوتی ہے۔ تاریخ بادشاہوں ، شہنشاہوں اور فاتحین عالم کے کارناموں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ابتدائی دور میں انسانی آبادی چونکہ مختصراور محدود تھی، اس لئے زیادہ تر اس دور میں خاندانی یا قبائلی بنیادوں پر انسانی معاشرہ تشکیل پاتا تھا۔ خاندان یا قبیلے کے بڑے فرد ہی کو سردار کی حیثیت حاصل ہوتی تھی اور تمام معاملات کے سیاہ و سفید کا وہی مالک ہوتا تھا۔

تاريخ دان مختلف حوالوں سے اپنی معلومات حاصل کرتے ہیں، جن میں پرانے نسخے، شہادتیں اور پرانی چيزوں کی تحقيق شامل ہے۔ البتہ مختلف ادوار میں معلومات کے مختلف ذرائع کو اہميت دی گئی ہے۔ آغاز سے اب تک تاریخ نے کئی روپ دھارے ہیں۔ قصے کہانیوں سے شروع ہو کر آج تاریخ اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اسے تمام علوم انسانی کی روحِ رواں کہا جاسکتا ہےکیوں کہ اجتماع انسانی کے شعبے میں کوئی واقعہ پیش آتاہے تو وہ کسی نہ کسی طرح کل کی یا تاریخِ گزشتہ سے مربوط ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہا جائے کہ تاریخ سب کچھ ہے اور سب کچھ تاریخ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔

مؤرخ کے فرائض

مؤرخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض نقال نہ ہو بلکہ تاریخ سے متعلقہ تمام علوم کو جانتا ہو۔ اسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ حکمرانی و سیاست کے قواعد کیا ہیں؟ مختلف قوموں کا مزاج کیا ہے؟ زمان ومکان کے گوشے کیوں کر متاثر ہوتے ہیں؟ مختلف مذاہب میں فرق اور حدود اختلافات کیا ہیں، ان کے سلسلے کہاں جڑتے ہیں؟ اس طرح یہ بھی جاننا کہ حال کیا ہے، اس میں اور ماضی میں کیا کیا چیزیں ملتی جلتی ہیں اور کن نکات پر اختلافات ہیں؟ تاکہ جو موجود ہیں ان کی مناسبت اور مشا بہت سے ماضی کے دھندلکوں کی تشریح کی جاسکے۔

مؤرخ کی ذمہ داریاں

تاریخ میں اگرچہ کسی بھی زمانے کے مخصوص لوگوں کا ذکر ہوتا ہے، متعین واقعات اور بڑے بڑے حوادث کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں، تاہم زمانے کے تمام حالات جغرافیہ اور جزئیات اس نوعیت کی ہوسکتی ہیں کہ جن سے ان کی توضیح ہو سکے۔ اس لیے ایک محقق کو ان حالات کو نظر انداز نہیں کرناچاہیے اور قدم انہی کی روشنی میں بڑھانا چاہیے، ورنہ لغزش کا سخت اندیشہ ہے۔

اس لیے ایک مؤرخ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کسی خاص حکومت کی تبدیلی سے قوم میں کیا کیا تغیرات رونما ہوتے ہیں اور عرف و اصطلاح کے کون کون سے قانون تغیر و تبدل کی نذر ہوچکے ہوتے ہیں۔ اگر تاریخی واقعات پیش کرنے میں ان تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا جائے اور ان اصولوں کی روشنی میں چھان بین نہیں کی جائے، تو امکان ہے کہ غلطیوں میں الجھ کر حقیقت سے عاری اور غیر معقول افسانوں کو پیش کیا جاسکتا ہے۔

سندکا حصول

کچھ جامعات میں شعبۂ تاریخ کو مطالعہ پاکستان کے ساتھ ضم کردیا گیاہے، جہاں شعبہ تاریخ اور مطالعہ پاکستان میں بی اے،ایم اے، اور ایم فل کے پروگرام پیش کیےجاتے ہیں اور طلبہ کو سمسٹر کے دوران سمعی و بصری آلات، بحث و مباحثہ، فیلڈ ورک ،لائبریری کلاسز، باہمی گفتگو، آرٹیکلز اور تبصرے کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ طلبہ کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے تعلیمی نصاب، امتحانات، پریزنٹیشن، اسائنمنٹس اور تحقیقی مقالہ جات کا ایک جامع اور مربوط نظام وضع ہوا ہوتا ہے، جس کی پاپندی کرنا ہر طالب علم پر لازم ہے۔

کیریئر کے مواقع

تاریخ اور مطالعہ پاکستان میں ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے پاکستان کے کئی سرکاری وغیر سرکاری شعبہ جات میں ملازمت کے مواقع موجود ہیں مثلاً جامعات،کالجز،سول سروسز،، تحقیقاتی ادارے، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا، ترقیاتی شعبہ ، عجائب گھر، تاریخی مقامات کی انتظامیہ کے شعبہ جات، انتظامی امور کے شعبہ جات، نجی اور مقامی حکومتوں کے ادارے وغیرہ۔ ان کے علاوہ جامعات سے فارغ التحصیل ٹی وی، ریڈیو اور اسٹیج کے کامیاب میزبان بننے کے علاوہ پرڈیوسرز کے عہدوں پر بھی تعینات ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین