• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا پاکستان سیاسی تصادم کی طرف جا رہا ہے ؟ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوتے ہی یہ سوال ان حلقوں میں کیا جانے لگا تھا ، جو پاکستان کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں اور اپنی آرا قائم کرتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں کے ایک پینل کو جو ٹی وی انٹرویو گزشتہ ہفتے دیا ہے ، اس کے بعد یہ سوال بڑی شدت کے ساتھ کیا جانے لگا ہے کیونکہ وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بات بھی کی ہے کہ پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے قانون سازی صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ کی جائے ۔ قانون سازی کی مجبوری میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت نہیں کی جائے گی ۔ وزیر اعظم عمران خان کی اس بات کے بعد مذکورہ بالا سوال کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی کیا جانے لگا ہے کہ اگر پاکستان سیاسی تصادم کی طرف گامزن ہوا تو اسکے نتائج کیا نکلیں گے ؟

انٹرویو کے دوران وزیر اعظم عمران خان سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹ میں اکثریت نہیں ہے ۔ وہ اپوزیشن کی حمایت کے بغیر کس طرح قانون سازی کرے گی اور قانونی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل کرے گی کیونکہ سینیٹ میں اپوزیشن اکثریت میں ہے ؟ اس پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا یہ تھا کہ اگر اپوزیشن نے عوامی مفاد میں قانون سازی میں حمایت نہیں کی تو وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو دے گی ۔ اس صورت میں ہم صدارتی آرڈ ننس کے ذریعہ قانون سازی کریں گے ۔ وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ وہ اپوزیشن کیساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ سمجھوتے کا مطلب یہ ہو گا کہ اپوزیشن رہنماؤں کے کرپشن کے مقدمات بند کر دیئے جائیں اور وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ احتساب پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا اہم حصہ ہے ۔ ماضی کے حکمرانوں کو میں کیسے نظر انداز کر سکتا ہوں ، جنہوں نے ملک کو 30 ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا اور منی لانڈرنگ کے ذریعہ اپنی جیبیں بھریں ۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کسی بھی مجبوری کی وجہ سے اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت یا سمجھوتہ نہیں کریں گے اور وہ آئینی بحران سمیت کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے کسی بھی سیاسی دباؤ میں نہیں آئیں گے ، جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا ہے کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں ۔ عمران خان کے اس انٹرویو کے بعد یہ بات واضح ہو جانی چاہئے کہ وہ اپنے اس سیاسی موقف پر ڈٹے رہیں گے کہ ماضی میں حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتوں خصوصاََپاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کرپٹ ہے اور اس کا احتساب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کرے گی ۔ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی سیاسی دباؤ میں آکر کرپشن کے مقدمات واپس لے لے گی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس انٹرویو میں یہ باور کرا دیا ہے کہ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہے کہ ان کی اس پالیسی کے سیاسی نتائج کیا ہوں گے ؟ وزیر اعظم یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے ۔

بال اب اپوزیشن کے کورٹ میں ہے ، جسکا موقف یہ ہے کہ سیاسی قوتوں کا احتساب عمران خان کا نہیں ، کسی اور کا پرانا ایجنڈا ہے اور موجودہ احتساب عمران خان کی حکومت سے پہلے ہو رہا ہے ۔ اپوزیشن کے سیاسی رہنما وزیر اعظم کے اس پرانے سیاسی بیانیہ ( Political Rhetoric ) پر ردعمل ظاہر کرنے میں محتاط ہیں ۔ وہ کھل کر یہ بات کہنے سے احتراز کر رہے ہیں کہ سیاسی تصادم سے ملک خصوصاََ جمہوریت کو نقصان ہو گا کیونکہ اگر وہ یہ بات کہیں گے تو اس پر وزیر اعظم اپنا یہ بیانیہ دہرائیں گے کہ ’’ جب کرپشن پر کارروائی ہوتی ہے تو اپوزیشن کو جمہوریت خطرے میں نظر آتی ہے ۔ ‘‘ اس وقت اپوزیشن وزیر اعظم کے جارحانہ انداز کے مقابلے میں دفاعی پوزیشن پر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں فریقین کو اندازہ ہے کہ حالات سیاسی تصادم کی طرف جا رہے ہیں ۔

اگرچہ اپوزیشن فوری طور پر محاذ آرائی کیلئے بوجوہ تیار نظر نہیں آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن میں شامل تمام سیاسی جماعتیں گزشتہ چار سے سات دہائیوں سے سیاسی دھارے میں ہیں ۔ تحریک انصاف نہ صرف دو دہائی پرانی سیاسی جماعت ہے بلکہ بنیادی سیاسی دھارے میں چلنے والی سیاسی جماعت نہیں رہی ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو آپس کے سیاسی تصادم کا بھی تجربہ ہے اور انہوں نے آمرانہ حکومتوں سے بھی ٹکراؤ کے تجربات بھی حاصل کیے ہیں ۔ انہیں یہ بھی بخوبی اندازہ ہے کہ حکومتیں کس طرح اپنی زمین کھو دیتی ہیں ۔ زیادہ تر اپوزیشن رہنما ملک کے داخلی اور بیرونی حالات کا بھی بھرپور ادراک رکھتے ہیں اور وہ زیر سطح رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی محسوس کر لیتے ہیں۔

موجودہ اپوزیشن کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں 1980 ء کے عشرے سے قبل دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی کشمکش کا حصہ تھیں ۔ 1980 ء کے عشرے کے بعد بار بار صف بندیاں تبدیل ہوتی رہیں اور خاص طور پر 1980 ء کے عشرے کے آخر اور 1990 ء کے عشرے کا زیادہ تر عرصہ ایک دوسرے کی حکومتیں ہٹانے کیلئے تصادم کی راہ پر گامزن رہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں یہ احساس ہوا کہ ان کے تصادم کا فائدہ کسی اور کو ہوتا ہے ۔ 2008 سے 2018 تک 10 سال انہوں نے اس تصادم سے گریز کیا ، جسے تحریک انصاف اور ان کے ہم خیال سیاسی حلقوں نے ’’کرپٹ لوگوں ‘‘ کے اتحاد سے تعبیر کیا ۔ 2014 اور 2016 ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف تحریک انصاف کے دھرنوں کے باوجود حکومت نہیں گری لیکن سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی اور احتساب کا موجودہ عمل شروع ہوا ۔ اب سیاسی تصادم میں نئی صف بندی ہے اور نیا تجربہ ہے ۔ ارد گرد کی رونما ہونیو الی تبدیلیاں بھی حالات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں ۔ حالات کے رخ کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین