• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومت کی سو روزہ کارکردگی کے جائزے پر مبنی اجلاس کا انعقاد ایک اچھی روایت کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ صبح 11بجے سے شروع ہونے والے 9 گھنٹوں پر محیط ملکی تاریخ کے طویل ترین کابینہ اجلاس میں 26 وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکا، باقی وزارتوں کا جائزہ لینے کے لئے تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ وزارتوں اور ڈویژنوں سے جو پانچ سالہ منصوبے مانگے گئے ہیں، ان کے بنیادی تصور کا خاکہ الیکشن سے پہلے اور بعد میں بیان کیا جاتا رہا ہے اسلئے گمان کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ مرحلے پر تفصیلات امکانی پیش رفت کے روڈ میپ سمیت مختلف کاموں کے آگے بڑھنے کی مختلف منزلوں کیساتھ طلب کی گئی ہوں گی۔موجودہ منتخب قیادت کو سنگین معاشی ابتری سمیت جن چیلنجوں کے درمیان اقتدار ملا ان میں کچھ ایسے داخلی و خارجی عوامل متحرک ہوئے جن کی طرف اشارہ ریاستی سلامتی کے نکتہ نظر سے آرمی چیف کو بھی کرنا پڑا۔ اب جبکہ حکومت کے سو دن گزرنے کے بعد معاملات بعض حوالوں سے بہتری کی طرف جاتے محسوس ہو رہے ہیں تو بھی ایسے دعوے قرین حقیقت نہیں کہے جا سکتے کہ حکومت بہت بڑے معرکے سر کر چکی ہے مگر پھر بھی کرتار پور راہداری کھولے جانے کا مشکل ترین مرحلہ انہی سو دنوں میں سر ہوگیا جبکہ واشنگٹن سے آنے والے بیانات کے لب و لہجے میں بھی کچھ نہ کچھ فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پیر کے روز منعقدہ اجلاس میں وزارتوں اور ڈویژنوں کی رپورٹیں اور بریفنگز لی گئیں، وزراء سے سخت ترین سوالات کئے گئے، سروس ڈلیوری اور کفایت شعاری اقدامات سمیت وفاقی وزارتوں اور ادارہ جاتی پرفارمنس بہتر بنانے کی تجاویز کا جائزہ لیا گیا اور وزارتوں کو مخصوص اسٹریٹیجک پلان دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعظم ہائوس سے جاری کئے گئے ترجمان کے اس ٹوئٹ سے قطع نظر، کہ پچھلے سو دنوں کے دوران وزارتوں نے جو کام کئے انکا پچھلے دس برس سے زائد کی مدت میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا، موجودہ حکومت کے بعض اقدامات اور مذکورہ اجلاس کی کارروائی سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معاملات کو شفاف رکھنا چاہتی ہے۔ اجلاس کی کارروائی سے ان افواہوں کی بھی نفی ہوگئی جو بعض وزراء کے بارے میں مفروضہ فیصلوں کے حوالوں سے پھیلائی جا رہی تھیں۔ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام وزرأ ’’پاس‘‘ قرار دیدیئے گئے۔ صدارتی نظام کے برعکس پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کے اختیارات نسبتاً زیادہ حدود اور ضابطوں سے مشروط ہوتے ہیں۔ اس کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ متعین طریقے سے کابینہ سازی کئے اور دوسرے مراحل طے کئے بغیر بعض اقدامات کر سکے۔ اس لئے پارلیمانی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں بڑی پیش رفتوں کی توقع کی بجائے یہ دیکھنا ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ وزارتوں اور محکموں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کس حد تک انتخابی منشور میں متعین مقاصد کے رخ پر ہے اور اہداف کی سمت اور پیش قدمی کی رفتار کس قدر درست یا ناکافی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نوع کے جائزے کابینہ کے اجلاس تک محدود رہنے کیلئے نہیں ہوتے، انہیں عوام اور پارلیمان کے سامنے لایا جانا ضروری ہے تاکہ جن وزراء نے اپنی کارکردگی میں زیادہ نمبر لئے ہیں، ان کی کامیابیوں کو پرکھا جا سکے اور مستقبل خصوصاً اگلی سہ ماہی کیلئے جو اہداف متعین کئے گئے ہیں ان پر عملدرآمد کی رفتار پر ارکان پارلیمان، مبصرین اور عام لوگوں کیلئے نظر رکھنا اور ضروری تجاویز دینا ممکن ہو۔ ہر تین ماہ بعد وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ اس اعتبار سے مستحسن ہے کہ فرضی کہانیوں پر مبنی رپورٹیں دینے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ رپورٹیں متعین اہداف کی بنیاد پر بنیں گی۔ ضرورت پڑنے پر مزید اصلاح و درستی کے مرحلوں سے گزریں گی اور یہ تعین کرنا آسان ہو جائیگا کہ سفر کس منزل تک پہنچا ہے۔ پیر کے روز منعقدہ اجلاس کی کارروائی سے اگرچہ حکومت کی سمت، کام کے انداز اور فریم ورک کے بارے میں حوصلہ افزا اشارے ملے ہیں مگر کیا ہی اچھا ہو کہ ہنگامی بنیادوں پر قلیل مدتی منصوبے بروئے کار لاکر عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی دلدل سے نکالنے کے اقدامات بھی سامنے آئیں۔

تازہ ترین