• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فواد چوہدری آدھے ولی ہو گئے ہیں، انہیں پورا ولی بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ جس طرح انہوں نے سیاسی منازل تیزی سے طے کی ہیں ،اسی طرح وہ ولایت میں بھی تیزی سے مسافت طے کر رہے ہیں۔ دو ہفتوں سے فواد چوہدری تسلسل سے بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اپنا آخری الیکشن لڑ چکے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے نااہلی کی منزل پچھلے سال ہی پا لی تھی، لگتا ہے کہ زندگی کی باقی چلہ کشیاں انہیں اڈیالہ میں نصیب ہوں گی۔ اگرچہ ان کے بارے میں دو مقدمات کا فیصلہ محفوظ ہو کر سنائے جانے کے انتظار میں ہے اور یہ انتظار بھی 24دسمبر کو ختم ہو جائے گا۔ اس دوران فواد چوہدری کی وکیلانہ مہارت یہی بتا رہی ہے کہ میاں نواز شریف اپنی سالگرہ تنہائی میں منائیں گے۔ فیصلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر نااہلی تو ختم نہیں ہو سکتی۔

آخری پیشی پر ادا کئے گئے جملوں کو تاریخ محفوظ کر چکی ہے جس میں میاں نواز شریف پیشیوں سے تنگ آ کر جج صاحب سے پوچھتے رہے کہ جج صاحب کیا یہ میری آخری پیشی ہے، یہاں انہوں نے فیض صاحب کا شعر بھی غلط پڑھ دیا، میاں صاحب جوشِ خطابت میں ردیف ہی تبدیل کر گئے۔ خیر انہوں نے نیب عدالت میں موقف ہی بدل لیا تھا۔ عدالت کے روبرو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے باپ اور اولاد کے کئے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ انہوں نے جو کچھ پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم کہا تھا اس سے انہیں استثنا دیا جائے، قوم سے خطاب کو بھی چھوڑ دیا جائے اور مشہور زمانہ قطری خط کو تو بالکل گھاس نہ ڈالی جائے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جو شخص ملک کے سب سے بڑے صوبے کا دو بار وزیر اعلیٰ رہا، تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا، اس نے نیب عدالت میں موقف کیوں تبدیل کیا، ویسے فیضؔ صاحب کا شعر کچھ اس طرح ہے کہ ؎

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

آج میں فیض احمد فیضؔ اور حبیب جالبؔ کے حوالے سے ایک ایک واقعہ آپ کی نذر کروں گا پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ کیوں مشکل حالات میں لوگوں کو یہ آزادی پسند شاعر یاد آتے ہیں۔ پہلے آصف علی زرداری کی بات کر لیتے ہیں کہ اُن کیلئے بھی 24دسمبر کی تاریخ بڑی اہم ہے۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے ہو سکتا ہے کہ اس وقت تک جے آئی ٹی کی مرتبہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جا چکی ہو، سنا ہے یہ رپورٹ قریباً ساڑھے سات ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے چھ سو افراد سے پوچھ گچھ کرنے کی کوشش کی، ستر ملک سے باہر پائے گئے اور ستر نے ایف آئی اے کو منہ ہی نہیں لگایا۔ کرپشن کے حوالے سے بڑا انکشاف ہونے جا رہا ہے، اومنی گروپ اسکینڈل میں اربوں کی کرپشن کی کئی یادگار داستانیں ہیں، بینکنگ کورٹ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو پہلے ہی دو تین مرتبہ ضمانت میں توسیع دے چکی ہے مگر اب 24دسمبر کو کافی سخت کام ہے۔ اس معلوماتی رپورٹ میں اومنی گروپ کی تمام حرکتوں کا تذکرہ ہے، کس طرح سندھ میں کرپشن کی رقم بے نامی اکائونٹس میں جاتی اور پھر کس طرح جناتی عمل کے تحت یہ رقم اومنی گروپ میں پہنچ جاتی اور پھر کس طرح پانچ کروڑ روزانہ کی بنیاد پر خاص جادوگری کے تحت اسے بیرون ملک منتقل کر دیا جاتا۔ یہ امرت دھارا انورمجید کے بیٹے اے جی مجید کے پاس تھا، اربوں کی داستانیں ہیں کوئی داستان گو 35ارب کہہ رہا ہے تو کوئی 80ارب کی لوریاں سنا رہا ہے، جے آئی ٹی کی زیادہ مدد اومنی گروپ کے لکشمی گرو یعنی چیف فنانشل آفیسر اسلم مسعود نے کی ہے، ان کا ویڈیو بیان ہی جان لینے کے مترادف ہے۔ مراد علی شاہ کے والد بزرگوار عبداللہ شاہ کو بھی نیب کے ہاتھ لگے تھے، اتفاق سے مراد علی شاہ بھی ویسے ہی کام کر بیٹھے ہیں۔ 2008ء سے پہلے اومنی گروپ کے پاس صرف ایک شوگر مل اور دو کمپنیاں تھیں اور پھر بقول اسحاق ڈار (برکت سے) 91کمپنیاں بن گئیں۔

چھوٹے موٹے اور بھی کام ہو رہے ہیں، دو ارب ڈالرز سے زائد کی حوالہ ہنڈی کرنے والے بیس اور پہلوان (امپورٹرز) سامنے آ گئے ہیں۔ نیب نے راولپنڈی سے نقدی کی صورت میں ڈالرز اور پائونڈز برآمد کر لئے ہیں۔

اس دوران کچھ اور لوگ اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کے بعض کردار پی ٹی آئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین دراڑیں تراش رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے، پاکستان میں تمام ادارے ایک پیج پر ہیں اسی لئے تو تمام ادارے متحرک نظر آ رہے ہیں۔ پوری قوم کا ایک پیج پر ہونا اچھی بات ہے کوئی بری بات نہیں ہے۔

پنجاب کابینہ کی کارکردگی پر مشتمل دو رپورٹیں وزیر اعظم عمران خان کو مل چکی ہیں۔ ایک رپورٹ سردار عثمان بزدار نے دی ہے، ایک رپورٹ وزیر اعظم نے اپنے ذرائع سے خفیہ طور پر تیار کروائی ہے، رپورٹس کے مطابق بہت سے وزراء کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ حیدر آباد جیل میں جیلر نے سب سے خستہ حال شخص سے کہا کہ ولی خان کے خلاف بیان لکھ دو، ابھی رہا کر دیں گے ورنہ یہیں گل سڑ جائو گے۔ گرفتار شخص مسکرایا اور کہنے لگا جیل میں تو شاید چند برس زندہ رہوں، معافی نامہ لکھ دیا تو چند دن بھی جی نہیں سکوں گا، اس شخص کا نام حبیب جالب تھا اور اسے جیل بھیجنے والے کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ جالب اے این پی کے لیڈر تھے انہوں نے بھٹو دور میں الیکشن ہار کر بہت ظلم سہے، ضیاء کے مارشل لا کے بعد انہیں رہائی ملی۔ آج پیپلز پارٹی کی قیادت جالبؔ کے اشعار پڑھتی ہے۔

فیضؔ صاحب ایک شام بیروت کے ایک ریستوران میں کافی پینے گئے، اکیلے بیٹھے تھے کہ وہاں ایک اور پردیسی آ گیا، اس نے فیضؔ صاحب سے پوچھا کہ کہاں کے رہنے والے ہو، بتایا پاکستان کا، پھر وہ شخص کہنے لگا کہ سنا ہے وہاں کا ایک شاعر ہے، بڑا انقلابی ہے، آزادیٔ اظہار پر یقین رکھتا ہے، جلا وطن ہے، اس کا نام فیض احمد فیضؔ ہے۔ فیضؔ صاحب کافی دیر اس کی باتیں سنتے رہے اور پھر اٹھتے ہوئے اسے بتایا کہ وہ شاعر میں ہی تو ہوں۔ فیضؔ صاحب کو ضیاء الحق کے مارشل لا کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، آج ضیاء الحق کی روحانی اولاد ان کے اشعار پڑھ کر دکھوں کا مداوا ڈھونڈ رہی ہے۔ فیضؔ صاحب کی دھرتی کی ایک شاعرہ ثوبیہ خان نیازی کا شعر پڑھتے جایئے، ہو سکتا ہے یہ شعر بھی کسی کے کام آ جائے کیونکہ جیل بھرو تحریک کا آغاز ہونے والا ہے۔ ؎

میری نظر میں تُو ہی تُو ہے

دل میں اپنا شہر بسا دے

تازہ ترین