• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کیخلاف مقدمات یا ریفرنسز فیصلوں کے مرحلے پر پہنچ گئے ہیں ۔ فیصلے کچھ بھی ہوں ، انکے پاکستان پر بہرحال گہرے سیاسی اثرات مرتب ہونگے ۔ خاص طور پر ملک کے اندر پولیٹکل پولرائزیشن میں اضافہ ہو گا ۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن جو صورت حال بن رہی ہے ، اسے کوئی بھی سیاسی استحکام سے تعبیر نہیں کر سکتا ۔ علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں کے اس عمل میں پاکستان کو داخلی اور سیاسی استحکام کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ۔

ہمارے ہاں سیاسی فتوے جاری کرنے کا رواج ہے ۔ آصف علی زرداری ، میاں محمد نواز شریف اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے مقدمات کو ملک کی سیاسی صورت حال سے جوڑنے پر بھی کچھ حلقے سیاسی فتویٰ جاری کر سکتے ہیں کہ ’’ کرپٹ ‘‘ لوگوں کے دفاع میں دلیلیں گھڑی جارہی ہیں حالانکہ ان حلقوں کو سیاسی عوامل کا شاید ادراک نہیں ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس وقت مفاہمت یا ’’ این آر او ‘‘ کیا ، جب وہ اس ملک پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کر رہے تھے اور ریاست کے تمام طاقتور اور حقیقی مقتدر حلقے ان کی پشت پر تھے ۔ اس پر انہیں سیاسی عوامل نے ہی مجبور کیا تھا ، جو آج بھی موجود ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی سیاسی صفائی والا یہی کام کرنے کی کوشش کی تھی ، جو آج پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی حکومت کے ’’ سیاسی ایجنڈا ‘‘ کے طور پر کرایا جا رہا ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف نے جلا وطن اور کسی حد تک سیاست سے باہر کر دیا تھا ۔ اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ سیاسی طور پر کمزور پاکستان کو امریکا اور اس کے حواریوں نے اس خطے میں اپنی جنگ کی آگ بھڑکانے کیلئے ایندھن کے طور پر استعمال کیا اور آج تک اس آگ میں ہم جل رہے ہیں ۔ جب مشرف نے دیکھا کہ ان کا انجام بھی جنرل ضیاء کی طرح ہونے والا ہے اور ملکی معاملات قابو سے باہر ہو رہے ہیں تو انہوں نے این آر او کیا تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں موجود ہیں ۔ اس طرح پرویز مشرف نے نہ صرف سیاسی قوتوں کو غیر موثر بنانے کا اپنا منصوبہ ازخود ختم کیا کیونکہ ملک اور خود انہیں بہت زیادہ نقصان ہو چکا تھا بلکہ انہوں نے سیاست دانوں کے احتساب کا عمل بھی خود غلط قرار دے دیا ۔ انہوں نے جن لوگوں پر کرپشن کے الزامات عائد کیے تھے، وہ سارے الزامات اپنے سر لے لئے اور ایک با رپھر ثابت کر دیا کہ پاکستان میں احتساب صرف سیاسی مقاصد کیلئے ہوتا ہے ۔ یہاں بلا امتیاز احتساب کا کوئی مضبوط اور شفاف نظام نہیں ہے ۔ پرویز مشرف نے ایک بارپھر احتساب کے عمل پر لوگوں کے شکوک و شبہات کو تقویت پہنچائی ۔ جی ہاں ! سیاسی عوامل ہوتے ہیں ۔ یہ عوامل داخلی بھی ہوتے ہیں اور خارجی بھی ۔

مقدمات اور ریفرنسز کے جو بھی فیصلے آج ہوں گے ، وہ عدالتوں کے ذریعے ہوں گے یا یوں کہنا مناسب ہو گا کہ عدالتیں ہی کریں گی ۔ جنرل پرویز مشرف کی طرح وزیر اعظم عمران خان کو این آر او کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی وہ کر سکیں گے ۔ پرویز مشرف حقیقی مقتدر حلقوں کے کہنے پر مفاہمت اور این آر او کر رہے تھے ۔ عدلیہ نے بھی اس وقت پرویز مشرف کے ان اقدامات کا ازخود نوٹس نہیں لیا تھا ۔ وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کا کردار بس اتنا ہے کہ وہ ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا نعرہ لگائیں اور جو کچھ ہو ، اسے وہ اپنا اقدام قرار دیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ماضی کے سیاستدانوں کے مقابلے میں آج کے سیاست دانوں کے ہاتھ صاف نہیں ہیں لیکن احتساب کا عمل پہلے کی طرح ہے ، جو زیادہ تر سیاست دانوں تک محدود ہے ۔

اب جبکہ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے مقدمات کے فیصلے ہونے والے ہیں ۔ تحریک انصاف کی حکومت کا امتحان شروع ہونے والا ہے ۔ اگر دونوں رہنماؤں کو سزا نہیں ہوتی ہے اور وہ بری ہوجاتے ہیں تو احتساب کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کی حکومت سیاسی طور پر کہاں کھڑی ہوگی ؟ اگر دونوں رہنماؤں کو سزا ہوجاتی ہے تو تحریک انصاف کی حکومت کو اپوزیشن کے سخت ردعمل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے لوگوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی عوامل کا ادراک کرنا چاہئے ۔ سیاسی عوام کے دباؤ میں انہوں نے میاں شہباز شریف کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین تسلیم کیا ۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کوئی بڑی سیاسی تحریک نہ بن سکے لیکن یہ حقیقت ہے کہ داخلی اور خارجی امور سے متعلق جب تحریک انصاف کی حکومت کو اہم فیصلے کرنا ہوں گے ، تب وہ سیاسی طور پر تنہا اور خود کو کمزور محسوس کرے گی کیونکہ اپوزیشن کا وہ تعاون اسے حاصل نہیں ہو گا ، جو عام طور پر سیاسی حکومتوں کو حاصل ہوتا ہے ۔ سیاسی پولرائزیشن کا فائدہ بعض دیگر طاقتوں کو ہو گا ۔

اس وقت دنیا بڑی تبدیلیوں کی زد میں ہے ۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر غیر موثر ہو چکا ہے ۔ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت سے صدیوں تک دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے والی سامراجی اور نو آبادیاتی طاقتیں لرز رہی ہیں ۔ امریکا واضح اعلان کر رہا ہے کہ اسے اور اس کے اتحادیوں کو صرف اور صرف چین سے خطرہ ہے ۔ یہ تمام طاقتیں چین کے خلاف صف آرا ہو رہی ہیں ۔ پاکستان کا عالمی سیاست میں ایک بار پھر مرکزی کردار بن رہا ہے کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اہم حصہ ہے ۔ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کی مجبوری سے دوچار ہے اور اسے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے اور اسے ان حالات کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے ۔ سیاسی طور پر کمزور پاکستان نہ تو کوئی فیصلہ کر سکے گا اور نہ ہی حالات کا مقابلہ کر سکے گا کیونکہ پاکستان عالمی طاقتوں کے ٹکراؤ کا ایک بار پھر میدان بن رہا ہے ۔ اس صورت حال میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی سیاسی قیادت ’’ ڈس کریڈٹ ‘‘ ہو رہی ہیں ۔ خود تحریک انصاف اپنی حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے سیاسی ساکھ برقرار رکھتی دکھائی نہیں دیتی۔ احتساب ضرور ہونا چاہئے لیکن ان حالات میں پاکستان کو سیاسی طور پر کمزور نہیں ہونا چاہئے اور سیاسی قوتوں کی ساکھ ختم نہیں ہونی چاہئے ۔ جب بھی پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن میں اضافہ ہوا ، پاکستان مشکلات کا شکار ہوا ۔ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی گرفتاری سے فوری طور پر بظاہر کچھ نہیں ہو گا لیکن اسکے ملک پر گہرے سیاسی اثرات مرتب ہونگے ۔

تازہ ترین