• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں ہماری ٹیم امارات میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کھیل کر آئی۔ آسٹریلیا کے خلاف کارکردگی بہت اچھی رہی مگر نیوزی لینڈ نے شاہینوں کو شکست فاش دی۔ مجھے کرکٹ دیکھنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے۔ کراچی میں جب بھی پاکستان غیرملکی ٹیم کے خلاف کھیلتا تھا تو میں میچ دیکھنے ضرور جاتا تھا۔ اس زمانے میں بھی کرکٹ مقبول ترین کھیل تھا۔ میں نے حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد، سعید احمد، وقار احمد، امتیاز احمد، فضل محمود، علیم الدین، خان محمد، محمود حسین، حفیظ کاردار وغیرہ جیسے جیّد کھلاڑیوں کا کھیل دیکھا ہے۔ مرحوم حنیف محمد (لِٹل ماسٹر) کو جوہر دکھاتے دیکھا تھا اور ان کو کراچی میونسپل کارپوریشن کی ٹیم کے کپتان فرید احمد کے پاس آتے دیکھا تھا۔ میرے مرحوم پیارے بھوپالی دوست اقبال الدین خان اس وقت وہا ں کام کرتے تھے میں اکثر جاتا رہتا تھا اور مرحوم حنیف محمد سے وہاں ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ پھر میں 1961ء میں برلن چلا گیا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے تو یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ واپس آیا تو جوش و ذوق نے پھر جنم لے لیا اور آج تک دلچسپی قائم ہے۔ میں نے KRL میں بریگیڈیر سجاول خان اور مقصود میاں کے ساتھ اعلیٰ اسٹیڈیم بنوایا، ہماری ٹیم نے لاتعداد انعامات جیتے جبکہ اس اسٹیڈیم میں غیرملکی ٹیموں نےبھی حصّہ لیا۔ عبدالرزّاق، شعیب اختر، مصباح الحق وغیرہ ہماری ٹیم کے کھلاڑی رہے ہیں۔ ہماری فٹبال ٹیم نے بھی ملک میں اور بیرون ملک بہت نام پیدا کیا ہے اور فٹ بال اور کرکٹ ٹیم کے کئی کھلاڑی ہمیشہ قومی ٹیموں کے اہم رکن ہوتے تھے۔ دیکھئے کرکٹ اور ہاکی بھوپال میں بھی بے حد مقبول تھے۔ بھوپال شہر میں دو ہائی اسکول تھے ایک ماڈل ہائی اسکول اور ایک الیگزینڈرا ہائی اسکول۔ میں الیگزینڈرا ہائی اسکول میں پڑھتا تھا۔ دونوں کے مقابلے بینظیر گرائونڈ پر ہوتے تھے اور یقین کیجئے کہ مقابلہ، ماحول، نظارے اور نعرے بازی کا وہی حال تھا جو ہندوستان و پاکستان کے میچوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم کا کپتان انصار احمد تھا جو ہاکی پلیئر مرحوم انوار احمد خان کا چھوٹا بھائی تھا۔ اس وقت میرے پاس مشہور کرکٹ کے شیدائی اور ادیب جناب نجم لطیف کی کتاب’سرحدوں کے باہر‘ یعنی Beyond the boundariesہے۔ یہ کتاب دراصل ہمارے مشہور اور اعلیٰ کھلاڑی یونس احمد نے لکھی تھی یہ مشہور بلّے باز اور کپتان سعید احمد کے چھوٹے بھائی ہیں۔اس کتاب پر نظرثانی اور اضافہ بہت اچھے انداز میں جناب نجم لطیف نے کیا ہے۔ یہ کتاب نہایت اعلیٰ پیرایہ میںلاہور سے اسی سال شائع کی گئی ہےجو نہایت دلچسپ اور معلوماتی ہے کرکٹ کے ہر کھلاڑی اور شوقین کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ یونس نے نہ صرف بعض ممالک کے کرکٹ کے بارے میں روشنی ڈالی ہے بلکہ وہاں کی سیاست، سیاسی ماحول، سیاسی شخصیات کے بارے میں بھی نہایت مفید باتیں لکھی ہیں۔ نجم لطیف نے نہ صرف کرکٹ بلکہ پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ اور کھلاڑیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرکے بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس سے پیشتر بھی انہوں نے وونڈڈ ٹائیگر کا اردو ترجمہ کیا ہے۔انھوں نے فضل محمود اور امتیاز احمد کی اہم مختصراً سوانح حیات لکھی ہیں، اس کے علاوہ ہسٹری آف کرکٹ اِن پاکستان نامی نہایت اعلیٰ تفصیلی کتاب لکھی ہے۔ میرے عزیز دوست ہیں،جب میں اپنےنام سے زیر تعمیر اسپتال کے معائنہ کیلئے جاتا ہوں تو ان سے ضرور ملاقات ہوجاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں دنیا کے مشہور ترین کرکٹرز کے تعریفی خطوط بنا م یونس احمد شائع کئےگئے ہیں۔ایک نہایت اہم کتاب (Textbook of Microscopic Anatomy) ہے، جو ہمارے ملک کے قابل پروفیسر ڈاکٹر ارباب عبدالودود نے بہت محنت سے میڈیکل کے بچوں کے لئے تیار کی ہے۔ اس کا نہ صرف مواد نہایت معلوماتی ہے بلکہ ناشر نے اعلیٰ کاغذ، نہایت اچھی، صاف تصاویر چھاپ کر اس خزینہ معلومات کا حق ادا کردیا ہے۔ ڈاکٹر ارباب نے MBBS & FCPS کی تعلیم حاصل کی ہے اور مختلف عہدوں پر کام کرکے آجکل کوئٹہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، کوئٹہ کے پرنسپل اور چیئرمین ایکیڈیمک کونسل بھی ہیں۔ ڈاکٹر ارباب کو تقریباً 40 سال کا تعلیمی تجربہ ہے۔ آپ نے انسانی جسم کی ساخت پر یہ اعلیٰ کتاب لکھ کر میڈیکل سائنس کے طلبا پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس کتاب میں آپ نے نہ صرف غیرملکی اعلیٰ کتب سے استفادہ کیا ہے اور ان کا حوالہ دیا ہے بلکہ ایک اچھے مسلمان کی حیثیت سے آپ نے طبّ نبوی اور احکام اِلٰہی کو مدنظر رکھ کر ان کی روشنی میں قرآنی آیات اور احادیث کے مصدقہ حوالہ جات دیئے ہیں جو ہم مسلمانوں کے ایمان کو تازہ کردیتے ہیں۔ ہندوستان میں تعلیم کا عام رواج ہے اور ہندو ہمیشہ سے اس میدان میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ آپ کو ہندوستان میں ہندوئوں کی تحریر کردہ ہر موضوع پر اعلیٰ کتب مل جاتی ہیں۔ میں نے خود ایف ایس سی اور بی ایس سی میں ہندوئوں کی تحریر کردہ کتب سے استفادہ کیا تھا۔ پاکستان میں بدقسمتی سے یہ رجحان عنقا ہے اسی لئے ڈاکٹر ارباب کی یہ کاوش نہایت قابل تحسین ہے۔

اَب شاعری کی جانب آپ سے توجہ مبذول کرنے کی درخواست ہے۔پچھلے دنوں مجھ سے ملنے مایہ ناز شاعر، نہایت قابل سابق سینئر سول سرونٹ جناب مرتضیٰ برلاس تشریف لائے، آپ کے ہمراہ جانی پہچانی شخصیت محترمہ عائشہ مسعود بھی تھیں جو اچھی کالم نویس ہیں۔ برلاس صاحب سے تقریباً 38برس سے دوستی ہے۔ 1991ء میں بہاولپور میں قائد اعظم میڈیکل کالج میں ایک فنکشن میں بطور چیف گیسٹ گیا تھا۔ سرکاری مہمان خانےمیں ٹھہرا تھا برلاس صاحب اس وقت کمشنر بہاولپور تھے، مجھ سے آکر ملے، باتوں باتوں میں علم ہوا کہ آپ نے آگرہ کی مشہور یونیورسٹی سے ریاضی میں امتیازی نمبروں سے M.Scکیا ہے۔ یہ یونیورسٹی ہندو پاکستان کی چند اعلیٰ یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ ریاضی پڑھنے والا ہر چیز کی موشگافیوں سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ کافی عرصے بعد میں نے اپنے ایک کالم میں ان کا یہ مشہور شعر پیش کیا:

ریا کے دور میں سچ بول تو رہے ہو مگر

یہ وصف ہی نہ کہیں اِحتساب میں آئے

چند ہی دنوں بعد برلاس صاحب کا محبت بھرا خط موصول ہوا کہ وہ اب ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہیں۔ انھوں نے مجھے اپنی نہایت اعلیٰ کلیات برلاس تحفتاً دی۔ ناشر سے میں نے کئی عدد کتب منگواکر دوستوں کو تحفتاً دیدیں۔ وہ کلیات کیا خزینۂ شاعری ہے آپ نے نہ پڑھی ہو تو ضرور پڑھیں۔ میں ان کی اعلیٰ، پرذوق شاعری کی وجہ سے ان کا شیدائی ہوں۔ پچھلی ملاقات میں آپ نے مجھے اپنی نئی کتاب، ’’لعل و گہر‘ بھی دی جس کو دیکھ کر اور بعد میں مطالع کرکے طبیعت خوش ہوگئی۔ دیکھئے سائنس و ٹیکنالوجی اپنی جگہ، مجھے شاعری، تاریخ اسلام اور کامیاب لوگوں کی سوانح حیات پڑھنے کا شوق اسکول کے زمانے سے ہی ہے۔ اس کتاب کے فلیپ پر ہمارے مشہور و معروف شعراء جناب آل احمد سرور، فیض احمد فیضؔ، جناب احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، قتیل شفائی، جناب عباس تابش اور جناب ڈاکٹر نواز کاوش کے نہایت قیمتی و اعلیٰ تاثرات درج ہیں۔

تازہ ترین