• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کے ’دوبارہ تعلیم‘ کے کیمپوں کا جبری مشقت کیلئے استعمال

بیجنگ : ایملی فینگ

جب چین کے نسلی طور پر قازق شہری ایبل امنٹے گزشتہ سال اپنا قازقستان کا گرین کارڈ رجسٹر کرانے مغربی چین کے علاقے سنیکانگ میں واپس آئے تو انہیں حراست میں لے لیا گیا اور بورٹالا پریفیکچر میں جنگھے کاؤنٹی کے دوبارہ تعلیمی مرکز بھیج دیا گیا۔

اس ماہ آخر کار سنکیانگ کی سہلوت کا دورہ کرنے کی اجازت ملنے کے بعد ایبل امنٹے کے والد نے اپنے بیٹے کو دیکھا اور معلوم ہوا کہ وہ مرکز کی ٹیکسٹائل فیکٹری میں ملازم ہے اور ماہانہ 95 ڈالر ( 650 رینمبی) کما رہا ہے۔ ایبل امنٹے کو اب مہینے میں دو بار قازقستان میں اپنی بیگم کو دوبار مختصرا زیر نگارنی فون کال کرنے کی اجازت ہے۔

ایبل امنٹے کی بگیم اور قازق شہری ایٹیکل گنگولی نے کہا کہ وہ زیادہ بات نہیں کرتے اور صرف اتنا کہتے ہیں کہ وہ بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔ لیکن ہر بار وہ کال پر بچوں کے ناموں، عمروں ، کون سی جماعتوں میں زیر تعلیم ہیں،کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کی یادداشت متاثر ہوئی ہے۔

2013 میں اس کے خاتمے سے پہلے چین کے دوبارہ تعلیم کے گلگ اسٹائل لاؤ جیاؤ نظام کے ذریعے لاکھوں افراد کو سیاسی مخالفین تصور کرکے جبری مشقت لی جاتی تھی۔ اس سال سنکیانگ کے اندر نظر بند کیمپوں میں جبری مشقت کے سامنے آنے سے پتہ چلتا ہے کہ بیجنگ لاؤ جیاؤ کے عناصر کی تشکیل نو کررہا ہے، ایبل امنٹے اس کیےتازہ ترین شکاروں میں سے ایک بن گئے ہیں۔

واشنگٹن یونیورسٹی میں ماہر بشریات جو سنکیانگ پر ماہر ہیں ڈیرن بائلر نے کہا کہ ایغور میں کیا ہورہا ہے اور ماؤ نواز دور میں ناپسندیدہ سیاسی پس منظر کے حامل افراد کے ساتھ کیا ہوا کے مابین مماثلت قابل ذکر ہیں،اس کے علاوہ اس وقت مخصوص اقلیتی نسلی گروپ کے اراکین کو جبری مشقت کی اس خارج از قانون کی قسم کے لئے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

2017 کے آغاز میں، چینی حکام نے نظر بندی کیمپوں میں ایغور مسلمانوں اور قازق سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف خارج از قانون قید کو استعمال کرنا شروع کیا۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ اس طرح کی جگہوں پر کم از کم دس لاکھ افراد قید کئے گئے ہیں اور چین کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔

بیجنگ نے نظر بندی کیمپوں کی ’پیشہ ورانہ تعلیم کے مراکز‘ کے طور پر تشکیل نو کی ہے،جس کا مقصد انہیں کمیونسٹ نظریات اور مینڈار زبان کی تعلیم دے کر قیدیوں میں مبینہ انتہا پسندانہ رجحانات کو ختم کرنا ہے۔

چینی حکام نے سنکیانگ اپنے وسیع پیمانے کے حراستی نظام کے دائرہ کار کو بڑھانے کے طور پر نظر بندی کے کیمپوں کے اندر جبری مشقت کی کی جگہیں تعمیر کرکے اسے مزید آگے لے گئے ہیں۔

چھ ایغور اور قازق قیدیوں کے خاندانوں کے ساتھ انٹرویو میں رشتہ داروں نے کہا کہ قیدی علاقے کے نظربندی کے مراکز سے گریجوییشن کے بعد معمولی یا بلا معاوضہ ٹیکسٹائل فیکتریوں میں ملازمت کررہے ہیں۔انہیں فیکٹریاں چھوڑنے اور رشتہ داروں سے رابطے کی اجازت نہیں ہے، اگر اجازت ملتی ہے تو کافی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔

قازق شہری سارا زینبی جن کا سنیکانگ کے للی پریفیکچر میں نئے سال کے موقع پر قید ہونے کے بعد اپنے شہور ڈکی جنشان کے ساتھ رابطہ ختم ہوگیا تھا، نے کہا کہ وہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ یہاں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں میں مزید بات نہیں کرسکتا کیونکہ میرے پیچھے ایک پولیس اہلکار موجود ہے۔انہیں اکتوبر میں اپنے رشتہ داروں کو یہ بتانے کے لئے دو منٹ کی کال کرنے کی اجازت ملی تھی کہ انہیں نظر بند مرکز سے فیکٹری منتقل کردیا گیا تھا۔

چین کے ریاستی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سنکیانگ کے سب سے بڑے نظر بندی کیمپوں میں سے دو کاشغر اور یوٹین کاؤنٹی پیشہ ورانہ تربیتی مراکز نے اس سال جبری مشقت کے مقامات تیار کئے ہیں۔ یوٹین کے حراستی مرکز نے جفت سازی، موبائل فون جوڑنے کا عمل اور چائے کی پتی پیک کرنے جیسی پیشہ ورانہ تربیت میں مہارت کی حامل آٹھ فیکٹریوں کا دعویٰ کیا،جو 15 سو رینمبی(220 ڈالر) بنیادی تنخواہ دیتی ہیں۔

آسٹریلیا کے تھنک ٹینک اسٹرٹیجک انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ حراستی مراکز 2016 کے مقابلے میں اب دو گنا بڑے ہیں اور اسی عرصے میں یوٹین کا حراستی مرکز 269 فیصد بڑھا ہے۔

ریاستی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ملازمین رضاکارانہ کام کرتے ہیں اور زبان کا معیار ماس کرنے اور قوانین سیکھنے کے بعد طالب علموں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

پارٹی کی جانب سے چلائے جانے والے روزنامہ سنکیانگ میں نومبر کی ایک رپورٹ کے مطابق مذہبی انتہا پسندی سے گمراہ ہونے والی زندگی کو بچانے کی ضرورت ہے۔مذہبی انتہا پسندی سے زہریلی ہونے والی زندگی کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ پیشہ ورانہ مہارت کی تعلیم اور تربیت کے بعد طالب علم واضھ طور پر غلط اور صحیح کی تمیز کرسکتے ہیں،ان کی ذہنیت بدل دی ہے اور اپنے تاریک ماضی سے نکل گئے ہیں، اور نئی زندگی کی جانب رہنمائی کررہے ہیں۔

سنکیانگ کے حکام نے تبصرہ کیلئے درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

اومبر بیک نور ماکمیٹ جن کی چینی نژادزوجہ زینبر دولت کوگزشتہ جولائی میں سنکیانگ کے چانگ جی پریفکیچر میں ہتوبی کاؤنٹی میں قید رکھا گیا تھا ، نے کہا کہ یہ رضاکارانہ کام نہیں ہے۔

زینبر دولت کے شوہر کے مطابق ستمبر سے ہوتوبی میں زینبر جبری مشقت کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتی ہیں اور اپنے فارغ اوقات میں وہ کئی کئی گھنٹے تک مینڈرین اور پارٹی پروپیگنڈہ سیکھتی ہیں۔

فیکٹریوں کو تفویض ہونے والے افراد کو مرکزی حراستی کیمپوں کے مقابلے میں حکومت کی سختی میں کمی کا سامنا ہوتا ہے،جیسا کہ انہیں ماہانہ زیر نگرانی وزٹ اور خاندان کے افراد کی جانب سے مختصر فون کال موصول کرنے کی اجازت ہے۔

ایک زیر حراست شخص کے بھائی، جس نے اپنا نام ظاہر کرنے اور وہ اور ان کا خاندان چین میں کہاں رہتا ہے کے بارے میں بتانے سے انکار کیا، کے مطابق کیمپ میں ان کے بھائی کے استاد نے کہا کہ انہوں نے سیاسی تدریس کی بہت اچھی تعلیم حاصل کی تھی اور ان کی چینی زبان بہت اچھی ہے، جس کی وجہ سے وہ گارمنٹ فیکٹری میں کام کیلئے گریجویٹ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کی فیملی کے مطابق قیدی ایغور دندان ساز کو سلائی مشین چلانا سکھایا گیا اور نومبر میں تین سال کی مزدوری کی سزا دی گئی۔

تاہم دیگر کا کہنا ہے کہ ان کا اپنے قید میں پیاروں کے ساتھ رابطہ ختم ہوچکا ہے،جبکہ چین کے اندر حکام اور رشتہ داروں کو کالز کا جواب نہیں دیا جاتا ہے۔

پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والی 25 سالہ ریزیلا نورالہ ، جو 2016 میں اپنے خاندان کے ساتھ قازقستان نتقل ہوگئی تھیں،ایک مارکیٹنگ ایجنسی میں کام کرنے کے لئے واپس آنے کے بعد اگست میں سنکیانگ کے چٹائی کاؤنٹی کے حراستی مرکز میں قید رکھا گیا۔نومبر میں انہیں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام پر رکھا گیا۔

ریزیلا نورالہ کی والدہ کالیسغر نربک جو اب مستقل قازق شہری ہیں، نے کہا کہ میری بیٹی کو دوبارہ تعلیم کے لئے بھیجنا غیر ضروری ہے کیونکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور قابل قدر کام کے تجربہ کی حامل ہے۔

نومبر میں ریزیلا نورالہ کی خالہ کو چٹائی کاؤنٹی میں ان سے ملنے کی اجازت ملی۔ ریزیلا نورالہ نے انہیں بتایا کہ انہیں اجرت نہیں دی جارہی تھی اور فیکٹری کی مشین چلاتے ہوئے ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا لیکن مزید کچھ بتانے سے وہ بہت گھبرا رہی تھی۔

کالیسغر نربک نے کہا کہ اس سے کوئی رابطہ نہیں کرسکتا اور اسے گھر جانے کی بھی اجازت نہیں ہے، وہ مکمل طور پر تنہا ہے۔

تازہ ترین