• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے اپنے اب تک کے دورِ اقتدار میں جو سب سے بڑا کارنامہ انجام دیا یا کام کیا ہے وہ وزیراعظم ہائوس کو نیشنل یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا ہے، یہ کام اتنا آسان نہیں تھا اور نہ ہی کوئی منتخب وزیراعظم اس جگہ پر اتنا بڑا قدم اٹھانے کی ہمت کرتا، جہاں وہ پورے ملک کا ’’بابا‘‘ بن کے حکمرانی کرتا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر تعلیم اور امورِ قومی ورثہ شفقت محمود کو کریڈٹ دینا ضروری ہے جن کی ہمت اور مستقل مزاجی سے بیورو کریسی اور خاص طور پر سیکورٹی ادارے اس بات پر راضی ہوئے۔ بہرحال یہ اچھا اقدام ہے، بہتر ہو گا اگر اس جگہ کا ایک حصہ ’’قومی میوزیم‘‘ کے لئے مختص کر دیا جائے جہاں ہر دور کے وزیراعظم کے اچھے کاموں، ناکامیوں اور کرپشن کے الزامات کا بھی چھوٹا موٹا تذکرہ ہو۔ خاص کر ہر شخصیت کی حلف اٹھانے کی تقریب میں شان سے آنے کا منظر اور پھر اقتدار سے علیحدگی کہ یہ کس طریقے سے ہوئی، اس کا مختصر سا تذکرہ ہونے سے ہماری قوم بالخصوص نوجوانوں کو ہمارے حکمرانوں کے ہر طرح کے کارناموں سے آگاہی حاصل ہو سکے گی۔ اس طرح غیر ملکی وفود کو یہاں آنے جانے کی اجازت ہونی چاہئے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو ٹاسک سمجھ کر سوچنا چاہئے، اس لئے کہ ان کا ایک خاص سیاسی پس منظر ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی مشاورت سے وہ بہتر اور قابل عمل چیز تجویز کر سکتے ہیں۔

اب آ جاتے ہیں پاکستان کو سعودی عرب سے 6ارب ڈالر کے وعدے اور اس کے پہلے مرحلہ پر عملدرآمد کے بعد کی صورتحال پر، متحدہ عرب امارات کی طرف سے 3ارب ڈالر کی اسپورٹ کا حتمی اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان پر دیگر مسلمان ممالک بالخصوص ملائیشیا، سعودی عرب کے بعد سب سے بڑے اعتماد کا اظہار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی امداد سے ہنگامی معاشی صورتحال بہتر بنانے کا مرحلہ طے ہونے کے بعد اب حکومت کا یہ فرض ہے کہ قومی معاشی ترقی کے اس ایجنڈے پر کام کا آغاز کرے جس سے مقامی کاروباری افراد اور کمپنیوں کا اعتماد بحال ہو سکے۔ انہیں روز بروز بدلتی سیاسی صورتحال پر خاصی تشویش ہے۔ دوسرا عوامی توقعات کے مطابق ’’گورننس‘‘ کے حالات بہتر نہ ہونے سے بھی خود پی ٹی آئی کے خاموش حلقوں کے جذبات کچھ ٹھنڈے ہوتے جا رہے ہیں۔ اوپر سے سردی کا موسم! اس سے کہیں سارے جذبات ہی ٹھنڈے نہ ہو جائیں اس لئے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ وزیر خزانہ اسد عمر کو اس حوالے سے خصوصی ٹاسک دیں جو خود چاہتے ہیں کہ ملک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی جلد سے جلد آنی چاہئے۔ اس سلسلہ میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے ایسا معاشی پلان بنانے کی ضرورت ہے جس سے ایک طرف کاروباری سرگرمیوں کی عملی طور پر بحالی نظر آ سکے اور دوسری طرف بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے کی جانے والی کوششوں کے کچھ مثبت نتائج سامنے آ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں بار بار غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار ختم کر کے داخلی معیشت کو اتنا مضبوط بنانے کی حکمت عملی بنائی جائے جس میں بار بار کشکول اٹھانے یا اسے ختم کرنے کے سیاسی اعلانات کی ضرورت نہ پڑے۔ پاکستان کی معیشت کو صحیح سمت میں چلانے کے لئے زراعت اور SMEسیکٹر پر انحصار بڑھانے کے لئے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر معاشی مسائل کے حل کے لئے اقدامات کئے جا سکتے ہیں جبکہ وزیراعظم ہائوس میں نیشنل یونیورسٹی کے قیام کے بعد چاروں صوبوں کے گورنر ہائوسز میں بھی اس کے صوبائی کیمپسز بنانے کی تجویز پر غور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر ملک میں تعلیم کے فروغ اور جہالت کے خاتمہ کے حوالے سے ایک اچھا پیغام دیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین