• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی آبادی میں گزشتہ چند عشروں میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اُس نے ہر ذی شعور کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے اسلام آباد میں ’’بڑھتی ہوئی آبادی پر توجہ‘‘ کے عنوان سے ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا جس میں وزیراعظم عمران خان کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے حاضر اور ریٹائرڈ جج صاحبان، صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراء، ایم این ایز، علماء کرام اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ چیف جسٹس نے سمپوزیم کی اہمیت کے حوالے سے شرکاء کو بتایا کہ 60سال میں آبادی کے کنٹرول پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے آج ایک مسئلے کی صورت اختیار کرلی ہے جو کسی بحران سے کم نہیں اور آبادی پر قابو پانے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ہماری فیملی پلاننگ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، ہمیں آبادی پر قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے اور تعلیم کے ذریعے بڑھتی آبادی پر قابو پانے کیلئے مہم چلائیں گے اور قانون سازی کی جائے گی۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ملک کی آبادی 4 کروڑ افراد پر مشتمل تھی جبکہ 1998ء کی مردم شماری میں ملک کی آبادی 14کروڑ نفوس تک جاپہنچی تاہم صرف 20سالوں میں پاکستان کی آبادی 20کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے ۔اس طرح گزشتہ 6 دہائیوں میں آبادی میں 5گنا اضافے کے ساتھ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکا ہے اور اگر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو 2050ء تک پاکستان کی آبادی 30کروڑ تک جاپہنچے گی۔ دنیا بھی آج بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے دوچار ہے۔ سن 1800 ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب نفوس پر مشتمل تھی جو 130سالوں میں دگنی یعنی 2ارب ہوگئی اور پھر صرف 30 سالوں میں بڑھ کر 3ارب ہوگئی، اس طرح دنیا کی آبادی میں ہر سال 10 سے 12 سالوں میں ایک ارب لوگوں کا اضافہ ہورہا ہے اور آج دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب تک پہنچ چکی ہے لیکن افسوس کہ ان میں سے ایک ارب سے زائد افراد خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک چین ہے جس کی آبادی ایک ارب 41کروڑ، دوسرے نمبر پر بھارت ایک ارب 36کروڑ، تیسرے نمبر پر امریکہ 32 کروڑ، چوتھے نمبر پر انڈونیشیا 26 کروڑ، پانچویں نمبر پر برازیل 21کروڑ اور پاکستان 20 کروڑ آبادی کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی کی شرح 2.4فیصد، بھارت میں 1.13فیصد، ایران میں 1.2فیصد، سری لنکا میں 1.1 فیصد اور بنگلہ دیش میں ایک فیصد ہے جبکہ صرف پڑوسی ملک افغانستان میں آبادی کی شرح پاکستان سے زیادہ یعنی 2.5 فیصد ہے۔ اگر پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کی یہی رفتار رہی تو بہت جلد پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹے سے پانچویں نمبر پر آجائے گا۔

جنرل ایوب خان نے 60ء کی دہائی میں آبادی کی منصوبہ بندی کیلئے ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ جیسی مہم شروع کی جسے مشرقی پاکستان کیلئے سمجھا جاتا تھا۔ اس پروگرام کی مذہبی حلقوں کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی۔ بعد ازاں آبادی پر کنٹرول کے سلسلے میں قائم کی گئی بہبود آبادی کی وزارت بھی ٹی وی چینلز و اخبارات میں ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ جیسے اشتہارات پر پیسوں کا ضیاع کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوگئی۔ بنگلہ دیش جیسے ملک، جس کی 1971ء میں آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی، نے آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے مساجد اور علماء کا استعمال کیا جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور بنگلہ دیش شرح آبادی پر قابو پانے میں کامیاب رہا ۔ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے ملک چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں فیملی پلاننگ سے قبل 1970ء تک اوسطاً فی خاندان 5 بچوں پر مشتمل ہوتا تھا مگر 1971ء میں فیملی پلاننگ کے نتیجے میں شرح پیدائش میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔

موجودہ دور میں زیادہ آبادی کے بجائے ہنرمند، تعلیم یافتہ اور صحت مند آبادی کو معاشی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ بے تحاشہ آبادی جو تعلیم اور ہنر سے بے بہرہ اور صحت مند نہ ہو، وہ ملک اور معاشرے کی ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے الٹا بوجھ بن جاتی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کیلئے اپنی پالیسی پر ہنگامی بنیادوں پر نظرثانی کرے اور اس سلسلے میں علماء کی مدد حاصل کی جائے اور ایسے اقدامات کئے جائیں جس کے تحت خاندانوں کی مالی امداد کو شرح پیدائش میں کمی سے مشروط کیا جائے جبکہ کم بچے رکھنے والے خاندان کے سربراہ کو مراعات اور روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جائے لیکن اگر آبادی پر قابو نہ پایا گیا اور ملک کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو مستقبل میں معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ غربت اور بیروزگاری کے باعث بدامنی اور دہشت گردی جیسے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

گوکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی مدت ملازمت آئندہ سال جنوری میں ختم ہورہی ہے مگر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں ملک کو درپیش دو بڑے مسائل پر لوگوں کی توجہ مبذول کروائی جن میں پانی اور آبادی جیسے بڑے مسائل شامل ہیں۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ان مسائل کو کتنا سنجیدہ لیتی ہے کیونکہ پانی کی قلت اور آبادی میں ہوشربا اضافہ ’’ٹائم بم‘‘ کی مانند ہے جس کے پھٹنے کی صورت میں بڑی تباہی کا اندیشہ ہے ۔

تازہ ترین