دنیا آٹومیشن اور جدیدیت کے باعث تیزی سے بدل رہی ہے۔ہر چندکہ، تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی کھپت ہمیشہ رہتی ہے مگر ان میں سے ایک تہائی افراد خصوصاً لڑکیاں بے روزگار ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق آئندہ ایک عشرے میں تقریباً ایک ارب نوجوان نوکری کے حصول کے لیے مارکیٹ میں آئیں گے، ان میں سے 60کروڑ نوجوان لڑکیاں ہوں گی اور ان میں سے 90فیصد لڑکیوں کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوگا۔ یہ لڑکیاں غیر رسمی شعبوں میں کام کریں گی، جہاں آج تنخواہ کی عدم ادائیگی، غیر قانونی طور پر کام لینا اور ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔
ایشیا کی صورت حال
ایشیا کو عالمی معیشت کی ترقی کا انجن سمجھا جا تا ہے۔1980ء کے عشرے سے، اس خطے میں معاشی ترقی نے کروڑوں افراد کو غربت سے نکالا ہے اور اس دوران عالمی معیشت میں ایشیا کا حصہ دُگنا ہوچکا ہے۔ البتہ، حالات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ ایشیا کی معاشی ترقی سُست پڑسکتی ہے۔
چین اور بھارت ، اب دُہرے ہندسوں میں ترقی نہیں کررہے، ایشیا کے کئی ممالک ’مڈل انکم‘ کے بریکٹ میں پھنس کر رہ گئے ہیں جبکہ زائد آمدنی والے ممالک اپنی معاشی نمو کو بڑھانے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں، تاہم انھیں اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوپارہی۔ اس میں ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی آبادی اور عدم مساوات جیسے مسائل شامل کریں تو صورت حال کافی کٹھن اور چیلنجنگ رُخ اختیار کرتی نظر آتی ہے۔
سیاست دانوں، پالیسی سازوں اور معاشی پنڈتوں نے اس مسئلے پر کافی سوچ بچار کیا ہے کہ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ ایشیا کی معیشت اس رفتار سے بڑھنا رُک گئی ہے، جس کی اس سے توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود، ایشیا کے پاس اب بھی وہ وسائل ہیں، جن کو اگر ٹھیک طور پر بروئے کار لایا جائے تو ایشیااپنی تیزی سے کھوتی ہوئی لیڈرشپ پوزیشن کو بحال کرسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وسیع، طاقتور اور باصلاحیت لڑکیوں کی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لایا جائے، جنہیں اب تک موقع نہیں دیا گیا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق، ایشیا کے خطے میں مجموعی طور پر، 50فیصد سے بھی کم خواتین ’ورک فورس‘ کا حصہ ہیں جبکہ ایشیا میں جو خواتین کام کرتی ہیں، انھیں اپنے مرد ساتھیوں کے مقابلے میں کم از کم 25فیصد کم معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی تحقیق کے مطابق، معیشت میں لیڈرشپ پوزیشن یعنی ٹاپ مینجمنٹ پوزیشن پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد ایک تہائی ہے۔
صنفی عدم مساوات کی قیمت
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جنسی عدم مساوات کے باعث ایشیا ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ میکنزی نے تخمینہ لگایا ہے کہ اگر ایشیا میں اس صورت حال کو نہ بدلا گیا تو 2025ء میں عالمی معیشت کو سالانہ ساڑھے چار ٹریلین امریکی ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ، خواتین کی صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار نہ لانا، ایک سال میں جاپان جیسے پورے ایک ملک کی ساری معاشی پیداوار کو ضائع کرنے کے متراد ف ہوگا۔
ایشیا کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں میں سرمایہ کاری کرے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرسکے، جو ایشیا اور معاشی ترقی کے مابین کھڑی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی چیزیں ہیں، جو کاروباری طبقہ، حکومتیں اور سول سوسائٹی کرسکتی ہیں، جن پر فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
خوف کا کلچر
ایشیائی شہروں میں لڑکیوں کے لیے خوف کے کلچر کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ اس کا ایک جزو یہ ہے کہ رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی، تاہم رویوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہمیں لڑکیوں کے لیے سیفٹی انفرا اسٹرکچر کو بھی تعمیر کرنا ہوگا۔ بڑھتی شہری آبادی کے دور میں، جہاں خواتین اور لڑکیوں کو شہروں میں روزگار کے پہلے سے زیادہ مواقع میسر آرہے ہیں، یہ حقیقت ناقابل برداشت ہونی چاہیے کہ وہ جنسی ہراسگی یا دیگر وجوہات کے باعث گھر سے باہر نہ نکل پائیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس، ایشیا کے تیزی سے ترقی کرتے شعبے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان شعبوں میں خواتین کو کام کرنے کے یکساں مواقع میسر آئیں۔ اس کے علاوہ تعلیم کے میدان میں اب اس تعصب کو ختم کیا جائے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس(STEM)کے شعبے صرف لڑکوں کے لیے ہیں، ان شعبوں میں لڑکیوں کو تعلیم دینے کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔
ہنر اور رول ماڈل
حکومتوں کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں کہ تعلیم کے ہر مرحلے پر ڈیجیٹل ہنر کے ساتھ ساتھ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی(ICT)کے کورس نہ صرف دستیاب ہوں بلکہ لڑکوں اور لڑکیوں کو مواقع بھی یکساں طور پر دیے جائیں۔ تعلیم اور تربیت کے وسائل میں مردوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے۔ اجارہ داری کی ایک مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ تعلیم دیتے وقت Male onlyمثالیں پیش نہ کی جائیں۔ نجی شعبے کو خصوصی طور پر، ان باصلاحیت نوجوان لڑکیوں کو اپرنٹس شپ اور ووکیشنل ٹریننگ کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں، جن کے پاس روایتی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے وسائل دستیاب نہ ہوں۔ حکومتوں اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنےوالی کمپنیوں کو خواتین کی آن لائن پرائیویسی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات اور قانون سازی کرنی چاہیے، تاکہ خواتین اور لڑکیوں کی آن لائن ہراسگی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔
اس کے علاوہ، اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ لڑکیوں کے پاس صحیح رول ماڈل اور مینٹور دستیاب ہوں، جو انھیں مستقبل میں قائدانہ کردار دینے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔