• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ نے ،جس کی بنیاد پر سابق صدر آصف زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت 172 اہم سیاسی و کاروباری شخصیات کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دئیے گئے ہیں، ملک میں سیاسی ہیجان پیدا کر دیا ہے اور ایسے وقت میں جب پہلے سے موجود سیاسی اقتصادی اور مالیاتی استحکام کیلئے مفاہمت رواداری اور ہم آہنگی کے ماحول کی ضرورت ہے، تحریک انصاف کی وفاقی اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت میں ٹکرائو کی فضا پیدا ہو گئی ہے اور دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کی جانب سے ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ پیر کو کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس صورت حال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ تو صرف ایک شکایت ہے کوئی آسمانی صحیفہ نہیں، پھر لوگوں کے نام ای سی ایل میں کیوں ڈالے گئے؟ وفاقی حکومت کا موقف تھا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ کے خط پر یہ قدم اٹھایا گیا۔ جناب چیف جسٹس نے قرار دیا کہ جے آئی ٹی نے ایسا کر کے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے، وفاقی کابینہ اس اقدام کا دوبارہ جائزہ لے۔ قانونی ماہرین اور مبصرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جعلی اکائونٹس کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ نے مانگی تھی اسی نے اس پر کوئی فیصلہ کرنا تھا مگر عدالت میں سماعت سے قبل ہی رپورٹ کی روشنی میں 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دے دی گئی اور وسیع پیمانے پر اس کی تشہیر بھی کی گئی اس طرح کسی عدالتی کارروائی کے بغیر متاثرہ لوگوں کی رسوائی کا سامان پیدا کیا گیا۔ میڈیا میں ایک دوسرے کی تضحیک اور کردار کشی کی مہم شروع ہوگئی۔ بعض وفاقی وزرا نے سندھ میں گورنر راج لگانے یا مراد علی شاہ کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی باتیں کیں جس کا پیپلز پارٹی کی طرف سے وفاق میں جواب دینے کے اشارے ملنے لگے۔ پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت چار پانچ ارکان کی اکثریت پر قائم ہے وہ ادھر ادھر ہو جائیں تو وزیراعظم نہیں بچ سکیں گے جبکہ تحریک انصاف کے لیڈروں کا کہنا تھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی 99کے مقابلے میں ان کے پاس 64اراکین موجود ہیں، پیپلزپارٹی کے کئی ارکان ان سے رابطے میں ہیں اور زرداری کے بندے ٹوٹ رہے ہیں اس لئے مراد علی شاہ کی حکومت کے خلاف کسی وقت بھی تحریک عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے واضح کر دیا ہے کہ سندھ میں گورنر راج لگے گا نہ 18ویں آئینی ترمیم کو چھیڑا جائے گا لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دی کہ بدلے میں سندھ حکومت آصف زرداری کیس کا شفاف ٹرائل ہونے دے اور مراد علی شاہ کی جگہ کوئی دوسرا وزیراعلیٰ لائے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری نے سندھ میں مختلف مقامات پر جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ سندھ سے نکلنے والی گیس سندھ کو نہیں دی جا رہی ہے اور بجلی، گیس اور پیٹرول مہنگا کر دیا گیا ہے جس سے مہنگائی عروج پر پہنچ گئی ہے ۔جناب چیف جسٹس ثاقب نثار نے جے آئی ٹی رپورٹ اور ای سی ایل کے معاملے پر جو ریمارکس دیئے ہیں اس سے توقع کی جانی چاہئے کہ سیاسی ماحول میں جو گرما گرمی پیدا ہوئی اس میں کمی آئے گی کیونکہ جمہوریت قانون کی حکمرانی اور سیاسی استحکام کا یہی اولین تقاضا ہے۔ اب یہ حکمران جماعت سمیت سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانونی معاملات کے فیصلے عدالتوں پر چھوڑیں اور عجلت میں کوئی نتیجہ اخذ کر کے محاذ آرائی کو ہوا نہ دیں۔ ملکی معیشت اس وقت شدید دبائو کا شکار ہے، مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں بے محابا اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ملک سیاسی محاذ آرائی اور عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز ملکی مفاد کو اولین ترجیح دیں اور سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کی بجائے ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں۔

تازہ ترین