• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے پاکستان کی تازہ ترین سفارتی مہم کے تناظر میں عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں‘ پاکستان اور ترکی کی جانب سے پاک ترک افغان سربراہوں کی کانفرنس بلانے پر اتفاق رائے ایک اہم پیش رفت ہے، جس سے علاقائی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کی کوششوں کو مہمیز ملے گی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس سلسلے میں حال ہی میں روس سمیت بعض ہمسایہ ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ افغان مسئلہ پر تینوں ملکوں کی سربراہ کانفرنس بلانے کا فیصلہ انقرہ میں جمعہ کو وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردوان کی ملاقات میں ہوا اور بعد میں دونوں ملکوں کے وفود کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں اس کی تفصیلات طے کی گئیں۔ مجوزہ سہ فریقی کانفرنس جو اعلیٰ سطحی اسٹرٹیجک میٹنگ ہو گی، ترکی میں مارچ کے بلدیاتی انتخابات کے بعد استنبول میں منعقد ہونا طے پائی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے دورۂ ترکی کے موقع پر ترک صدر سے ان کی ون آن ون ملاقات میں افغان امن پر تبادلہ خیال کے علاوہ دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات اور باہمی تعاون کو مزید وسعت دینے کیلئے پاکستان میں ترک سرمایہ کاری، باہمی تجارتی حجم اور اسٹرٹیجک شراکت داری بڑھانے، تجارت، صحت اور زراعت کے فروغ کیلئے ٹیکنالوجی کے تبادلے اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ بات چیت کے بارے میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اور دونوں ملکوں کے سربراہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردون نے کہا کہ 2019ء پاکستان اور ترکی کیلئے نہایت اہم سال ہو گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ترکی اپنے دفاعی نظام میں شامل میزائل پاکستان کو فراہم کرے گا، پاکستان پہلے ہی فضائیہ کیلئے تربیتی طیارے ترکی کو دے رہا ہے۔ ترکی قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان کا قریبی اتحادی ہے اور مسئلہ کشمیر پراس نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ صدر اردوان نے ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کے حقِ خود ارادی کی حمایت کا اعادہ کیا اور مشترکہ اعلامیہ میں بھی ترکی کی جانب سے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اور پاک بھارت مذاکراتی عمل سے حل کرنے پر زور دیا گیا۔ اعلامیہ میں نیو کلیئر اسپلائرز گروپ میں شمولیت کیلئے پاکستان کی حمایت اور داعش و گولن دہشت گردوں کے خلاف تعاون کا عہد کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں داعش کے خلاف جنگ میں ترکی کا ساتھ دینے کی پالیسی کا اعادہ کیا۔ انہوں نے ہائوسنگ کے شعبے میں ترک کمپنیوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ظاہر کی جو غریبوں کیلئے 50لاکھ گھر تعمیر کرنے کیلئے بہت فائدہ مند ہوں گے۔ وزیراعظم نے تعلیم، عدالتی نظام اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات کی خواہش کا بھی ذکر کیا۔ اس حوالے سے بھی ترکی کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا دورہ اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ عالمِ اسلام اس وقت سنگین بحرانوں کا شکار ہے اور پاکستان اور ترکی ان کے حل میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دونوں ملک گہرے ثقافتی، تاریخی اور دفاعی رشتوں میں منسلک ہیں جو اب مضبوط اقتصادی تعاون کی شکل اختیار کر رہے ہیں، جدید ترکی قائداعظم محمد علی جناح کیلئے بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا اور انہوں نے اسی کی طرز پر پاکستان کی تعمیر کی خواہش ظاہر کی تھی۔ دونوں ملک 2016ء کے ایک اعلامیہ کے مطابق اسٹرٹیجک شراکت داری میں بھی منسلک ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی سے دلی وابستگی کے اظہار کیلئے وہاں کی جنگِ آزادی کی کامیابی کیلئے فراخ دلانہ عطیات ترکی بھیجے، ترکی اوّلین ملکوں میں شامل تھا جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے اس کو تسلیم کیا۔ اِس وقت پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور ترکی بھی عالم اسلام میں ایک بڑی قوت کا حامل ہے۔ دونوں مل کر نہ صرف ایک دوسرے کی ترقی و خوشحالی بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ توقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورے سے دونوں ملکوں کی دوستی مزید مستحکم ہو گی۔

تازہ ترین