• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کون لوگ ہیں اور پتہ نہیں کیا چاہتے ہیں اور اس ملک کو کدھر لے کر جارہے ہیں؟ کون ہے جو اس ملک کو مکمل تباہی کی طرف دھکیل رہاہے؟ دنیا کے کئی معاشرے اپنے ملک میں صحت کی سہولیات کے لئے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ہر طرح کی امداد مانگتے پھرتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ باہر کے ادارے ہمارے ملک سے پولیو کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں اورہم ان لوگوں کو مارنے پرلگے ہوئے ہیں۔ وہ خواتین جوہمارے بچوں کوزندگی بھر کی معذوری سے بچا رہی تھیں ہم نے ان بیگناہوں کو مار دیا۔ کیاروز ِ قیامت ان مارنے والوں کے پاس ان بیگناہ خواتین (جن کو ایک روزکی ڈیوٹی کے صرف اورصرف ڈھائی سو روپے ملتے تھے) مارنے کاکوئی جواز ہوگا؟ کراچی اورپشاور میں پولیوٹیموں پرحملوں کے بعد عالمی ادارہ ٴ صحت اور یونیسیف نے اپنی ٹیموں کو کام سے روک دیا ہے۔ نقصان کس کا ہوااورکس کاہو رہا ہے؟ صرف اورصرف اپنے ملک کے لوگوں گا۔
ذرا دیر کو سوچئے کہ جس خاندان کا صرف اور صرف ایک بیٹا/بیٹی ہی ہے اوروہ بروقت پولیو کے قطرے نہیں پی سکا یا پی سکی اوراب پولیو کا وائرس اس پرحملہ کر دیتاہے اور وہ زندگی بھرمعذوری کا شکارہوجاتا/ جاتی ہے۔تواس کا ذمہ دارکون؟ ایک توپہلے ہی ہمارے ملک میں غربت اورصحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں۔ ان حالات میں ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمارے دوست اور پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے مشیر ڈاکٹر طارق اقبال بھٹہ نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ ”بنگلہ دیش ہم سے کیا آزاد ہواوہ ہر طرح کی بیماری اوربرائی سے بھی آزاد ہو گیا۔“آج بنگلہ دیش پولیو فری ملک بن چکا ہے۔آج وہاں آبادی کی شرح کے بڑھنے کا تناسب بھی پاکستان سے کم ہو چکا ہے۔ اس سال پاکستان میں 56 پولیو کیس ہوئے ہیں۔ پنجاب میں دو، سندھ میں دو، فاٹا میں 21اور کے پی کے میں 26 پولیو کے کیس آئے جبکہ گلگت، سکردو میں پچھلے سال ایک کیس ہوا۔افغانستان میں 34 پولیو کے کیس ہوئے اور نائیجیریا میں 150 پولیو کیس ہوئے۔ آج سوڈان اور صومالیہ پولیو فری ملک ہوچکے ہیں حالانکہ ان دونوں ممالک میں برس ہا برس سے خانہ جنگی جاری رہی ۔ لیکن ہمارے حالات سوڈان اور صومالیہ سے کئی درجے بہتر ہیں لیکن ہم سوڈان اورصومالیہ سے بھی پیچھے آچکے ہیں۔امریکہ بہادر آج سے تیس برس قبل پولیو فری ملک ہوچکا ہے۔ اگرہم نے پولیو کی ٹیموں پر اسی طرح حملے جاری رکھے اور اپنے ملک کو پولیو فری نہ کیا تو اپریل /مئی 2013 میں ہم پر کئی طرح کی پابندیاں لگ جائیں گی اورجو لوگ پاکستان سے دوسرے ممالک میں سفر کریں گے انہیں ہر صورت اس بات کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا کہ ان لوگوں نے پولیو کے قطرے لازمی طور پر پیئے ہوئے ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ سعودی عرب حج پر جانے والے پاکستانیوں کوپولیو کے قطرے دوبارہ پلائے جاتے ہیں۔ پچھلے برس اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی تھی جس میں ایک بابا پولیو کے قطرے پی رہا تھا۔ایک بات ذہن میں رہے کہ پولیو بڑے لوگوں کو بھی ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے ایک صدر ایف ڈی ارکو دورانِ صدارت 1942 میں پولیوہو گیا تھا۔ اگرہم نے پولیو کے خلاف مہم کو کامیاب نہ بنایا تو ہمارے ملک کی صورتحال بڑی خراب ہوجائے گی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو امریکہ ڈرون حملے کرکے ہمارے لوگوں کو ماررہا ہے دوسری طرف ہم خود معذور لوگوں کی فوج تیار کر رہے ہیں۔ امریکہ کو چاہئے کہ وہ ڈرون حملے بند کردے۔ ہم خود ہی آئندہ دس برسوں میں 70ہزارمعذور بچے پیداکردیں گے اور پھر چند برسوں میں ہم خود ہی یہ تعداد لاکھوں تک پہنچادیں گے۔ پاکستان میں تاحال چار لاکھ سے زائد بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم ہیں۔ جن کی عمر پانچ برس سے کم ہے اس وقت پورے ملک میں دو لاکھ 25ہزار پولیو ورکرز ہیں۔ جوصرف اورصرف ڈھائی سو روپے روزانہ پرگھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلاتی ہیں۔ یہ ڈھائی سوروپے آج کے دور میں کیا ہیں؟ دوسروں کے بچوں کوپولیو کے قطرے پلانے والی ماؤں کے اپنے بچے ان کی مامتا سے محروم ہوگئے۔پھرظالموں نے چھوٹی چھوٹی عمرکی پولیو ورکرز کوبھی ماردیا اور اگریہ مہم بند رہی توصوبہ سندھ کے 73لاکھ 71ہزاربچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہ جائیں گے اورہزاروں بچے معذوری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ انسداد ِ پولیو مہم کی سفیر آصفہ بھٹوزرداری کی سفارش پر صدر نے جاں بحق لیڈی ورکرز کیلئے پانچ پانچ لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ پانچ لاکھ روپے کیا ان متاثرہ خاندانوں کے لئے زندگی بھر کے لئے کافی ہیں ہرگز نہیں۔ حکومت کو متاثرہ خاندان کے افراد کے لئے کوئی بہتر اور مستقل روزگار فراہم کرنا چاہئے۔ان ہلاک ہونے والی پولیو ورکرز کی اہمیت ملالہ یوسف زئی سے کسی طورپر کم نہیں بلکہ زیادہ ہے انہوں نے تو اپنی زندگی کا نذرانہ دیا ہے۔ یہ تو پاکستان کی آنے والی نسلوں کوزندگی بھر کی معذوری سے بچانے کا فریضہ ادا کر رہی تھیں۔ ایک ایسا فرض جس کاہمارا مذہب بھی حکم دیتا ہے کہ اگر کسی نے ایک جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ ملالہ یوسف زئی کی تو عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی ہے۔ ان غریب ورکرز کے لئے بھی حکومت کواتنی ہی آواز اٹھانی چاہئے جتنی ملالہ یوسف زئی کے لئے اٹھائی گئی ہے۔ اگرحکومت نے اور خصوصاً رحمن بابا نے اس واقعہ کاسنجیدگی سے نوٹس نہ لیا تو کوئی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا حصہ نہیں بنے گا۔ تعلیم سے بھی زیادہ صحت ہے۔ اگراس ملک میں معذور لوگوں کی فوج تیارہوگئی تواس غریب ملک کی معیشت پر بہت بوجھ پڑے گا۔
حکومت کے ترجمان اور خیبرپختونخواکے وزیر اطلاعات افتخار حسین کا یہ کہنا ہے کہ باہر کے ممالک میں کے پی کے بارے میں یہ تاثر قائم کرتی ہے کہ وہاں کے لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پینے دیتے اور جو لوگ وہاں کام کر رہے ہیں انہیں واپس بھیج دیا تاکہ اس خطے کا معاشی قتل کیا جاسکے۔ اپنی جگہ درست ہوگا مگر اصل بات یہ ہے کہ حکومت پولیو قطرے پلانے والی ٹیموں کو مکمل تحفظ فراہم کرے اور اس سلسلے میں مذہبی رہنماؤں سے بھرپور مدد لے تاکہ لاکھوں پاکستانی بچوں کو معذوری سے بچایا جاسکے۔ یہ ملک کے خلاف بڑی سازش لگتی ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان میں لاکھوں افراد معذور ہوجائیں۔
تازہ ترین